سورہ ابراہیم کا آئینہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورہ ابراہیم 14
یہ سورت بهی سورہ رعد کے متصل نازل ہوئی معلوم ہوتی ہے اس میں وہی انداز بیان ہے.کافر اپنی  ہر طرح کی چالیں  جومسلمانوں کے خلاف  چل رہے تهے.ان کو پچھلی قوموں کی سزاؤں کی بابت بتایا گیا ہے.سورہ رعد میں فہمائش، تنبیہ، تهی تو اب ڈراوا،اور دهمکی میں تندی و تیزی بهی ہے مسلمانوں کو ایک پر امن ٹهکانہ دینے کی تسلی بهی ہے . گویا  رب رحمان و رحیم نے یہ  طریقہ  انسانوں کو  نصیحت کرنے  کا بتایا ہے کہ نصیحت کرو پہلے نرمی سے،پهر تنبیہات مثال دے  کر اور اس کے بعد ملامت زجر و توبیخ ہو..
داعی یا مبلغ کا کام راہ راست پیش کر دینا ہے.اس راستے کی مشکلات اور انجام بخیر کی خبر دینا ہے.دنیا کی بے ثباتی واضح کر دینا اور نافرمانی کے برے انجام سے  ڈرانا ہے کوئی  پیغمبر بهی کسی انسان کو اپنا پورا زور لگا کر بهی ہدایت  نہیں بخش سکتا ہے. جس نے کوئی سبق  سیکھنا ہو وہ”ایام الله” یعنی تاریخی واقعات سے  بہت کچھ سیکھ سکتا ہے.اورآثار کائینات پہ غور و فکر کر کے  شکر گزار بندہ بن کر رہ سکتا ہے.
اس سورت میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بهی دعوت کے حق ہونے یا نصیحت کے درست ہونے کا  خاصہ یہ ہےکہ انکارو مخالفت کرنے والے بهی دل  میں اس کے معقول ہونے کو  مانتے ہیں. ایک اضطراب کی کیفیت قلب و زہن میں کهلبلی ضرور مچاتی ہے.ہٹ دهرمی
ضد،  عناد.کی بناء پہ وہ اس نصیحت   کے راستے سے  دور ہوتے  جاتے ہیں جس کا انجام بربادی ہوتا ہے..  یہ لوگ دنیا میں نیکی  کے جتنے بهی کام کریں ان کی کوئی قدروقیمت نہ ہوگی( آیت18)اور شیطان سمیت سارے لیڈر جو لوگوں کو گمراہ کرتے رہے قیامت کے دن خود کو ہری الزمہ قرار دیں گے.کہ ہمارا کوئی پہ زور تو نہیں تها اب خود کو ملامت کرو.سوچنے کی بات یہ ہےکہ اگر کوئی پیغمبر کسی کو زبردستی ہدایت نہیں دے سکتا تو کس میں اتنا زور ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے کو گمراہ کردے..
کلمہ طیبہ کی مثال اچهے درخت سے دی گئ  ہے..یعنی کلمہ توحید کا بیج دل کی  زمین میں پیوست ہو تو اس کے  نتیجے میں انسان کے اخلاق وأعمال سے ہر وقت ہر کس قسم کے حالات میں ایمانی   رویہ ہی ظاہر ہوتا ہے اور اس صالح انسان کی طرف سے خیرو بهلائی کے ثمرات  پوری کائینات پہ اثر انداز ہوتے ہیں.کیونکہ ساری کائینات میں ایک  غیر محسوس ربط و ضبط رکها گیا ہے.اس کے بر عکس  کلمہ خبیثہ کے بارے میں مثال دی گئی ہے.اس کے حامل انسان شر و برائی کا ہی معاملہ کرتے ہیں اور وہ کائینات کا توازن بگاڑتے  ہیں.
وان تعدوا نعمت الله لا تحصوها
ہمارے سامنے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنے رویے کو جانچ سکتے ییں جو ہم نے اپنے رب سے  روا رکها ہوا ہے..
الله تعالى نے تو ہماری ساخت، فطرت کے مطابق بقا اور ارتقاء کے لئے جو مطلوب تها مہیا  کیا وسائل  دئے ہر شے مسخر کردی اور جوابا ہمارا اپنے رب سے کیا معاملہ ہے؟اور  یہ لینے دینےکا کیسا   پیمانہ ہے؟اور  ناشکری کا پیمانہ نعمتوں کو پاکر کیسا ہے؟رب کا بندے سے گلہ کرنا  کسقدر سچ ہے(. حقیقت یہ ہےکہ  انسان بڑا ہی بے انصاف اور نا شکرا ہے آیت 34)  انسان کا اپنے رب سے یہ بے انصافی اور باشکرےپن کا رویہ ہے تو باہم حقوق العباد میں کسقدر بے انصافی اور ناشکر گزاری یوگی.لیتے وقت پیمانے اور طرح کے اور دیتے وقت کسی اور طرح کے…
سیدنا  ابراہیم علیہ السلام  نے اپنے رب کو وہ پیش کیا جو رب نے چاہا.رب نے اپراہیم علیہ السلام کو وہ دیا جو انہوں نے مانگا.اولاد کو وہ دیا جو ایک باپ کو دینا   چاہئے جوابا اولاد نے وہ دیا جو اولاد کا فرض  تها.
ہمارا رب ہمیں کیا  عطا کر رہا ہے ہم جوابا کیا پیش کر رہے ہیں؟ہم اولاد کو  کیا دے رہے ییں اور  کیا توقعات لگائے ہوئے ہیں؟؟؟؟
رب اجعلنی مقیم الصلوتی ومن زریتی ربنا و تقبل دعاء ربنا اغفرلی والوالدی وللمؤمنين یوم یوم الحساب آمین
طالب دعا
بشری تسنیم

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s