سراپا اخلاص شخصیت


اللہ رب العالمین اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے کہ وہ دنیا میں نیکی کا چراغ جلانے والوں کو کبھی ختم نہیں کرتا اور ہر دور ہر خطہ میں ایسی نابغہ روزگارشخصیات اٹھائی جا تی ہیں جو کلمہ حق کی سربلندی کے لئے دل بیدار، لالے کی آگ کو تیز کرنے والا جذبہ ، اندھیروں میں راہ دکھانے والا روشن دماغ اوررہوار وقت کے ساتھ چلنے والا قلم رکھتے ہیں۔ برصغیر سے اٹھنے والی عظیم الشان تحریک اوراس کے بانی مولانا سیدابوالاعلی مودودیؒ ایک مثال بے مثل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہوتی ہے کہ عظیم الشان کام کا بیڑہ اٹھانے والوں کو عظیم الشان ساتھی، جان نثار اور سچے عاشق بھی نصیب ہو جاتے ہیں۔ مولانا نعیم صدیقیؒ بھی انہی عاشقان صادق میں شمار ہوتے ہیں۔
اس عظیم تحریک کے قافلہ شوق کی داستان جلیل وجمیل جب بھی دہرائی جائے گی، ’’نعیم صدیقی‘‘ کا نام اور کام لازماً یاد کیا جائے گا۔اس قافلے کی داستان لازوال، روح پرور دینی ولولوں، کفروباطل کے ساتھ جان گسل تصادموں اور رنج ومحن کی داستان جان گداز میں نعیم صدیقیؒ اپنا حصہ ضرور پائیں گے اور محب اور محبوب ان شاءاللہ الگ نہ رکھے جائیں گے کہ جو جس سے محبت رکھتا ہے اس کے ساتھ رکھا جائے گا۔
نعیم صدیقیؒ کی تصانیف میں سے میری نظروں کے سامنے بے شمار طویل مضامین، نظمیں کتابیں یکے بعد دیگرے آرہے ہیں۔ جن پر طویل ترین بات ہوسکتی ہے۔ قلم کے اس جری سپاہی نے واقعی اپنے اس ہتھیار سے تلوار کا کام لیا۔ جذبوں میں نئی زندگی بھرنے کا جو ردھم ان کی نظموں میں ہے اور جو صدا ان میں ہے وہ ایک علیحدہ مضمون بلکہ ایک کتاب کی متقاضی ہے کہ
’’واقعی ان کے اشعار تلوار سے زیادہ کاٹ رکھنے والے ہیں‘‘۔
نعیم صدیقی کی تصانیف خصوصا "محسن انسانیت” ان کی زندگی کا ایک لازوال کارنامہ ہے۔ اس کتاب نے اس عظیم الشان تحریک کو زندہ چلتی پھرتی، اٹھتی،بیٹھتی دھڑکتے دل والی تحریک کا نمونہ بنا کر پیش کیا۔ جس کی بدولت ہم مولانا کی اٹھائی ہوئی تحریک کو اپنے ارد گرد سانس لیتے ہوئے محسوس کرسکتے ہیں اور حضورﷺ کی بے پایاں رحمتوں سے قوی امید ہے کہ وہ مولانا نعیم صدیقیؒ کی اس قلمی خدمت کو قبول فرما کر ان کے بلندی درجات کا باعث بنائیں گے۔
قلم کے بے باک مجاہد کی اور بہت سی خوبیوں کا ادراک دنیا میں بے شمار لوگوں کو ہوا ہوگا۔ میں ذاتی طور پر ان کی دردمندی،سلیم القلبی، حساس دل سے بے حد متاثر ہوئی۔ اسی جذبہ درد مندی کا اثران کی تحریروں اور اشعار میں بھی ملتا ہے۔ہر لفظ گویا ایک دھڑکتا وجود ہے۔
مولانا نعیم صدیقیؒ اور مولانا عبدالوکیل علوی(چچا جان) ایک ہی دفتر میں کام کرتے تھے، کبھی کبھار ان کے د فتر جانے کا اتفاق ہوتا تو ان کی شفقت میسر آتی۔ چچا جان بھی گھر آکر اکثر اپنے دفتر کی باتیں بتاتے تو ان کا بھی تذکرہ ضرور ہوتا تھا۔ دھان پان مگر مضبوط کردار وعمل کی شخصیت سے پدرانہ شفقت کا احساس اجاگر ہوتا۔۲۵،۳۰ سال پہلے بچپن ولڑکپن کی باتیں بعض اوقات انسان کو بہت کچھ سکھاجاتی ہیں۔ جن کا پہلے کبھی خیال نہ گزرا ہو۔
سعودیہ سے ہم لاہور شفٹ ہوئے تو ان سے ملاقات کرنے گئی۔ منصورہ میں ان کی رہائش انتہائی درویشانہ طرز زندگی کا نمونہ تھی۔ بہت شفقت سے ملے بچوں کو بہت پیار اور دعائیں دیں۔ "محسن انسانیت ” اپنے ہاتھ سے محبت سے دی اور اس پر خصوصی نوٹ لکھا۔عورت معرض کشمکش میں بھی اس طرح عنایت کی۔ ان کی خصوصی تحریروں کے ساتھ کتابیں اور ان کی دعائیں میرے لئے وجہ افتخار ہیں۔
