تعطیلات میں بچوں کی تربیت

تحریر: ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

آج کے عدیم الفرصت دور میں اگر خوش قسمتی سے فرصت کے کچھ لمحات میسر آ جائیں اور اہلِ خانہ مل جل کر کچھ وقت گزار سکیں تو بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت سے کم نہیں۔ اسی بات کی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مصروفیت سے پہلے فرصت کو غنیمت جانو۔‘‘ (المستدرک للحاکم: 7846)
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے فرصت کے ان لمحات کو بہترین انداز میں صرف کرنا چاہیے۔ بالخصوص انفرادی اصلاح، گھر کے ماحول کی بہتری، بچوں کی تربیت اور کردار
سازی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بنا کر ایک مربوط پروگرام ترتیب دینا چاہیے۔

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم فرصت کے لمحات کی صحیح معنوں میں قدر نہیں کرتے۔ ملک کے بعض حصوں میں ہر سال گرمیوں کی اور بعض علاقوں میں سردیوں کی طویل چھٹیاں آتی ہیں۔ ان کی آمد جہاں طالب علموں، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے کارکنان کے لیے باعثِ مسرت ہوتی ہے، وہاں گھر کی خواتین کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ اس قیمتی وقت کو کما حقہ استعمال نہیں کر سکتیں اور نہ ان دنوں ہی سے فیض یاب ہو پاتی ہیں۔ چھوٹے بچوں کی مائیں
اور خصوصاً لڑکوں کے والدین ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ اس ضمن میں چند عملی نکات پیش خدمت ہیں:

o.  پہلا مرحلہ شب و روز کے لیے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے پیش نظر کہ صبح کے وقت میں برکت ہے، اپنے دن کا آغاز نمازِ فجر سے کیجیے۔ نمازِ فجر کے بعد ہی سے دن بھر کی سرگرمیوں کا آغاز کیجیے۔ یہ بہترین اور بابرکت وقت سونے کی نذرنہ کریں۔ عام طور پر تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی بچوں کا رات کے وقت جاگنے اور صبح دیر سے اٹھنے کا معمول بن جاتا ہے جو کہ نامناسب اور خلافِ فطرت ہے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی نمایاں ہے کہ لوگ رات گئے اسے دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رات آرام و سکون کے لیے اور دن کام کے لیے بنایا ہے، اس کے لیے والدین خود عملی نمونہ پیش کریں۔
بچوں کی عمر، تعلیم، مصروفیات کو مد نظر رکھ کر بچوں سے مشاورت کر کے سونے کے اوقات کا تعین کر لیاجائے اور اس پہ کاربند بھی رہا جائے۔ رشتہ دار بہنوں بھائیوں کے سامنے اس بات کا اظہار نہ کریں کہ ’’لمبی چھٹیاں ہو گئی ہیں، اب تو ہر وقت بچے سر پہ سوار رہیں گے۔‘‘ اگر اپنے بچوں کا استقبال ان جملوں سے کریں گی تو آپ کے اور بچوں کے درمیان پہلے دن ہی دُوری پیدا ہو جائے گی۔ اور وہ وقت جو آپ کے حسنِ استقبال سے بچوں کے دلوں میں بہار لا سکتا تھا ضائع ہو جائے گا۔

o. بچوں کے ساتھ مل کر ہر ہفتے کا پروگرام ترتیب دیجیے۔ ان کے ذہن اور دلچسپیوں کے مطابق ذمہ داریاں بانٹ دیجیے۔ فون پہ گھنٹوں گفتگو میں مصروف رہنا وقت کا ضیاع اور بچوں کی حق تلفی ہے۔ جب آپ کی سب سے ’’قیمتی متاع‘‘ اور ’’خزانے‘‘ آپ کے سامنے موجود ہیں، جن کی حفاظت و نگہبانی پہ آپ کے ’’مستقبل‘‘ یعنی اُخروی زندگی کی کامیابی کا دارومدار ہے تو اس خزانے کو ضائع کیوں کریں؟ جس گھر میں جتنے بچے ہیں، یقین جانیے اتنے ہی حل طلب پرچے موجود ہیں۔ اس وقت ان ’’پرچوں‘‘ میں بہترین گریڈ حاصل کرنے کا کام دنیا کے سب کاموں سے زیادہ اہم ہے۔

