بچوں کی تربیت نزاکتیں اور ذمہ داریاں
(بشریٰ تسنیم)
بچوں کی تربیت ایک ایسا گھمبیر مسئلہ ہے جو ہر دور کے والدین کے لئے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ خصوصاً آج کے دور میں مسلمان والدین کے لئے بچوں کو اسلامی خطوط پر تربیت دینا ایک چیلنج رکھتا ہے۔ اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے والدین کا خود تربیت یافتہ ہونا ’’خصوصاً ‘‘ ماں کے لئے ایک ’’عظیم ماں‘‘ ہونا لازمی امر ہے۔ کیونکہ عظیم مائیں ہی عظیم بچوں کو پروان چڑھا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کو اور بالخصوص ماں کو جس اعزاز سے بخشا ہے، وہ اسلام کے سوا دنیا کا کوئی مذہب اور کوئی بھی تمدن عطا نہیں کر سکا۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو باپ سے تین گنا زیادہ اطاعت کا حقدار گردانا اور جنت ماں کے قدموں میں رکھ دی۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی محبت میں مٹھاس اور اس کے دل میں ایثار و قربانی کا بے مثل جذبہ رکھ دیا۔ اپنی صفت رحمت و شفقت سے وافر حصہ اس رشتے کو عطا کر دیا۔ وہ پروردگار خود خالق کائنات ہے۔ صفت تخلیق عورت کو عطا کر کے اس نے عورت کو عظمت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ بچے سے محبت کا کچھ ایسا انداز خالق کائنات نے عطا کیا ہے کہ اتنی تکلیف اٹھا کر ماں بچے کو جنم دیتی ہے، مگر اس پہ ایک نظر ڈالتے ہی تمام دکھ، تکالیف بھول جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت ہے کہ شادی سے پہلے ہر لڑکی بچوں کو پیار کرتی ہے اور ہر چھوٹا بچہ اس کے لیے کشش رکھتا ہے۔ مگر یہ محبت اور کشش عورت ہونے کے ناتے فطری جذبہ تک محدود رہتی ہے۔اُس کو ہنستے کھیلتے، صاف ستھرے، صحت مند بچے ہی متاثر کرتے ہیں اور گندے، بیمار، ضدی، گندگی سے لتھڑے ہوئے بچے کو دیکھ کر گھن آتی ہے۔ مگر یہی نو عمر لڑکی جب تخلیقی مراحل کا حصہ بن کر خود ماں کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو اس کے جذبات اور مامتا کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بچہ اور اس کا ہر کام اس کی زندگی کا محور بن جاتا ہے۔ اپنے بچے کا آرام ماں کی اولین ترجیح ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت و شفقت اور رحم کی یہ صفت نہ رکھ دیتا تو شاید دنیا میں بچوں کی سب سے بڑی دشمن ماں ہی ہوتی۔ جس قدر تکلیف دِہ تجربے اور جن مشکل مرحلوں سے پرورش کے دوران وہ گزرتی ہے، اس کا اندازہ بھی صرف اسی ذات باری تعالیٰ کو ہے، جبھی تو ایک مسلمان ماں کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ ان عظمتوں کو حاصل کرنا، اور انہیں شعوری طور پر برقرار رکھنا بھی ماؤں کی ذمہ داری ہے۔ مسلمان ماں کی سوچ، کردار، خیالات اور اعمال ایک مسلمان ماں جیسے ہوں گے تو یقینا وہ دنیا و آخرت میں سرخروئی کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو گی۔ جس طرح کسی بھی فیکٹری میں کام کا ہر شعبہ علیحدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اس نظام کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر ذی روح کا ایک شعبہ مقرر کر رکھا ہے۔ عورت اس نظام کے انتہائی حساس اور ذمہ دار شعبہ، تخلیق سے وابستہ ہے۔ جس طرح اعلیٰ منصب اور ذمہ داری کے اہم شعبے سے تعلق رکھنے والا ہر کارکن فیکٹری میں مالک کے نزدیک خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اور اس کی ذمہ داری کے لحاظ سے اس کا مقام و مرتبہ اور دیگر مراعات ہوتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی شعبہ تخلیق کی کارکن یعنی عورت کو عہدے کے لحاظ سے خصوصی اہمیت دی ہے۔ اگر وہ حقیقی مسلمان ماں بن کر اپنی ذمہ داری پورے شعور کے ساتھ ادا کرتی ہے تو جنت اس کے قدموں میں ہے۔ والدین کی ذمہ داری اُسی روز سے شروع ہو جاتی ہے، جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے والدین کو بہت سے اَدوار اور بے شمار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ والدین اور اولاد کا تعلق کبھی نہ ٹوٹنے والا اور ختم نہ ہونے والا تعلق ہے۔ یہ دنیا و آخرت دونوں میں ایک دوسرے کے لیے باعث فخر و انبساط بھی ہو سکتا ہے اور باعث رنج و ندامت بھی… امت مسلمہ جن مشکلات بھرے دور سے گزر رہی ہے اس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ گزشتہ غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی کرنے کے لیے عزم نو کے ساتھ نئی نسل کی آبیاری کریں۔ اس ویران کھیتی کو زرخیز اور باثمر بنانے کے لیے جذبہ ایمانی اور مکمل فہم و شعور کے رحمت بھرے بادلوں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ میں کبھی زرخیزی کا عنصر کم نہیں کیا۔ محض توجہ الی اللہ کی ضرورت ہے، انفرادی اور اجتماعی طور پر… اگر امت مسلمہ کے ہر گھر سے ایک بچہ بھی اسلام کے انسان مطلوب کی صورت میں نصیب ہو جائے تو آئندہ ایک دو عشروں میں دنیامیں ’’اسلامی انقلاب‘‘ برپا ہو سکتا ہے۔ اس خوش نصیبی کو پانے کے لیے ایک ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ باطل نے مسلمان کو مسلمان نہ رہنے دینے کی ایک طویل المدت منصوبہ بندی سے کام لے کر آج ہمیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس تباہی سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ اپنے افکار و اعمال کو بدلا جائے۔ طویل المیعاد منصوبہ اور تطہیر افکار و اعمال ہی وہ بنیادی عنصر ہے، جو کسی بھی فرد یا قوم کے مقدر کو سنوار سکتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ وہ خوش نصیب جوڑے جو خود کو باشعور مسلمان گردانتے ہیں، اپنی ذمہ داری کو زیادہ سنجیدگی سے نبھانے کا عہد کریں اور نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت کر کے قوم کی تعمیر نو میں اپنا حصہ لگائیں، اور ایک مہم کے طور پر ہر مسلمان کو اس کی اہمیت کا شعور دلائیں۔ رشتہ ازدواج کے لیے نیک نیتی سے ایسے ساتھی کا انتخاب کرنا چاہیے جو عقل و فہم کے ساتھ ساتھ دل و نگاہ کے لحاظ سے بھی مسلمان ہو۔ اگر ایک ساتھی دینی فہم و شعور کے لحاظ سے کم ہے تو اس کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ کسی بھی مرد و عورت کی عملی زندگی کا آغاز نکاح سے ہوتا ہے۔ پھر باقی پوری زندگی میں دونوں نسل نو کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہو جاتے ہیں۔ گھر ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جہاں ہر دو کو اپنی اپنی ذمہ داریاں باہم مل کر ادا کرنی ہوتی ہیں۔ کسی مرحلے میں عورت کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں اور کہیں مرد کی ۔ اور اس میں مختلف مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔
پہلا مرحلہ:
نکاح‘ زوجین کا باہمی تعلق:
اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ نکاح کا رشتہ دو اجنبی مرد و عورت کو باہم مضبوط رشتے میں جوڑ دیتا ہے، جس میں محبت بھی ہے اور مؤَدت بھی۔ شعور، فہم اور جاننے کا ذوق، ہر کام کا حسن ہوتا ہے۔ نکاح کا حسن یہ ہے کہ اس رشتے کی بنیاد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمدﷺ کے نام پر ہے۔ اور اس حسن کی پائیداری یہ ہے کہ اس رشتے کے تمام حقوق و فرائض کی صحیح صحیح ادائیگی ہو۔ حقوق و فرائض کی ادائیگی میں نیک نیتی کارفرما ہو۔ بدنیتی وہ زہر ہے جو ہر اچھے سے اچھے کام کو عیب دار بنا دیتی ہے، بلکہ ہرے بھرے پھل دار باغ کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔ مرد کی طرف سے حق مہر کی ادائیگی نہ کرنا، اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے۔ زوجین کو اپنے اپنے حقوق و فرائص کا کتاب و سنت کی روشنی میں پورا شعور ہونا چاہیے اور اس کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ شادی سے پہلے بچوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول اللہﷺ کی تعلیمات سے بخوبی آگاہ کریں۔ شادی پہ بے جا اخراجات کرنا اور مطالبات اٹھانا خلاف سنت ہے۔سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے، جس میں اخراجات کم ہوں اور حقوق کی ادائیگی بروقت ہو۔ حقوق کی ادائیگی میں کسی رقم یا اشیاء کی اہمیت نہیں ہوتی۔ حکم الٰہی کی اطاعت، سکون اور روشنی عطا کرتی ہے۔ باہم عزت نفس کی پاسداری دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہے۔ زوجین کا باہمی تعلق :