نویرہ رحمان کی شادی پر خاص طورپرمکتوب لکھا اور مبارکباد دی۔ ان کی ہر تحریر اور ہر خط میں شفقت کا احساس نمایاں ہوتا ہے ۔ ایک مرتبہ ان سے دعا کی درخواست کی کہ وہ میری بیٹی کی گود ہری ہو جانے کے لئے خصوصی دعا فرمائیں۔یہ ایک ایسی درخواست تھی جو ہر بزرگ سے کی جاتی ہے مگر میں حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گئی جب ان کی طرف سے اس سادہ سے معاملے کو نتہائی رقت کے ساتھ احساس کرتے پایا۔فوراً بہت طویل خط لکھا۔پھر چند روز بعد ایک اور خط لکھا جس میں ان کے دل کی بے قراری صاف معلوم ہوتی تھی۔پھر ایک وظیفہ ارسال کیا۔اس دوران فون بھی کئے اور جس انداز میں حال احوال پوچھاوہ یقینا ایک دردمنددل رکھنے والے باپ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔
چونکہ اپنی بچیوں کے حوالے سے وہ مجھے اپنے تاثرات وپریشانی کے متعلق بتاچکے تھے۔اس لئے بے حد پریشان تھے۔میں نے ان کو بتایا کہ الحمد للہ نویرہ کے سسرال والے مثالی لوگ ہیں اور مجھے یا میری بیٹی کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہے۔ فرمانے لگے
’’ بیٹیاں کب اپنے ماں باپ کو حال دل بتاتی ہیں، کسی اور سے معلوم کرواؤ ‘‘۔
میں نے بھرپور طریقے سے تسلی دی کہ نویرہ کی ساس نند اور شوہر انتہائی دین دار، سمجھ دار تعاون کرنے والے محبت کرنے والے ہیں۔ میں نے بہت تفصیل سے اپنے اور نویرہ کی ساس کے ساتھ دوستی،تعلق اور محبت کے بارے میں بتایا ۔
انہوں نے اپنی تصنیف ’’عورت معرض کشمکش‘‘ میں جس انداز سے عورت کے احساسات کو اجاگر کیا ہے وہ بھی ان کی دلی ہمدردی کا مظہر ہے۔
اپنی بیٹیوں کے حوالے سے ان کادل کس قدر بے قرار تھا۔ اس احساس نے ان کو سب بیٹیوں کیلئے رقیق القلب بنادیا تھا۔ ایسے ہی حوالے سے انہوں نے ایک کام میرے سپرد کیا جس کو میں نے اپنے بیٹے کے مشور ے اور تعاون سے ٹوٹا پھوٹا کرنے کی کوشش کی۔ اس کو انہوں نے اتنا سراہا اور اتنی دعائیں دیں کہ مجھے اپنا حقیر سا وجود بھی کچھ کام کامحسوس ہونے لگا۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی دعائیں ہمارے حق میں قبول فرمائے۔ آمین۔
مولانا نعیم صدیقی نے رہنما تحریروں کا سلسلہ شروع کیا تو خاص طورپر اس ناچیز کو یاد رکھا اور میرے نام اس کا ہر شمارہ وصول ہوتا رہا۔ ان کی طرف سے عطا کردہ خصوصی وظیفہ روزانہ پڑھتی ہوں اور ان کے لئے دل سے مغفرت بلندی درجات کی دعا نکلتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ہر جملے ہر لفظ کو اپنی رحمت واسعہ کے مطابق شرف قبولیت عطا فرمائے اور ان کی خطائوں سے درگزر فرمائے۔اللہ رب العالمین ہم سب کو بھی اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے اور ہم سب کو معاف فرمائے کہ وہ غفورالرحیم ہے اور ہم سب کا انجام صالحین وصادقین کے ساتھ ہو۔آمین۔
نعیم صدیقی رحمۃاللہ علیہ کا وہ دعائیہ خط میرے لئے یاد گار ہے جو انہوں نے مجھے کلینک کے افتتاح کے لئے لکھا تھا اور مجھے انہوں نے ہی ڈاکٹر لکھنا کہنا شروع کیا اور مجھے ڈاکٹر لکھنے کی تاکید بھی کی ۔ خطوط میں میری مختلف رسائل میں شائع شدہ تحریروں پہ خوبصورت تبصرے کرتے اور شاباش دیتے ۔ وہ تمام خطوط نعیم صدیقی کے مجموعہ خطوط میں شائع ہو چکے ہیں ۔۔ ان کے ہاتھ کے تحریر کردہ خطوط میرے پاس ابھی تک محفوظ ہیں۔ سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ کی طرف سے میرے نام خطوط بھی مکتوبات مودودی میں شامل ہیں اور ان کی طرف سے موصولہ خطوط تادیخ کا حصہ بنانے کے لیے سید مودودی میوزیم کے لیے ہدیہ کر دئے ہیں ۔ الحمدللہ

تبصرہ کریں