o.  فجر کی نماز کے لیے اُٹھنے پہ انعام دیا جا سکتا ہے۔ ایک بھائی یا بہن کی فجر کے وقت اٹھانے کی ذمہ داری لگائیے اور پھر اس کو تبدیل کرتے رہیے تا کہ سب کو ذمہ داری کا احساس ہو، اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی میں تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔ ایک دوسرے کا حفظِ قرآن سن لیں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں۔ اجتماعی مطالعے کی ایک مختصر نشست بھی ہو سکتی ہے جس میں چند آیات کی مختصر تفسیر، ایک حدیث کا مطالعہ یا اسلامی لٹریچر سے کچھ انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ عملی رہنمائی کے طور پر روز مرہ کی دعائیں، نماز اور اس کا ترجمہ، نمازِ جنازہ، مختصر سورتیں وغیرہ تھوڑی تھوڑی کر کے یاد کرائی جائیں۔ گھر کے افراد کے ساتھ ’’آج کے ایجنڈے‘‘ پہ بات ہو۔ سب اپنی اہم مصروفیات کے بارے میں دوسروں کو آگاہ کریں۔ اپنے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے مشورہ طلب کریں اور تعاون کی پیشکش کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے پیش نظر کہ جس کا آج اس کے کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہو گیا، گزشتہ کل کا جائزہ بھی لیا جائے کہ اپنے آج کو گزشتہ کل سے کیسے بہتر بنایا جائے۔ اس طرح اپنا جائزہ و احتساب اور مشورہ دینے اور قبول کرنے کی تربیت بھی ہو گی۔ اگر چند منٹ بھی مل کر بیٹھیں گے تو اس کی برکت کے اثرات بہت جلد محسوس ہونے لگیں گے۔ نمازِ فجر ادا کر کے جلد از جلد سونے کی غیر فطری روایت نے انسانی روح کا حسن غارت کر دیا ہے۔ نماز فجر کے بعد سونا ناگزیر ہو تو بھی دوبارہ اٹھنے کا وقت مقرر کر دیا جائے۔ ایک زندہ قوم کی نشوونما کرنی ہے تو آج والدین زندہ لمحات کو اپنی زندگی میں جذب کریں۔

o.  چھٹیوں میں سب اہلِ خانہ ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا ایک ساتھ کھائیں تو باہمی محبت میں اضافہ ہو گا۔ بچوں اور بچیوں کو جس قدر ہو سکے اپنے قریب رکھیے۔ کمپیوٹر ایسی جگہ پر رکھیے جہاں آپ اس پہ نظر رکھ سکیں۔ اگر آپ کو کمپیوٹر سے کوئی لگاؤ نہیں تو اس کی تھوڑی بہت مشق آپ کو کرنی چاہیے۔ جب چھوٹے بچوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے والدین سے زیادہ کچھ جانتے ہیں تو ایک احساس برتری پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا اکثر بچے اپنی ماؤں کو اندھیرے میں رکھتے ہیں کہ ہم کام کر رہے ہیں، حالانکہ وہ جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں مائیں ان سے غافل ہوتی ہیں۔ کمپیوٹر نے اس دور کے ماں باپ کو سخت امتحان میں مبتلا کر دیا ہے۔ اکثر ماں باپ نے اس آزمائش و امتحان میں کامیاب نہ ہو سکنے کا اعلان کر کے، جیسے خود کو برئ الذمہ قرار دے لیا ہے۔ احساسِ مروت کو کچلنے والے آلات کا مقابلہ خلوصِ نیت، مستحکم ارادے، سچے ایمان اور مناجات کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ واقعی اگر ہم یہ راز جان لیں کہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی اور جب تک آنکھیں اشک بار نہ ہوں تو مناجات بھی بے اثر رہتی ہیں۔

o. فرصت کے لمحات کو محض ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کی نذر نہ ہونے دیں۔ بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ان کو متبادل مصروفیات اور مشاغل دیں۔ بچوں کو ان کی عمر اور ذوق کے لحاظ سے کوئی نیا کام سکھانے کی کوشش کیجیے۔ کاغذ کے کھلونے بنانا، کاغذ پہ تصویر بنانا، رنگ بھرنا، سلائی کرنا، کسی ڈیکوریشن پیس کو صاف کرنا، والد لڑکوں کو ساتھ ملا کر گھر کی مرمت طلب اشیاء کو ٹھیک کر سکتے ہیں کہ مل جل کر گھر کے بگڑے کام سنوارنا بھی ایک فن ہے۔ آپ کو یہ کامیابی اسی صورت میں ملے گی، جب آپ اپنی پوری توجہ، وقت اور معاونت بچے کو مہیا کریں گی۔ اسکول کے ہوم ورک کی مرحلہ وار تقسیم کر کے اپنی نگرانی میں روزانہ تھوڑا تھوڑا کر کے کام کروائیے۔ ٹیوشن پڑھوانا مجبوری ہو تو بچے کے معاملات پر نظر رکھیں۔

 گھر میں لان یا کیاری کی جگہ ہو تو بچے کو کوئی پودا اُگانے اور اس کی نگہداشت کرنا سکھائیے۔ بچوں کی ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ انھیں وقت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اپنی مصروفیات میں سے اس کے لیے بھی وقت رکھیں۔ یہ بچوں کا حق ہے جو انھیں ملنا چاہیے۔ والدین کی شفقت سے محرومی کے نتیجے میں بچے احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی جذبہ منفی رُخ اختیار کر لے تو بچے غلط صحبت اختیار کر لیتے ہیں اور انتقامی جذبہ سر اٹھا لیتا ہے۔

o.بچوں کے دوستوں کو گھر بلوائیے اور ان کی عزت کیجیے، ان کو توجہ دیجیے تا کہ وہ آپ پہ اعتماد کریں۔ بچوں کے دوستوں کے گھر والوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیے۔ اگر آپ کے خیال میں ان کے گھر کے ماحول سے آپ مطمئن نہیں تو بچے کو بر ملا نہ کہیں۔ حکمت و تدبر سے کام لیجیے تاکہ آپ کے اور بچے کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔

o. بچوں میں ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانا، اس کی تسکین کا سامان کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ اچھی اچھی کتب و رسائل پڑھنے کو فراہم کریں۔ بچوں کو کہانی سننا اچھا لگتا ہے۔ دلچسپ انداز میں کہانی سنائیے، بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کہانی پڑھیے اور پھر اس پر بات چیت ہو۔ ذوقِ مطالعہ بڑھانے میں یہ مدد گار ہو سکتا ہے۔ کسی اچھی لائبریری کا تعارف کروائیے اور معیاری کتب منتخب کر کے دیں۔ اس طرح اسلامی لٹریچر اور علم کی ایک وسیع دنیا تک ان کی رسائی ہو جائے گی۔
اچھائی اور برائی کے پہلو کی بچے کی عمر کے مطابق وضاحت کریں۔ قرونِ اولیٰ کے بچوں کی ایمانی کیفیت اور اعلیٰ اخلاق و کردار کی کہانیاں سنائی جائیں۔ جن تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہیں وہاں کے ماحول اور نصابِ تعلیم کے بُرے اثرات آپ کو اپنی محنت و خلوص سے ہی ختم کرنے ہوں گے۔ اگر ختم نہ بھی ہوں تو آثار کم تو کرنا ہی ہیں۔ آپ محنت کی مکلف ہیں۔ دو ڈھائی ماہ بچے آپ کے لیے عذابِ جاں نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کے پیش نظر انھیں توجہ دینا، وقت لگانا ان کا بنیادی حق اور تربیت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ یہ آپ کا اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ آپ اس کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہیں۔ آپ راعی ہیں، اپنی رعیت کی نگہبانی آپ نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ اپنی اولاد کو اچھی تعلیم وتربیت کی صورت میں بہترین تحفہ دے سکتے ہیں۔

o. روزانہ نہ سہی ہفتے میں چند احادیث بچوں کو ضرور یاد کروائیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات، محبت کے مظاہر یاد کرواتے رہیں تو بہترین نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ کلامِ اقبال کے مختلف حصے بھی یاد کرائیے۔ یہ چیز بھی ان کی تربیت پہ بڑی خوبی سے اثر انداز ہو گی۔

o. آج کے بچے کل کے قائد ہیں۔ مستقبل کی قیادت کی تیاری کے پیش نظر گھر کی ذمہ داریوں کو بچوں میں تقسیم کر کے ان کی صلاحیتوں کا امتحان لیا جا سکتا ہے، مثلاً: نو عمر (Teen Age) بچوں کے ساتھ کبھی یہ تجربہ کر کے دیکھا جائے کہ ایک دن والدین گھر میں اپنی ذمہ داریاں اپنی جگہ اپنے بچوں کو سونپ کر خود بچے بن جائیں۔ بچوں کو باری باری سے ایک دن کی ’’بادشاہت‘‘ دے کر ان کے چھپے ہوئے جوہر کو سامنے لایا جا سکتا ہے، اور یہ ایک دلچسپ تجربہ بھی ہو گا۔

o. نو عمر بچوں کو ’’جج‘‘ بنا کر گھر میں چھوٹے موٹے خاکے، کھیل کے طور پر پیش کیے جائیں تا کہ ان کو انصاف کرنے، فیصلہ کرنے کی تربیت دی جا سکے۔ بچوں کی لڑائی میں صلح کرانا، ان کی شرارتوں، نادانیوں کی اصلاح کرانے کے لیے ان سے تعاون لیا جا سکتا ہے۔ جب نو عمر بچوں سے ذمہ دار اور قابلِ اعتماد ہستی کے طور پر برتاؤ کیا جا تا ہے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔
نو عمر بچوں کو احساس دلانا کہ وہ گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ’’راعی‘‘ ہیں، لہٰذا شفقت و محبت اور تحمل و برداشت سے ان کی بہتری کے لیے کوشاں رہیں۔ والدین کی نگرانی اور توجہ سے تربیت کا یہ عمل اگر آگے بڑھتا رہے تو ایک اہم پیش رفت ہو گی۔
لڑکوں کو باجماعت نماز کی عادت پختہ کرائیے۔ گھر میں فیملی کے ساتھ بھی کبھی کبھار باجماعت نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ اس طرح نوعمر لڑکوں کو امامت کے آداب سکھائے جا سکتے ہیں۔

o. جمعہ کے دن کو خاص اہمیت دینا، اہل خانہ کامل کر ’’سورۂ کہف‘‘ کی تلاوت کرنا باعث سعادت و برکت ہو گا۔ ہر فرد ایک رکوع کی تلاوت کر کے ثواب میں حصہ دار ہو سکتا ہے۔ جمعہ کی جماعت کے لیے سب اہلِ خانہ تیار ہو کر مسجد میں جائیں تو گھر میں صبح سے جمعہ کی تیاری، نماز میں شرکت سے ’’عید‘‘ کا سماں بندھ جائے گا۔ اگر اہتمام سے کسی اچھے مقرر کے خطاب جمعہ کو سنا جائے تو جمعہ کی تربیتی اہمیت بھی اجاگر ہو گی اور دین کا فہم اور فکری غذا بھی میسر آئے گی، نیز ایک تسلسل سے ہفتہ وار تربیت کا عمل جاری رہے گا۔

o. گھر میں یا گھر سے باہر بچوں کے ’’اسلامی نغمے‘‘ سننا اور اس میں ہم آواز ہونا، آپس میں رفاقت اور محبت کی خوشی کو دو چند کر دے گا۔ اس سے بے تکلفی کا ماحول پیدا ہو گا۔ یہ ذہنی دباؤ کم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔

o. کبھی کبھار بچوں کے ساتھ ان کی ذہنی سطح پہ آ کر کھیل میں شریک ہونا، ان کی باتوں میں دلچسپی لینا، اپنے بچوں کے ساتھ کھیل میں مقابلہ کرنا، کبھی جیت کر، کبھی بچوں سے ہار کر، دونوں کیفیات میں صحیح طرزِ عمل کی تلقین سے کھیل ہی کھیل میں بچوں کی جذباتی تربیت کے ساتھ ساتھ کئی غلطیوں کی اصلاح ہو گی۔ اگر صبح یا شام کے وقت بچے باقاعدہ کھیل کے میدان میں جا کر کھیل سکیں تو یہ بہت مفید سرگرمی ہو گی۔

o. نو عمر بچوں پہ اپنے خیالات کو حاوی کرنا، اپنی پسند اور رائے کو زبردستی ٹھونسنا مناسب نہیں۔ دلیل سے بات کو منوائیے۔ یہ عمر اپنی صلاحیتوں کا اظہار چاہتی ہے۔ ان سے مشورہ لینا اور تحمل سے ان کا نقطۂ نظر سننا ان کے اعتماد کو بڑھاتا ہے۔ کبھی ان کے مشورے اور رائے کے سامنے اپنی رائے چھوڑ بھی دینی چاہیے۔ بعض اوقات بچوں کے مشورے اور رائے کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ وہاں جاتی ہے جہاں بڑوں کی نگاہ نہیں جاتی۔ بچوں کے ذہن اور عمر کو مد نظر رکھ کر بھی معاملات کو جانچا جائے۔

o. بچوں کے ساتھ صبح یا شام کو اگر کہیں ممکن ہو تو کسی پارک میں، نہر کے کنارے یا ساحلِ سمندر پہ پیدل چلنے کی عادت ڈالی جائے۔ فجر کے بعد کھلی فضا میں چہل قدمی کا لطف اٹھائیے۔ کائنات کے اس وقت کا حسن خالق کائنات کے قریب کرنے کا موجب ہو گا۔ بچوں کو کائنات پہ غور و فکر کی دعوت دیجیے۔

o. طویل چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر سکھا سکتے ہیں، مثلاً: خوش خطی، مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کچھ مزید کام اور خواتین سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ سکھا سکتی ہیں۔ اپنے تجربات و مشاہدات کو آپس میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ بچے ہمارا مشترکہ سرمایہ اور ہمارا مستقبل ہیں۔ بحیثیت اُمت مسلمہ ہماری ذمہ داریاں عام انسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ ان کو ادا کرنے کے لیے اجتماعی سوچ اور عمل کی ضرورت ہے۔

o. بچوں کو ہسپتالوں میں مریضوں کی عیادت کے لیے لے کر جانا، اللہ تعالیٰ کے شکر کا جذبہ پیدا کرنا اور دوسروں سے ہمدردی اور محبت کا اظہار کرنا سکھانا بھی ایک قابلِ ستائش عمل ہے، اس لیے کہ آج کے دور میں ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن ہے۔ ایک گھر کے افراد بھی ایک گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے دُور ہیں۔ یہ بے گانگی رشتوں کے باہم تعلق و تقدس کے لیے زہرِ قاتل ہے۔

o. بچوں کی تربیت اور کھانے کے عمل میں ماحول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تزکیہ و تربیت میں دعوتِ دین کی سرگرمیاں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر آپ کے ہاں درس قرآن، دوست احباب کو دعوت دینا، لٹریچر تقسیم کرنا، خدمت خلق کے تحت مستحق افراد کی مدد کرنا اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا معمول ہو تو یہ عمل بغیر کسی نصیحت اور تلقین کے بچوں کو خود بخود سیکھنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس طرح اُمت کے فرض منصبی، نبی کریمe کے مشن اور فریضہ اقامت دین کو فطری انداز میں بخوبی ادا کیا جا سکتا ہے، اور بچوں کو تحریک سے وابستہ کیا جا سکتاہے۔
بیرونِ ملک مقیم پاکستانی والدین کی ذمہ داری

o. بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی بچوں کو پاکستان کے حالات سے آگاہ کرنا، پاکستان کی تاریخ سے آگاہ کرنا، وطن اور امت محمدیہ سے محبت کا جذبہ پیدا کرنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر والدین خود پاکستان کے بارے میں منفی گفتگو کریں گے تو وہ بچوں کو وطن کی محبت کیسے سکھائیں گے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بچے جو انگریزی بولنے اور پڑھنے پہ فخر محسوس کرتے ہیں، ان کے والدین کو احساس کرنا چاہیے کہ یہ بچے پاکستانی ہو کر بھی پاکستانی نہ ہوں گے تو پھر ان کی شناخت کیا ہو گی؟ خصوصاً وہ پاکستانی بچے جو شرق اوسط میں یا ان ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں ان کو وہاں کی شہریت بھی نہیں مل سکتی تو وہ آخر کار پاکستانی پاسپورٹ پہ ہی پاکستان آئیں گے۔ اگر اپنے وطن سے پیار ہی نہ ہو گا تو وہ اس کے لیے عملی خدمات کیسے انجام دے سکیں گے، لہٰذا چھٹیوں میں ان والدین کو چاہیے کہ خاص طور پر اپنے بچوں کو پاکستان کے بارے میں ان کی ذمہ داریوں سے ان کو آگاہ کریں۔ اگر ممکن ہو تو اپنے وطن کی سیاحت اور عزیز و اقارب سے ملاقات کا پروگرام بھی بنائیے۔ اس سے جہاں وطن کی قدر پیدا ہو گی وہاں بہت سے چاہنے والوں کی پر خلوص محبتیں بھی ملیں گی جو قربت کا باعث ہوں گی۔
اگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ چھٹیوں میں کسی تفریحی مقام پہ جا رہے ہیں یا کسی رشتہ دار کے ہاں مقیم ہیں تو بھی یہ تربیت کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مظاہر، رشتہ داروں کے حقوق کی اہمیت کا ساتھ ساتھ احساس دلایا جاتا رہے۔ جتنا سفر میں انسان سیکھتا اور سکھاتا ہے۔۔۔ وہ گھروں میں ممکن نہیں ہوتا ۔۔۔ ہر وقت کا ساتھ ۔۔۔ کچھ نئے عوامل، سفر کے تجربات، بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملتا ہے۔

o. چھٹیوں میں اسلامی تربیتی کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں، والدین وہاں بچوں کو بھیجیں اور بیرون ملک رہنے والے اور تربیتی ادارے ان کیمپوں میں پاکستان اور اُردو زبان سے تعلق کا کوئی پروگرام ضرور رکھیں۔

o. گھر میں پاکستان کا تفصیلی نقشہ لٹکا کر رکھیں تا کہ بچوں کے ذہن میں ملک کا حدود اربعہ نقش ہو جائے، اور مقامات کی پہچان ہو جائے۔

o. پاکستانی اور سب سے پہلے مسلمان ہونے کا احساس، والدین اور خصوصاً والدہ کا طرز عمل خود ہی بچوں میں اجاگر کر دے گا۔ بچوں میں اتنی ایمانی جرأت پیدا کیجیے کہ وہ مسلمان ہونے اور پاکستانی ہونے پر فخر کر سکیں۔ اندرونی و بیرونی دشمنوں سے آگاہی دیجیے۔ اگر آج ہم نے پاکستان کے مفاد کے خلاف کچھ کیا ہے یا اپنے غیر ایمانی طرز عمل سے بچوں کو غلط تاثر دیا ہے تو اس غلطی کی اصلاح کیجیے۔ غلطی کرنا اتنا بڑا عیب نہیں جتنا بڑا عیب غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ تسلیم کریں گے تو اصلاح ہو گی۔ اپنی اصلاح ہو گی تو بچوں سے کچھ کہنے کے لیے اپنے اندر اعتماد پائیں گے۔

o. والدین میں سے ہر ایک اپنے خاندان کے مزاج، ماحول، حالات کو سامنے رکھ کر چھٹیوں کو اپنے لیے یادگار بنا سکتا ہے۔ مسلمان ہیں، مسلمان گھرانہ ہے تو اس کو عملی طور پر ثابت بھی کرنا ہو گا۔ حسنِ نیت اور خلوص سے بھرپور کوشش کرنے والوں کو ہی اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔

o.  آخرت میں وہ مسلمان والدین ہی اس ’’اجر عظیم‘‘ کے مستحق ہوں گے جنھوں نے اولاد جیسی نعمت کو ضائع نہیں کر دیا ہو گا بلکہ پوری ہوش مندی اور شعور سے ’’داعی‘‘ کی ذمہ داریاں نبھائی ہوں گی۔ (وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ) ’’ اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ‘‘ (الانفال8:28)

o. آج ہی عزم کیجیے ۔۔۔ پروگرام مرتب کیجیے ۔۔۔ چھٹیوں کے ہر دن کو ایسا بنانا ہے کہ وہ ’’گزرے کل سے بہتر ہو۔‘‘ اِک نئے جذبے سے بچوں کے ساتھ دوستی، محبت کا رشتہ استوار کیجیے۔ اپنے لیے، امت مسلمہ کے لیے، اللہ کی رضا کے لیے، اپنی آخرت سنوارنے کے لیے۔ ضروری نہیں کہ وہ سب منصوبے جو آپ بنائیں وہ پورے ہوں۔ حالات و واقعات ان میں رد و بدل کروائیں گے لیکن آپ نے اس ردّ و بدل میں بھی اپنا اصلی ٹارگٹ نہیں بھولنا۔ بچے آپ کا قیمتی خزانہ ہیں۔ ان سے غافل نہیں ہونا۔

o. ایک بات کا خاص طور پر خیال رہے کہ نبی کریمe کو وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو ثابت قدمی سے مسلسل کیا جائے۔ لہٰذا فرصت کے لمحات اور چھٹیوں کے لیے جو نظام الاوقات اور تربیتی امور طے کر لیں، انھیں باقاعدگی سے انجام دیں، اور چھٹیوں کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں، تب ہی مؤثر اور نتیجہ خیز تربیت ہو سکے گی۔ اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد، استعانت اور دعاؤں کا خصوصی اہتمام بھی ضرور کیجیے۔
اللہ تعالیٰ سے اپنے شریک زندگی اور اولاد کے بارے میں ہمیشہ وہ دعا کرتے رہیں جو جدالانبیاء سیدنا ابراہیمu کیا کرتے تھے:
(رَبَّنَآ ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا) (الفرقان25: 74)

2 thoughts on “تعطیلات میں بچوں کی تربیت

تبصرہ کریں