میاں بیوی کا باہم تعلق’’ایک دوسرے کے لیے لباس‘‘ کا ہی ہونا چاہیے۔ معنوی طور پر بھی، باطنی اور روحانی طور پر بھی۔ زوجین کا باہم رشتہ محض صنفی جذبات کی تسکین کا ذریعہ ہی نہ سمجھا جائے۔ نبی اکرم ﷺنے زوجین کے باہم تعلق کو جس شائستگی اور وقار کے ساتھ نبھانے کا طریقہ بتایا ہے اس کو مدنظر رکھا جائے۔ ہر کام میں جس قسم کی نیت کارفرما ہوتی ہے، وہی اچھے یا برے انجام کا سبب بنتی ہے۔۔ زوجین کو باہم محبت بڑھانے کے لیے، اس کو قائم و استوار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے۔ کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرنا چاہیے ، جس سے میاں بیوی کے دل دور ہونے کا خدشہ ہو۔ میاں بیوی کی محبت اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی میاں بیوی کے درمیان رنجش، جدائی، بدگمانی ڈال کر ہوتی ہے اور یہ کام کرنے کے لیے وہ ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کو نظر رحمت سے دیکھتے ہیں جو ایک دوسرے سے محبت کرتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ زوجین کو اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت سے محروم نہ ہونا چاہیے اور شیطان کے پھیلائے ہوئے جالوں سے محفوظ رہنے کے لیے چوکنا رہنا چاہیے۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں بغض ڈال دے اور ان کو برائی کی طرف لے جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیائ علیہم السلام کی زبان سے جو دعائیں ہم تک پہنچائی ہیں، ان کو ہر نماز کے بعد خلوصِ دل سے مانگنا چاہیے۔ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِبَّۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآء ﴿۳:۸۳﴾ پروردگار، اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کریقینا تو ہی دعا سننے والا ہے۔ ذریۃ طیبۃ: طیب میں صالح، نیک اطوار، صحت مند، غرض ہر خوبی آ جاتی ہے۔یہ اسی صورت میں نصیب ہو سکتی ہے جب زوجین کے اپنے جذبات، احساسات اور نیت بھی طیب ہو گی۔ مسنون دعاؤں میں زوجین کی باہم ملاقات کے وقت کی دعا اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ نسل نو کی اسلامی خطوط پر تربیت کرنا والد اور والدہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو کھیتی سے تشبیہ دی ہے اور اس کھیتی میں جس قسم کا بیج ہو گا ویسا ہی پھل نصیب ہو گا۔ جس طرح ایک جاہل، نالائق، ذمہ داریوں سے لاپروا، فرائض سے غافل اور کاہل باغباں اپنے کھیت اور باغ سے کما حقہ، رزق حاصل نہیں کر سکتا۔اسی طرح اسلامی شعور اور ذوقِ آگہی سے بے بہرہ مرد اور عورت اپنی اولاد سے فیض یاب نہیں ہو سکتے۔ نکاح کا مقصد مسلمان کے نزدیک محض اولاد کا حصول نہیں بلکہ نیک اور صالح اولاد کا حصول ہے جو مومن کے لیے دنیا و آخرت میں سرخروئی کا باعث بنے۔
دوسرا مرحلہ:
پیدائش سے پہلے اور بعد عورت کے لیے بچے کی پیدائش سے پہلے کا زمانہ ایک سخت تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ مختلف ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ ہر بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لیے ایک پیغام ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا بچہ والدین کے لیے باعث سعادت اور معاشرے کے لیے باعث رحمت ہو گا۔ ہر آنے والا بچہ دنیا میں اپنے حصے کا رزق اور مقدر لے کر آتا ہے۔ بچوں کی پیدائش پہ دل میں تنگی محسوس کرنا، چاہے وہ کسی بھی سوچ کے ساتھ ہو، نرم سے نرم الفاظ میں بھی اللہ سے بغاوت ہے۔ بچے کا تعلق ابتدائی دنوں سے ہی ماں کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ ننھا سا خلیہ ﴿Cell﴾ محض ایک جرثومہ نہیں، بلکہ ایک مکمل شخصیت کا نقطہ آغاز ہوتا ہے، اور وہ اپنی ماں سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ تخلیق کا عمل اللہ کا ایک کھلا کرشمہ ہے۔ ایک معمولی خلیے کا چھ سے دس پونڈ کے انسان میں تبدیل ہو جانا بلاشبہ ایک حیرت انگیز عمل ہے۔ تخلیق کے عمل سے گزرنے والی خاتون پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری لازم آتی ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے لیے اسے منتخب کیا ہے۔حاملہ خاتون کو حسن نیت اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس ڈیوٹی کو انجام دینا چاہیے۔ ایک سچی مسلمان عورت یہ زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے، بلکہ ان تکالیف کو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اس زمانے میں وہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نظر رحمت میں ہوتی ہے۔ اس شفیق ذات نے اس کے روزمرہ کے فرائض کو اجر کے حساب سے نفع بخش ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ایک حاملہ عورت کی نماز عام عورت کی نماز سے افضل ہے۔ حاملہ عورت اگر رب کریم کی فرماں بردار ہے اور اس کی لو اپنے رب سے لگی ہوئی ہے تو سارے زمانہ حمل میں اس کو رات اور دن میں بے پناہ ثواب ملتا ہے۔ باپ کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کے لیے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال اور طیب ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے سینچا گیا تو اس کے﴿ کردار و اعمال﴾ میں شرافت کی سی تابندگی کیسے آئے گی؟ حقائق کی دنیا کا یہ اٹل اصول ہے کہ اگر نقطہ آغاز ہی غلط ہو تو پھر ہر خط غلط رخ پہ جاتا ہے۔ اپنے اسلاف کی زندگیاں اور ان میں ماؤں کے کردار کا تذکرہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ مائیں قابل فخر ہیں، جنہوں نے اپنے بچوں کو شوہر کی مشکوک کمائی نہ کھلائی بلکہ خود محنت مشقت کر کے ملت اسلامیہ کو قابل رشک کردار کے حامل سپوت فراہم کیے۔ عزیمت کی راہوں پر چلنے والی ان ماؤں کی تقلید میں کم از کم وہ امور تو انجام دینا ہرگز مشکل نہیں جن کا تعلق اپنی ذات سے ہے۔ ہمہ وقت اللہ کا ذکر، نماز کی پابندی، باوضو رہنا، پاکیزہ گفتار ہونا، جسمانی، روحانی ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے اس میں اس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اگر جسمانی غذا معمول سے زیادہ درکار ہوتی ہے تو روحانی غذا کا تناسب بھی تو پہلے سے زیادہ چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ گوشت کے بے جان لوتھڑے میں جان ڈالتا ہے تو فرشتے کو بھیجا جاتا ہے کہ وہ معلوم کرے، تخلیق کے مراحل سے گزرنے والی عورت اپنے بچے کے لیے کیا طلب کر رہی ہے؟ اس کو اپنے تخلیق کردہ شاہکار کو سنوارنے کی فکر بھی ہے یا نہیں؟ اگر ماں اپنے ہونے والے بچے کے لیے دنیا مانگ رہی ہے تو وہ اس کا مقدر ہے۔ دنیا و آخرت مانگ رہی ہے تو اللہ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس کے خزانوں میں کبھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ مدت حمل میں بچہ ماں سے خوراک ہی حاصل نہیں کرتا، بلکہ ماں کی افسردگی، بے چینی، بیماری، بے آرامی کا بھی اس پر اثر ہوتا ہے۔ اس زمانے میں وہ کیا سوچتی ہے؟ کن مصروفیات میں گھری ہوتی ہے؟ اس کا دل کن جذبوں سے آراستہ رہتا ہے؟ بچے کی شخصیت اسی کا پرتو ہوتی ہے……… مختلف سائنسی مطالعوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ماں کی مصروفیات سے جنین اثر لیتا ہے۔ ماہرین نفسیات سفارش کرتے ہیں کہ والدین اپنے آئندہ بچے کو جیسا کچھ بنانا چاہتے ہیں، ماں کو اسی کی طرف یکسو رہنا چاہیے۔ جس لائن پہ لگانا چاہتے ہیں، جس مضمون یا فن کا ماہر بنانا چاہتے ہیں، ماں کو بھرپور اسی کی طرف توجہ دینی چاہیے اور ویسے ہی ماحول میں رہنا چاہیے۔ ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو ’’نمائندہ مسلمان‘‘ بنانا چاہتی ہو گی تو وہ ضرور ان سب امور کا خیال رکھے گی۔ بزرگانِ دین کی مائیں اکثر و بیش تر قرآن پاک کو ہر وقت وردِ زبان رکھتی تھیں۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی، خود بھی ورد زبان بنایا اور ایک ہی قاری کی زبان، لب و لہجہ میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ نومولود قرآن کی تلاوت کو حیرت انگیز دلچسپی سے سنتا اور جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔ ایک ذمہ دار اور حساس مسلمان ماں وہ ہے، جو زمانہ حمل میں متقی خواتین کی صحبت سے فیض یاب ہو، قرآن و حدیث کا بکثرت مطالعہ کرے، قرآن پر غور و فکر کرے اور درس و تدریس میں وقت گزارے۔ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انجام دے۔ یہ آزمائی ہوئی بات ہے کہ مستقل بنیادوں پر منعقدہ قرآنی کلاسوں میں شامل ہونے والی خواتین نے اس بچے کی عادات میں نمایاں تبدیلی محسوس کی، جو قرآنی کلاسوں میں شریک ہونے کے زمانے میں رحم میں پرورش پا رہے تھے۔ ماں بننے والی خاتون کو شعوری کوشش کے ساتھ صبر و قناعت اور قوت برداشت کو اجاگر کرنا چاہیے۔ وہ بنیادی اخلاقی عیب جو انسانی زندگی کو بدصورت بناتے ہیں اور انسانیت کی توہین ہیں مثلاً بغض، کینہ، حسد، تکبر اور جھوٹ سے بچنے کی کوشش کرے۔بے جا، لا یعنی اور غیر ضروری بحث سے گریز کرے۔ ذکر و تسبیح کو اپنا معمول بنائے۔ یقیناً اس کی عبادت، ذکر ، روزہ و دیگر حقوق و فرائض کی ادائیگی میں ایک معصوم روح بھی شریک ہوتی ہے اور وہ اللہ کے حضور اپنی ماں کے ہر نیک عمل کی گواہ بھی ہو گی۔ جسمانی غذا کے ساتھ روحانی غذا بھی اعلیٰ اور زیادہ مقدار میں ہونی چاہیے۔ روشن کردار، اعلیٰ ذہنی و فکری استعداد کی مالک ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کر سکتی ہے۔کم ظرف، جھگڑالو، حاسد، احساس برتری یا کمتری کی ماری، ناشکری اور بے صبری عورت، اعلیٰ کردار کا سپوت قوم و ملت کو کیسے دے سکتی ہے۔ جسمانی صحت و صفائی کے ساتھ ساتھ ماں کو روحانی صحت و صفائی کا خیال رکھنا لازمی امر ہے۔ باوضو رہنا، ہر کھانے سے پہلے وضو کر لینا، ہر لقمے کے ساتھ بسم اللہ پڑھنا اور اپنے ہونے والے بچے کا دھیان بھی اس غذا کے ساتھ رکھنا کہ وہ اس غذا میں حصہ دار ہے۔ اسی طرح عورت اپنے ہر چھوٹے، بڑے کام میں زیر تخلیق معصوم ہستی کو شامل رکھے تو اس کی اپنی روحانی تربیت میں بے حد اضافہ ہو گا۔ گویا ماں بننے کے مراحل میں عورت خود اپنے لیے ایک ایسا ادارہ بن جاتی ہے، جس میں ہر لمحہ اس کو ایک بات سیکھنے اور سکھانے میں مدد ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت میں رہتی ہے۔ بیرونی ماحول اور ماں کے اپنے فکر و عمل سے جنبین اثرات قبول کرتا ہے۔ اس بات کا تجربہ، مشاہدہ کرنے کے لیے ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ‘‘ نے حاملہ خواتین کو مختلف ماحول اور فنون کے ساتھ رکھا۔ ایک یورپی ماں کا اپنا تجربہ ہے:’’جب میں نے یہ بات سنی کہ جنین پہ ماحول کا اور ماں کے اپنے اندازِ فکر و عمل کا اثر ہوتا ہے تو میں نے کمپیوٹر کی تعلیم سیکھتے ہوئے اپنے بچے کو شعوری طور پر مخاطب کر کے ہر سبق دہرایا اور ہر عمل میں اس کو اپنے ساتھ محسوس کیا۔ پیدائش کے چند سال بعد وہ بچہ حیرت انگیز طور پر کمپیوٹر کے بارے میں رازداں نکلا۔‘‘ تخلیق کے ابتدائی چھ مہینوں میں ننھی سی جان کے اندر، حس سماعت حِسّ لامسہ اور ذائقہ پیدا ہو جاتی ہیں۔ قرآن پاک میں بھی تخلیق کے تین مراحل بیان ہوئے ہیں۔ قرار مکین، سماعت اور بصارت ۔جنین میں قوت سماعت کی تکمیل سب سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی لیے بیرونی ماحول کے اثرات جنین پر شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی ادارے کے ایک محقق اسٹیفن سومی نے تحقیق کے بعد بتایا: ’’پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ صرف جینیاتی﴿موروثی﴾ اثرات ہی مزاج بنانے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مگر اب ماحول کی اہمیت واضح ہو رہی ہے۔ مایوسی میں گھری ماؤں کے بچے بھی مایوس شخصیت لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ جیرالڈین ڈاسن نے واشنگٹن یونیورسٹی میں منعقدہ ایک سیمینار میںاپنا مشاہدہ بیان کیا: ’’جن بچوں کی مائیں مایوسی کا شکار ہوتی ہیں۔ ان کے بچوں کے دماغ کا بایاں حصہ جس کا تعلق خوشی، دلچسپی اور دیگر مثبت عادات سے ہے اپنا کام بہتر طریقے پر انجام نہیں دے سکتا۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی، روشن ضمیر، اللہ پر توکل کرنے والی خاتون روحانی طور پر مضبوط اور پرعزم ہو گی۔﴿زمانہ حمل﴾ اس زمانے میں عورت کے گھر کا ماحول اور خصوصاً شوہر کا رویہ اور انداز فکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس غیر معمولی صورت حال میں شوہر کی بھی ذمہ داریاں غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ اس لیے خاتون کی ذہنی، جسمانی، روحانی طمانیت کے لیے شوہر کو بھرپور طریقہ سے اپنا کردار انجام دینا چاہیے۔ یہ شوہر کا فرض عین ہے جس کی اس سے باز پرس ہو گی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دنیا میں لانے کے لیے عورت کو جتنی آسانیاں آرام، ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے تو وہ بھی لازماً اس کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پائیں گے۔ دیکھا گیا ہے کہ تخلیق کے مراحل میں پورے نو ماہ جس خاتون کے شوہر نے بیوی کے آرام و سکون کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے اپنی نفسانی اور عمومی خواہشوں کی تکمیل کے لیے قربانی اور ایثار کا راستہ اختیار کیا، ان کے بچے صحت مند، خوبصورت، ذہین اور پر اعتماد نکلے۔ حاملہ خاتون کو کچھ بیماریوں سے حفاظتی ٹیکے اور دوائیاں دی جاتی ہیں، تاکہ خاتون اور اس کا بچہ بیماریوں سے محفوظ رہے۔ بالکل اسی طرح کچھ روحانی بیماریوں سے بچاؤ کے بھی حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہر عورت اپنے عیب و محاسن کا جائزہ لے اور جو عیوب انسان کی زندگی کو عیب دار بناتے ہیں ان سے بچنے کے لیے مکمل توجہ کے ساتھ کوشش کرے، جس طرح رمضان میں اہتمام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر جسمانی بیماری کا علاج ضروری ہے تو اخلاقی بیماریوں کا سدباب بھی ہونا چاہیے۔
تیسرا مرحلہ:
ولادت‘ رضاعت‘ ابتدائی چند سال نومولود، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو بچہ جننے کی تکلیف برداشت کرنے پر بے حساب اجر و ثواب کی بشارت سنائی ہے۔ اگر ایمان و ایقان کی کھیتی شاداب ہو اور اس پورے عمل کو اللہ اور رسول کی رضا کا وسیلہ سمجھا جائے تو پھر درد کی ہر لہر کو برداشت کرنے پر بے حد و حساب ثواب ملتا ہے۔ اگر: ’’مسلمان عورت زچگی کے دوران زندگی کی بازی ہار جائے تو شہادت کا درجہ پائے گی۔ ‘‘ نومولود لڑکا ہو یا لڑکی، خوشی کا اظہار فطری ہے۔ لڑکی اللہ کی طرف سے رحمتوں کا پیغام لے کر آتی ہے۔ جس عورت کے ہاں صرف لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کرے۔ دل میں تنگی و ناگواری نہ لائے تو اس کو حضورﷺنے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری سنائی ہے۔ اسلامی طریقہ زندگی، بچے کو دنیا میں آتے ہی اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا سبق سکھاناہے۔ اس لیے اذان و تکبیر کو محض رسم کے طور پر نہ نبھایا جائے،بلکہ اس میں روح بلالی شامل ہونی چاہیے۔ جو بچہ، پیدائش سے پہلے رحم میں مادی خوراک کے ساتھ ساتھ روحانی غذا بھی حاصل کرتا رہا ہو، وہ دنیا میں آتے ہی اس کی طرف ایک قدم اور بڑھاتا ہے۔ اذان و تکبیر کی آواز اسے روحانی فرشتے سے منسلک رکھتی ہے۔ پیدائش کے بعد بچے کا حق: بامعنی نام رکھنا، عقیقہ کرنا اور بال اتروانا ہے۔ نام رکھنا:
رسول اللہ ﷺنےفرمایا: ’’اپنے بچوں کو اچھے نام دو، عبداللہ، عبدالرحمن، اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ نام ہیں‘‘۔ انبیاء ؑکے ناموں پہ بچے کا نام رکھنے کی تلقین کی گئی۔ یا پھر معنی کے لحاظ سے پسندیدہ، بامعنی، خوبصورت، حوشی، کامیابی، سکون و وقار والے ناموں کا اہتمام کرنا سنت نبوی؎ہے۔ حضور اکرم ﷺنے بعض ناپسندیدہ ناموں کو بدل دیا تھا۔ خود حضور ﷺکا یہ طریقہ تھا کہ کسی بھی مہم پہ صحابہ کرام (رض) کو بھیجتے تو کامیابی اور خوشی کے معنی والے نام کے صحابی کو منتخب کرتے تھے۔ بچے کا نام ہی اس کی پہچان ہے۔ نام ہی کسی بھی انسان کی پہلی ذاتی ملکیت ہوتا ہے، جو ہر کسی کو بے حد پیاری ملکیت لگتی ہے۔ غرض یہ کہ والدین کو اپنے بچے کی تربیت کی پہلی اینٹ صحیح اور مناسب جگہ پہ رکھنی چاہیے۔ روحانی و نفسیاتی طور پر نام کے اثرات ہی شخصیت کا حصہ ہوتے ہیں۔ لڑکے یا لڑکی کا جو بھی نام منتخب کیا جائے، اس کو پورے شعور کے ساتھ دل کی گہرائی سے احساس کرتے ہوئے پکارا جائے، کہ یہ نام نہیں حقیقت میں ایک دعا ہے۔ ایک آرزو ہے، تمنا ہے، آئیڈیل ہے جس کو پانا ہے۔ ’’عبداللہ‘‘ ہے یا ’’عبدالرحمن‘‘۔ وہ اللہ کا بندہ بن کر رہے۔ ابوبکر (رض)، عمر (رض) ہے یا عثمان (رض) و علی (رض) عائشہ (رض) ہے یا اسمائ (رض)، فاطمہ (رض) ہے یا کسی اور صحابی (رض) یا بزرگ کے نام جیسا نام ہے، تو اس اعلیٰ شخصیت کا پرتو، اپنے بچے میں دیکھنے کی تمنا اور دعا لیے ہوئے پکارا جائے۔ تمام رشتہ دار، خصوصاً والدین جب اپنے بچے کو پکاریں گے اور ہمیشہ دل سے وہ دعا کی صورت میں اظہار ہو گا اور کسی بھی خوب صورت معنی والے نام کو جب لکھا، بولا جائے گا، دعا کا خزانہ دل کی گہرائیوں سے نچھاور ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ امید کی جا سکتی ہے کہ بچہ روشن شخصیت کا حامل ہو گا۔اس لیے بچوںکو پیار ہی پیار میں بے معنی ناموں سے پکارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ اسلام کے نظام تعلیم و تربیت کا حصہ ہے کہ شروع دن سے بچے کو اس کے نام کی مناسبت کا احساس دلایا جائے اور اس شخصیت کو خصوصی آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جاتا رہے۔ اگر ماں کو اس شخصیت کے بارے میں تفصیلی علم ہو گا اور اس کی زندگی کے واقعات معلوم ہوں گے تو ہر ہر معاملے میں بچے کی راہنمائی کی جا سکے گی۔ غرض کہ بچے کے قلب و ذہن میں یہ راسخ ہو جانا چاہیے کہ اس نے خود کو اسم بامُسَمیّٰ ّٰ بنانا ہے۔ رضاعت:
پیدائش کے فوراً بعد ہر جان دار مخلوق کا نومولود اپنی ماں کی طرف کشش رکھتا ہے، چاہے اس کا انڈوں سے ظہور ہو یا رحم مادر سے۔ دودھ پلانے والے جانداروں میں مشاہدات کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بچہ اپنی ماں کو اور ماں اپنے بچے کو، ایک دوسرے کو بُو ﴿Smell﴾ سے پہچانتے ہیں۔ انسانی بچے کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدائش کے وقت بہت کم قوت بینائی عطا کی ہوتی ہے اور نوزائیدہ بچہ کافی عرصے تک ایک فٹ فاصلہ سے زیادہ نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے پیدا ہونے کے بعد قرین قیاس ہے کہ وہ اپنی ماں کو چھاتی کی بُوسے پہچاننا شروع کرتا ہو گا۔ عام مشاہدہ ہے کہ ننھا بچہ کسی اور عورت کا دودھ پینا پسند نہیں کرتا۔ دودھ پلانے کے دوران ماں اور بچے کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ ماں اور بچے کی برقی لہریں ایک دوسرے کو توانائی اور سکون مہیا کرتی ہیں۔
قدرت نے نوزائیدہ شیر خوار بچے کی ساری کائنات ماں کی گود اور ماں کے دودھ سے وابستہ کر دی ہے۔ بچے کو شروع سے ہی ماں کا قرب نصیب ہونا چاہیے۔ آج کل بچے کو ہسپتالوں میں ماں سے دور نرسری میں رکھا جاتا ہے جس سے ماں اور بچہ ایک دوسرے کی مخصوص بُواور تعلق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو دو سال تک دودھ پلانے کی ہدایت کی ہے۔ یہی دو سال کا عرصہ بچے میں تعلیم حاصل کرنے کی قوت اور ذہنی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔ اگر کسی مجبوری کی بنا پر ماں اپنا دودھ نہ پلا رہی ہو تو فیڈر سے دودھ پلانے کے لیے بھی ماں اپنے بچے کو گود میں لے کر سینے سے لگا کر پلائے۔ اللہ تعالیٰ نے دودھ پلانے والی ماں کو خصوصی اجر سے نوازا ہے۔ جو مسلمان عورت اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہو، اللہ تعالیٰ اسے ایک ایک قطرے کے بدلے ایک نیکی عطا کرتا ہے۔ بچہ رات کو بھوک سے روئے اور ماں اپنی نیند کی قربانی دے کر پوری محبت اور خوش دلی سے دودھ پلائے تو فرشتے اس کو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ ہمارے لیے قابل تقلید بزرگوں کی مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ کانوں میں کوئی بہترین پیغام اور آیات الٰہی لوری کی صورت میں سناتی تھیں۔ بے شک سماعت کو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قابل تاثیر بنایا ہے اور سماعت کی قوت کو پہلے پیدا فرمایا اور قرآن پاک میں آنکھ اور دل سے پہلے سماعت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ محاسبہ کے متعلق فرمایا: اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوٰلئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاًo یقینا آنکھ کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہو گی۔﴿بنی اسرائیل۷۱:۶۳﴾ بعض لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کو چالیس دن کے اندر اندر قرآن پاک کی تلاوت سنا دی جائے تو اس کے بہت سے مثبت اثرات سامنے آتے ہیں۔ اس زمانے میں بچہ زیادہ تر سویا رہتا ہے۔ ماں بھی اکثر کاموں سے فارغ ہوتی ہے اور زیادہ تر بچے کے قریب ہی رہتی ہے۔ گھر کی ذمہ داریاں جب دوسرے ادا کر رہے ہوں، اس دوران کیسٹ کے ذریعہ ہلکی آواز میں قرآن کی تلاوت بچے کے سرہانے لگا دی جائے۔ سوتے جاگتے بچے کو قرآن کی تلاوت سے مانوس کیا جائے۔ بچہ بولنے کی کوشش کرنے لگے تو سب سے پہلے ’’اللہ‘‘ کا نام سکھایا جائے۔ اذان کی آواز پر متوجہ کیا جائے۔ کلمہ طیبہ، بسم اللہ، الحمدللہ، السلام علیکم جیسے بابرکت کلمات سے بچے کی زبان کو تر کیا جائے۔ نبی ﷺنے فرمایا ’’جب بچے کی زبان کھل جائے تو بچہ کو سورہ فرقان کی یہ آیت یاد کروائی جائے۔‘‘ اَلَّذِیْ لَہ‘ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَاﻻرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہ‘ شَرِیْک’‘ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہ‘ تَقْدِیْراًo﴿الفرقان ۵۲:۲﴾ وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔
ابتدائی چند سال:
پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ :’’ صرف موروثی اثرات ہی مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘ مگر اب سائنس دان یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ: ’’بچپن کا ماحول بھی بچہ کے مزاج کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘‘ اور عصبیاتی تحقیقات ﴿Neurological Studies﴾ کی روشنی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ کے اسٹیفن سومی نے ثابت کیا ہے کہ: ’’نوزائیدہ بچے کے دماغ کے خلیات میں سائناپسز ﴿Synapses﴾ شروع کے چند ماہ میں بیس گناہ بڑھ جاتا ہے اور دو سال کی عمر کے ایک بچے میں ایک بڑے آدمی کے مقابلے میں یہ سائناپسز دگنے ہو جاتے ہیں۔ بچے کا والدین سے تعلق اس کے دماغ کے ان حصوں کی بناوٹ پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔اگر شروع کے دو تین سال بچے کو والدین، خصوصاً ماں کی بھرپور توجہ، شفقت نہ ملے اور خصوصی باہمی تعلق پیدا نہ ہو تو ساری زندگی غیر معمولی جارحانہ پن، منفی انداز فکر، ذہنی پراگندگی پیدا ہو سکتی ہے۔ ماں اور بچے کے درمیان ہر عمر میں قربت قائم رہنی چاہیے۔ بچہ چند دن کا ہو، چند سال کا ہو یا جوان، حتیٰ کہ جوانی کی حد سے نکل جانے والے’’بچے‘‘ بھی ماؤں کی گود میں سر رکھ کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی قربت میں ایک انمول کشش رکھ دی ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔جو مائیںاپنی سستی، کوتاہی، یا کسی مجبوری کی بنا پر ہی سہی اپنے بچوں کے ساتھ ایسا تعلق پیدا نہیں کر سکتیں، ان کے بچے ساری عمر ماں کی محبت میں کمی اور تشنگی کو محسوس کرتے رہتے ہیں۔ نبی ﷺنے فرمایا: ’’بچپن کے تجربات پتھر پہ لکیر ہوتے ہیں۔‘‘ مثبت اور خوش گوار مشاہدات، جذبات و احساسات کا حامل بچہ اپنے لاشعور سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں قوتِ اعتماد، قوت فیصلہ اور سمجھ بوجھ زیادہ پائی جاتی ہے۔ دماغ کے ماڈل کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کے پہلے حصے ﴿Primitive﴾ شروع کے تین سال کی عمر میں مکمل ہو جاتے ہیں۔ کار ٹیکس ﴿Cortex﴾ کے وہ حصے جو احساس و حرکت سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان حصوں پر لمبک ﴿Limbic﴾ حصے کی طرح بچپن میں مشاہدات اور اثرات کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ فرنٹل کارٹیکس ﴿Frontal Cortex﴾ جس کا تعلق پلاننگ اور قوت فیصلہ سے ہے… اور سیری بلم ﴿Cerebellum﴾ جو حرکت کا مرکز ہے، جزئیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ حصے سات سال کی عمر تک نہیں بڑھتے۔ نو سے گیارہ سال کی عمر میں دماغ میں تبدیلی آتی ہے۔ دماغ کوئی پتھر کا ٹکڑا نہیں ہے، بلکہ اس میں مستقل تبدیلی آتی رہتی ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت، ماحول، جذبات و احساسات، تجربات و مشاہدات اس کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغ کے پہلے سے بہتر مطالبات ہوتے ہیں۔ گویا انسانی مشینری ہمہ وقت اور بھرپور توجہ کی متقاضی ہے۔ یہ کوئی جامد چیز نہیں ہے کہ بس ایک لگے بندھے طریقے سے چلتی رہے گی۔ دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچے کو اچھا انسان اور بہترین مسلمان بننے کے لیے، بہترین ماحول چاہیے۔ شخصیت کی صحت مندانہ نشوونما کے لیے ایک صحت مند تصور ذات اسے والدین اور اہل خانہ ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر والدین بچے کی عزت نفس اور اس کی شخصیت کی نفی کا رویہ اختیار کریں گے، تو اس کے ذہن میں یہی نقوش ثبت ہو جائیں گے اور وہ کبھی اپنے والدین یا اہل خانہ کے بارے میں مثبت اندازِ فکر نہیں اپنا سکے گا۔ الا یہ کہ اس کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں اس منفی رویہ کو خود بدل لیا جائے۔ بہر حال جو اثرات ایک مرتبہ قائم ہو جائیں وہ ختم تو نہیں ہوتے، البتہ بعد کے حالات اس میں تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ’’ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن ماحول اسے یہود و نصاریٰ بنا دیتے ہیں۔‘ ‘ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ ایک پانی کا چشمہ اپنے فطری بہاؤ کے ساتھ فطری راستے پر بہہ رہا ہے۔ اگر اس راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے تو پانی فطری راستے کی بجائے مختلف اطراف میں بہنا شروع کر دے گا۔ بچے کے ذہن میں مثبت طرز فکر پہنچاتے رہنا چاہیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا سا بچہ شاید ہماری بات نہیں سمجھ رہا۔ مگر وہ اس کے ذہن میں ریکارڈ ہوتی جاتی ہے اور جب، جہاں جس طرح وہ بات کارآمد ہو، ذہن وہاں منتقل کر دیتا ہے۔ چند سال کا بچہ جب ذرا سمجھدار ہو جاتا ہے تو وہ ایک چھوٹا سا سائنس دان ہوتا ہے۔گھنٹوں کے بل چلنے کی عمر سے لے کر تین چار سال تک وہ ہر نئی شے تک پہنچنے اور پرکھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔یہ وہ ذہنی استعداد ہے جو رحم مادر سے لے کر باہر کا ماحول اسے فراہم کرتا ہے۔اس کا لاشعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے وہ شعوری طور پر اس کا اظہار کرنا چاہتا ہے، تاکہ اگلے مرحلے میں وہ مزید اپنے ذہن کی نشوونما کر سکے۔ بچے کی روحانی غذا شروع دن سے اسی طرح بڑھانی چاہیے جیسے کہ جسمانی غذا بہ تدریج بڑھائی جاتی ہے۔اگر جسمانی غذا شروع دن سے ناقص ہو گی، کم ہو گی، بروقت نہ ملے گی تو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہو گا۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائے گا اور وہ معذور بھی ہو سکتا ہے، اگرچہ وہ صحت مند پیدا ہوا ہو۔ بالکل اسی طرح شروع دن سے روحانی غذا بروقت نہ ملے گی، نامکمل اور ناقص ہو گی تو بچہ روحانی طور پر کمزور، بیمار اور شاید معذور ہوگا۔ جس طرح حاملہ عورت کو کچھ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکے لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح روحانی بیماریوں سے بچنے کے لیے بھی پیدائش سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور پیدائش کے بعد بھی ان کا علاج کرنا ہو گا اور وہ نیت کی درستگی، فرائض کی ادائیگی میں پابندی، قلب و نگاہ کو شعوری مسلمان بنانے کے علاوہ اور کیا ہے؟ ہم اپنے بچوں کی صحت کے بارے میں تو فکر مند رہتے ہیں کہ اس کا رنگ کیوں پیلا پڑ رہا ہے؟ اسے بھوک کیوں نہیں لگ رہی؟ اسے نیند کیوں نہیں آتی؟ پھر ہم اپنی استطاعت کے مطابق اچھے اچھے ڈاکٹروں سے اس کا علاج معالجہ کراتے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہم اپنے اسی بچے کی اخروی زندگی اور خود اس زندگی میں روحانی اور تہذیبی ترقی کے لیے ویسے فکر مند نہیں ہوتے۔ اس میں پائی جانے والی کمی کے لیے کسی اچھے دانش مند اور نیک سیرت انسان سے رجوع کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جس طرح اپنے بچے کی جسمانی صحت کے بارے میں لاپروائی برا فعل ہے، اسی طرح بچے کی روحانی زندگی سے لاتعلقی بھی نہایت غلط اقدام ہے۔ جسمانی غذا اور روحانی غذا کے ساتھ ساتھ جسمانی و روحانی لباس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔جسمانی لباس بچے کو عمر، موسم اور حالات کے لحاظ سے پہنایا جاتاہے۔ چند دن کے بچے کو چند سال کے بچے کی خوراک اور چند سال کے بچے کو ایک جوان بچے کی خوراک دینا مناسب نہیں۔ جس طرح چند دن کے بچے کا لباس چند سال کے بچے کو اور کسی جوان کو چند سال کے بچے کا لباس زیب نہیں دیتا اور نہ عقل اس کو قبول کرتی ہے۔ اسی طرح روحانی لباس یعنی تقویٰ کا لباس بھی عمر، موسم، حالات اور ذہنی استعداد کے مطابق ساتھ ساتھ تیار کرتے رہنا ضروری ہے، بلکہ تقویٰ کا لباس وخوراک اس سے بھی زیادہ حکمت عملی اور احتیاط کا متقاضی ہے۔ بچہ بہت جلد اپنے والدین کی خوشی و ناراضی کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماں بھی بچے کو سمجھانے کی خاطر اسے باپ کی ناراضی کا احساس دلاتی ہے، یا اس کے خوش ہونے کی وجہ بتاتی ہے کہ کس کام سے ابو ناراض اور کس سے خوش ہوں گے۔ اسی طرح شروع ہی سے بچے کے دل اور دماغ میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوشی کا احساس دلانا چاہیے، کہ اللہ تعالیٰ کس قدر مہربان ہے اور ہر چیز وہی عطا کرنے والا ہے۔ بچے کو احساس دلایا جائے کہ وہ محبت کرنے والی ہستی باری تعالیٰ ناراض ہو جائے تو پھر سب ناراض ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کے دلوں میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ بچے سے محبت کی جائے، پیار کیا جائے اس کو اچھی اچھی چیزیں لا کر دی جائیں۔ بچے کے دل میں یہ یقین بٹھا دیا جائے کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی چیز دینا چاہے تو وہ مل سکتی ہے۔ اس لیے اللہ کو ہمیشہ راضی اور خوش رکھنے کے لیے ہر اچھا کام کرنے کا جذبہ بچے کے ذہن، قلب اور سانسوں تک میں اتار دیا جائے۔اللہ تعالیٰ کی محبت کو خوشبو کی طرح بچے کے دل میں بٹھا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعارف: مہربان، شفیق، پیار کرنے والا، ہر چیز سے آگاہ اور وحدہ لاشریک کے طور پر کرایا جائے۔ بچے کی شخصیت کا خاکہ بن جانے کے لیے پہلے پانچ سال اہم ہیں۔ باقی عمر اس خاکے میں رنگ بھرتے رہنا ہے۔ کسی بھی عمارت میں بنیادوں کی جو اہمیت ہوتی ہے، عمر کے ابتدائی پانچ سال کی حیثیت بھی ویسی ہی ہے۔ سفید اور کورے کپڑے پر جو رنگ چڑھ جائے وہ ساری عمر باقی کے رنگوں میں اپنی جھلک دکھاتا رہے گا۔ خارجی ماحول اور عارضی حالات بچے کو کسی وقت بدل بھی دیں، اس تبدیلی میں یہ ابتدائی عمر کے احساسات ضرور اپنا حصہ محفوظ رکھیں گے۔ یہ عمر انسان کے عیوب و محاسن کی نشان دہی کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تعلیم و تربیت، ماحول اور حالات یا تو عیوب کو اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں یا محاسن کو، اور اسی کے مطابق دماغی نشوونما ہوتی چلی جاتی ہے۔ مسلمان ماؤں کے لیے بچے ہی ان کے امتحانی پرچے ہیں۔ جس کے جتنے بچے ہیں اس کے اتنے ہی پرچے ہیں اور انہی پرچوں کے نتیجے پر ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ ان پرچوں کا نتیجہ بھی خود اللہ تعالیٰ نے تیار کرنا ہے۔ کامیاب ہونے پر انعام سے نوازنا ہے اور انعام بھی کیا ہے؟ جنت جیسی عظیم نعمت اور اپنی رضا کی بشارت اور رب سے ملاقات کی نوید۔ سکول بھیجنے سے پہلے بچے میں اپنے مسلمان ہونے پر فخر کا جذبہ ضرور پیدا کر دینا چاہیے۔ سکول کا ماحول گھر کے اور مسلمان والدین کے ذہن سے مطابقت رکھتا ہو تو بہت خوش نصیبی ہے……… ورنہ والدین کو بہت سمجھ بوجھ اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا۔ دین داری کو احساس کمتری کا نشان نہ بنایا جائے۔ دین اسلام کے بارے میں کسی معذرت خواہانہ طرز عمل سے اُسے بچایا جائے۔ بچے کے دل میں یہ جرات پیدا کی جائے کہ وہ پورے یقین کے ساتھ جانے اور اظہار کرے کہ اس کا لباس اسلامی ہے اور یہی سب سے بہتر ہے۔ اس کا طریقہ سب سے اچھا ہے۔ والدین کے خود اپنے ایمان میں پختگی ہو گی تو وہ اپنے بچے کو بھی یہ چیز بہتر طریقہ سے منتقل کر سکیں گے۔ بچے کو اتنا طاقت ور ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کو دلیل اور شائستگی کے ساتھ بدل دینے کا اور خود کو بہتر راستے پر گامزن رکھنے کا احساس زندہ رکھ سکے۔ مسلمان ہونے پر احساس تشکر و مسرت پیدا کیا جائے۔ دوسرے مسلمان بچوں کو اپنے اوپر استہزائ کا موقع نہ دیا جائے۔ بچے کو یہ یقین دلایا جائے کہ جو آپ کا لباس ہے، جو آپ کا طریقہ ہے وہی اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے اچھے ہیں تو ان کا بتایا ہوا طریقہ بھی سب سے اچھا ہے۔ بچے کے دل میں شیطان سے نفرت بٹھائی جائے۔ ساری گندی باتوں کا سکھانے والا شیطان ہے۔ وہ ہی اصل دشمن ہے۔ غصہ، نفرت، عداوت کے تمام احساسات اسی دشمن اور اس کا کہنا ماننے والوں کے خلاف ہوں۔ والدین کا اپنا طرز عمل بچوں کے لیے سب سے بڑا استاد ہے۔بچے خاموشی سے اس طرز عمل کو دیکھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے، یا آپس میں کھیلتے اور پلاننگ پر غور کرتے ہوئے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین، رشتہ داروں اور استادوں سے حقیقت میں کیا سیکھ رہے ہیں اور’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ کی حیثیت بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔
چوتھا مرحلہ:
نماز کی پابندی کیسے کرائی جائے؟
ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود، اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہو گا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ پھر جس بچے کی تربیت کے لیے دعا اور دوا کا اہتمام، نکاح کے رشتے میں جڑنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، لازماً اللہ تعالیٰ ایسے ماں باپ کے لیے آسانیاں فراہم کرے گا۔ نماز جتنی اہم عبادت ہے، شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دور کرنا چاہتا ہے، اسی لیے نفس پہ اس کی ادائیگی گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ مرد حضرات خود با جماعت نماز کی پابندی کریں، لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت، انس اور تعلق پیدا کروانا چاہیے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ باہر جانے اور کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی بازار جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد میں جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پا لینے کی آرزو پیدا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت اور شکر گزاری کے جذبات پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ جو بچہ اپنے رب کا شکر گزار ہو کر آسودگی کی دولت پا لیتا ہے، اسی کے والدین کامیاب ہیں۔ نماز کو بچے کے ذہن میں اس حقیقت کا حصہ بنایا جائے کہ جو نعمتیں، خوشیاں ملی ہیں، اسے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے اور پھر مزید چیزیں بھی مانگنی ہیں۔ بچے کو روز مرہ کی ننھی منی آرزوئیں اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے۔ ہر مشکل کام میں اسے اللہ سے مدد مانگنے کا اللہ سے قربت کا احساس دلایا جائے۔ نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اسے ابتدا میں یعنی تین سال کی عمر ہی سے ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ دن میں پانچ مرتبہ نماز کی ادائیگی اس کی آنکھوں کے سامنے اور شعور کے اندر، رچ بس جائے۔ اسی عمر سے نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں انھی کے ساتھ نماز کی ادائیگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجور کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اٹھے اسے معلوم ہو جائے کہ اٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ……… صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ یہ عمل ایک سال تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ پھر پوری نماز فجر کی فرض و سنت کے ساتھ پابندی کرائی جائے۔ دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بتدریج باقی نمازیں اور رکعتوں کے لحاظ سے بھی پہلے صرف فرائض، پھر سنت موکدہ کی پابندی کروائی جائے۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ، شعور، اور دعا و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت ان شائ اللہ کبھی رائیگاں نہ جائے گی۔ پردے کی پابندی:
’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘ نبی ﷺنے فرمایا کہ : ’’جب تیرے اندر حیا باقی نہ رہے تو پھر جو چاہے کرتا پھرے‘‘۔ سب سے پہلے تو والدین کو خود اس لفظ کا معنوی و حقیقی، اخلاقی و مذہبی لحاظ سے شعور ہونا چاہیے۔ شرم و حیا سے عاری گفتگو، انداز و اطوار، حرکات و سکنات اور لب و لہجہ باقی تمام محاسن پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اگر اس باب میں احتیاط و شائستگی نہیں اختیار کی جاتی تو پھر بڑی دین داری اور عبادت گزاری کا بھی بچے پر کوئی تاثر نہیں جم سکتا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ مغربی ،حیا سے عاری کلچر سے چھٹکارا پا لیا جائے؟ اس نکتے پر اس سے زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں۔ ہر دانش مند جانتا ہے کہ کیا کہا جانا پیش نظر ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کو عمر کے ساتھ ساتھ لباس کا احساس دلایا جائے۔ اگرچہ سالگرہ منانا اسلامی تہذیب کا رواج نہیں ہے، تاہم سالگرہ کا دن بچے میں خود احتسابی کے تصور کے ساتھ متعارف کروا دیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہو گا۔ چھوٹے بچے کو سالگرہ کے دن اخلاقی نصاب کا کوئی ایک قرینہ سکھایا جائے۔ یہ نصاب کتاب و سنت نے مقرر کر دیا ہے۔ ہمارے معاشروں نے مغرب کی تقلید میں سالگرہ منانے کا رواج تو اپنا لیا، لیکن اب اس کو اپنے انداز فکر سے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعے بچے میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جا سکتا ہے کہ عمر کا ایک سال بڑھا نہیں، بلکہ کم ہو گیا ہے۔ اچھے کام کرنے کی مدت اور تھوڑی رہ گئی ہے۔ قد بڑا ہو گیا ہے، لباس پہلے سے زیادہ بڑا آنے لگا ہے تو اس کے ساتھ اچھی باتوں میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ بتدریج ساتر لباس کی طرف ذہن راسخ کیا جائے۔ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ جہاں پر گفتگو سے لے کر اعمال تک میں حیا نہ ہو، وہاں پر بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں شرم و حیا کا تصور کیسے جڑ پکڑ سکتا ہے؟ جس معاشرے میں بچے، جوان اور بوڑھے ایک ہی جیسے فحش و عریاں ماحول میں سانس لیں اور حیا سے عاری ہو جائیں تو انہیں ذلت و رسوائی سے کون بچا سکتا ہے؟ محرم اور غیر محرم کا وہ شعور جو قرآن و سنت میں بتایا گیا ہے اس کو بتدریج اجاگر کیا جائے۔ بیماری کا خطرہ جس قدر بڑھ جاتا ہے، پرہیز اتنا ہی زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ عریانی، فحاشی، مردوزن کا اختلاط، حیا سے عاری گفتگو، ستر سے بے نیاز لباس، بدکاری کو فیشن کے طور پر اپنانا ایسی بیماریوں کا ایک طومار ہے جس کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ ان بیماریوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے اپنے بچوں کو ایک اسلامی اسپرٹ کے ساتھ پرورش کرنا ہو گا، اس کو ایک مہم کے طور پر جاری رکھنا پڑے گا۔ معاشرہ ان برائیوں کا عادی ہوتا چلا جائے تو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ گھروں میں نو عمری کے دوران ہی لڑکے لڑکیوں کی نشست و برخاست کا انتظام علیحدہ ہونا چاہیے۔ نرسری اور پرائمری اسکول عام طور پر مخلوط ہوتے ہیں۔ انتہائی چھوٹی عمر میں بھی مخلوط تعلیم کے رواج کو ختم کیا جائے یا وہاں پر بچوں کو نہ بھیجا جائے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اسی عمر میں بچوں کو مخلوط اداروں میں بھیجنے سے پہلے یہ شعور دیا جائے کہ آنکھ اور دل کے بارے میں سخت حساب لیا جائے گا اور بدکاری کے سب کھلے اور چھپے کام اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بدی کی شروعات کو بھی بدکاری ہی قرار دیا ہے۔ وہ بچے جن کو ابتدا ہی سے عمر کے ساتھ ساتھ فرائض کی پابندی کا سبق ملتا رہا ہو، ان کے لیے یہ پابندیاں بالکل دشوار نہیں ہوتیں۔ بچی کو تین سال کی عمر سے ساتر لباس اور پھر گھر میں اور گھر سے باہر محرم اور غیر محرم کی تمیز سکھائی جاتی رہے تو چودہ پندرہ سال کی عمر میں وہ گاؤن، اسکارف یا پردہ و حجاب کی کسی بھی شکل کو اپنی عمر کا تقاضا سمجھ کر قبول کر لے گی۔ بچوں کی تربیت میں بچوں کے درمیان عدل اور انصاف کا برتاؤ اہم نکتہ ہے۔ والدین کی طرف سے بچوں کے درمیان بلا وجہ تفریق و امتیاز، نہایت قابل گرفت ہے۔ خصوصاً وہ والدین جو خود تو صالح ہیں اور اولاد کی طرف سے پریشان ہیں کہ وہ حق کو نہیں سمجھتی۔ ایسے بچوں کے ساتھ متشددانہ رویہ حالات کو مزید خراب کر دیتا ہے۔ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ بچے کا اپنے والدین خصوصاً ماں کے ساتھ مناسب تعلق قائم نہ ہو….. . ماں کی مصروفیات چاہے کتنی ہی صائب اور ضروری کیوں نہ ہوں، بچے سے دوری اور لاتعلقی اپنا اثر دکھا کر رہتی ہے۔ بعد میں اگر حالات درست ہو جائیں، تعلق بحال ہو جائے، کمی دور ہو جائے تو فبھا ورنہ یہ تعلق کی کمی اور تشنگی دور نہیں ہو پاتی۔ بعض اوقات تو منفی ردعمل سامنے آتا ہے۔ ایسے بچوں کو بیمار بچے سمجھ کر زیادہ قربت دی جانی چاہیے۔ بیماری میں جس طرح ماں اپنے بچے کی نگہداشت کرتی ہے، اسی طرح روحانی طور پر بیمار بچہ، والدین کی خصوصی توجہ کا مستحق ہوتا ہے۔ انہیں اپنی آئندہ زندگی میں رشتوں کے متعلق آگہی دی جائے، عموماً بچیوں کو تو مائیں بہترین بیوی بننے کے گر سکھاتی رہتی ہیں۔ مگر اس کے بالکل برعکس وہ بیٹوں کو ایک بہترین مسلمان شوہر بننے کی تلقین کبھی نہیں کرتیں۔ ہمارے معاشرے میں اس چیز کی بے حد کمی ہے۔ اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ لڑکوں کو’’ قوام‘‘ کے درست معنی سمجھائیں، اور بتائیں کہ وہ عورتوں کے آقا اور مالک نہیں بلکہ وہ ان آبگینوں کے نازک جذبات، احساسات، خواہشات و ضروریات کے نگہبان ہیں۔ ہمارے معاشرے نے بے جا طور پر، جو جھوٹی شان، تمکنت، رعونت، کرختگی اور آمرانہ روش لڑکوں اور بیٹوں کے ذہنوں میں بٹھا دی ہے، وہ اسلام اور اخلاق دونوں حوالوں سے غلط ہے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ عورت کو، بحیثیت ماں،بیٹی، بیوی اور بہن کے قدر و منزلت دی جائے۔ یاد رہے، ظلم کے کھیتوں میں کبھی محبت اور شفقت کے پھول نہیں کھلتے۔ اگر ایک مرد اپنی بیوی، بہن اور بیٹی کے ساتھ ظلم یا خود پسندی کا رویہ اختیار کرے گا، تو اس سے بیمار معاشرہ ہی پیدا ہو گا، جیسا ہمیں دکھائی دیتا ہے۔کیا ہمیں اس معاشرے کو نہیں بدلنا؟ مائیں اپنی اولادوں کو سب سے پہلے مسلمان ہونے کا اور پھر کسی رشتے یا شعبہ زندگی سے تعلق کا شعور دیں۔ ہر مسلمان بیٹی، ایک مسلمان بہن، مسلمان بیوی اور مسلمان ماں ہے۔ لڑکے بھی ہر رشتے میں مسلمان ہونے کا احساس بیدار رکھیں اور اپنے کاروبار زندگی میں پہلے مسلمان بنیں، پھر اس کے بعد ڈاکٹر، انجینئر یا جو بننا چاہیں بنیں۔ عمومی سیرت و کردار کی پختگی:
بچوں سے اپنا تعلق ﴿قلبی و ذہنی﴾ مضبوط کرنے کے لیے گھر میں قرآن و سنت کی ہفتہ وار مجلس رکھی جائے۔ ضروری نہیں کہ اس میں خشک اور یبوست زدہ ماحول ہی ہو۔ خوش گوار ماحول کے ساتھ علمی و ادبی گفتگو اور مسائل پہ تبادلہ خیال ہو۔ بچوں کے آپس میں تنازعات پہ افہام و تفہیم ہو۔ بچوں کو دوسروں کی طرف سے صرف اپنی تعریف سننے کا عادی نہ بنایا جائے۔ وہ بچہ جو صرف اپنی تعریف سننا چاہتا ہو، تنقید، محاسبہ یا نصیحت سننا گوارا نہ کرتا ہو اور دوسروں کی اخلاقی برتری برداشت نہ کرتا ہو، وہ کبھی اپنے کردار کو خوب سے خوب تر نہیں بنا سکتا۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی باعث تکلیف و آزار بن جاتی ہے۔ بچوں میں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ غلطی کی سزا ملنا عدل ہے اور حوصلہ افزائی کے لیے اچھے کام پہ انعام دینا بچوں کا حق ہے۔ والدین بچوں کی بہت سی عادات کو کھیل کود کی عمر کہہ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں، مگر بالغ ہو جانے پر ایک دم ان کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو غلط رخ پہ جا رہے ہیں۔ پھر وہ راتوں رات ان کو ہر لحاظ سے معیاری درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں، یہی ناسمجھی کی بات ہے۔ بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت ہر سال، ہر دن اور ہر لحظہ کی ختم نہ ہونے والی منصبی ذمہ داری ہے۔ مغربی تہذیب میں بلوغت کی عمر کے بعد بچوں کو توجہ کے قابل تو کیا، گھروں میں رکھنے کے قابل تک نہیں سمجھا جاتا۔ اس غلطی کا خمیازہ وہ تہذیب بھگت رہی ہے۔اسلام نے اولاد اور والدین کا تعلق دنیا سے لے کر آخرت تک قائم رکھا ہے۔ وہ دونوں جہانوں میں ایک دوسرے کا قرُب پا کر ہی تکمیل پائیں گے۔ خود مختاری، اظہار رائے میں آزادی، معاشی طور پر خود کفیل ہونا، سماجی طور پر اپنا مقام بنانا، اپنے شریک زندگی کے بارے میں اپنی رائے رکھنے جیسے انفرادی حقوق اسلام نے عطا کیے ہیں۔ مگر اجتماعیت کا جو تصور اسلام نے دیا ہے، اس میں حسن بھی ہے تکمیل بھی اور اعتدال بھی۔ حقیقت میں کسی بھی کام اور چیز میں اعتدال ہی اس کا حقیقی حسن ہے۔۴۱ سے ۶۱ اور ۸۱ سے ۲۲ سال تک کی عمر نئی جہتیں سامنے لاتی ہے۔ اس عمر میں والدین کی اپنے بچوں کے ساتھ دلی وابستگی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جس طرح زمین کے اندر بیج ہر قسم کے موسم اور مصائب و آلام سے گزر کر ایک پھل دار درخت بنتا ہے۔ اس درخت کو پہلے سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ثمرات کو سمیٹنا اور آئندہ کی منصوبہ بندی کرنا ہی عقل مندی کی نشانی ہے، اسی طرح جو ان اولاد، والدین کے لیے پھل دار باغ ہے۔ اس کو ضائع کرنا، اس سے لاپروا ہونا، غیروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دینا، ساری محنت اکارت کر دینے کے مترادف ہے۔ نفسیاتی، ذہنی، جسمانی و صنفی تبدیلیاں بچوں کو ایک نئے موڑ پہ لاکھڑا کرتی ہیں۔ اس وقت والدین کی شفقت، اعتماد اور گھر کے ماحول میں بچوں کی اہمیت انہیں سکون مہیا کرتی ہے۔ اس دور کے ذہنی، جسمانی اور ارتقائی مراحل، قابل اعتماد رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لڑکے کے لیے باپ کی بھرپور توجہ، رہنمائی اور محبت، بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنا، اس عمر کا ایک فطری مسئلہ ہے۔ الل ٹپ پرورش پانے والے بچے غلط انداز فکر میں کھو کر اپنا بہت کچھ ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے نوجوانوں کو انتہائی گھٹیا اور پست سوچ کا حامل بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بلکہ بچے اور بوڑھے بھی اسی پستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ صنفی جذبات میں اکساہٹ پیدا کرنے والے عوامل پیش کرنا شیطانی کام ہے۔ وہ سب لوگ جو فواحش کو پھیلاتے ہیں لعنت کے مستحق ہیں۔ معاشرے میں جس بے راہ روی کو فروغ دیا جا رہا ہے، وہ ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو راہِ راست پر لانے کے لیے خصوصی منصوبہ بندی اور فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اس کے متبادل چیزیں لا کر دینے میں دیر کرنا بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ عموماً محرم رشتے دار، جوان اولاد کے بہت سے مسائل حل کرنے کے لیے باہم اعتماد کی فضا قائم نہیں کر پاتے۔ بے وجہ کی جھجک بڑی گہری دوریاں پیدا کرتی ہے جس سے شخصیت میں ایک خلا رہ جاتا ہے۔ محصنات اور محصن شخصیت پورے خاندان کی بھرپور توجہ، محبت، شفقت، نگہبانی و اعتماد کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ یہی’’خاندانی‘‘ لوگ اخلاقی اقدار کی ایک محفوظ پناہ گاہ میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔اگر وہ مددگار و معاون اور مخلص رشتے بے جاگریز کی بند کوٹھڑیوں میں دبکے اور گونگے بنے رہیں تو پھر نوجوان بچوں کی زندگی میں ایک خوفناک خلا پیدا ہوتا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے ناقابل اعتماد اور اپنے جیسے کچے ذہنوں کی مشاورت انہیں بڑی غلط راہوں پہ لے جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عمر میں بچوں کو گھر کے ماحول سے سکون و طمانیت ملے۔ ننھیال، ددھیال میں ان کی شخصیت کو مانا اور تسلیم کیا جائے۔ لڑکے کو گھر کی خواتین والدہ، بہنیں، خالائیں، پھوپھیاں غرض محرم خواتین شفقت و محبت دیں۔ والد اسے اپنا دست و بازو گردانے تو اس کی ایک پر اعتماد شخصیت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح لڑکی کو گھر کے مرد، والد، بھائی، ماموں، چچا اپنے دست شفقت سے نوازیں اور والدہ اور دیگر رشتہ دار خواتین اس کی شخصیت کو تسلیم کریں، تو شائستہ اطوار اور زیادہ نکھر کر سامنے آئیں گے۔
پانچواں مرحلہ:
رشتوں کی تلاش:
والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کی مناسب وقت پر شادی کر دیں۔ اس میں کسی قسم کی طمع، حرص اور انا کا دخل نہ ہو۔ نیک نیتی سے اسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے شادی کریں، جو معیار اللہ اور اس کے رسول ﷺنے قائم کیا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے کہ والدین اپنے بیٹے کے لیے تو پسند و ناپسند کا پیمانہ دوسرا رکھیں اور اپنی بیٹی کے لیے کوئی اور……..اسی طرح جو بلند معیار اپنی بیٹی کے لیے ہے، وہی دوسروں کی بیٹی کے لیے قائم نہ رکھا جائے تو یہ کھلی منافقت اور سراسر بدنیتی اور بد دیانتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ تعلیم، خاندان اور معاش میں، کُفو، کو نظر انداز نہ کریں۔ لیکن، جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ شعور، اندازِ فکر اور نظریات میں بھی، کفو، کا خیال رکھا جانا لازمی ہے۔ ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو ازدواجی زندگی اور تربیت اولاد کے سلسلے میں بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم ﷺنے رشتے قائم کرنے کے لیے جو ترتیب بتائی ہے اسی کو مدنظر رکھا جائے، یعنی سب سے پہلے دین، پھر حسب و نسب، شکل و صورت۔ گویا کہ جس چیز کو سب سے آخر میں رکھا گیا ہے لوگ اسی کو اول و آخر قرار دیتے ہیں۔ اگر کام کی فطری ترتیب کو الٹ دیا جائے تو معاشرہ ابتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ بچے کی تربیت میں دیگر رشتہ داروں کا کردار: ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام بہت سی خوبیوں اور کئی خرابیوں کا مرقع ہے۔ بچے کی شخصیت پہ مثبت و منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ہر خاندان کے افراد اپنی اپنی استعداد، علم، ظرف، دین سے قرب و دوری اور ذوق علم و آگہی کی بنا پر اثر و رسوخ ڈالتے ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ والدین کے علاوہ دیگر قریبی رشتہ دار، بچے کی تعمیر شخصیت میں اپنا مثبت یا منفی رول ادا کرتے ہیں۔ محسن عالم ﷺنے فرمایا: ’’بچوں سے محبت کیا کرو، ان سے شفقت سے پیش آیا کرو، اگر ان سے وعدہ کرو تو اسے پورا کیا کرو۔ ‘‘ ہر گھر میں بچے پھولوں کی طرح ہوتے اور پودوں کی طرح پروان چڑھتے ہیں۔ اس باغیچہ کے باغبان والدین ہی ہیں۔ باغبان ہی اپنے پودوں اور پھولوں کا اصل میں ذمہ دار، نگہبان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ پودوں کی نشوونما کس نہج پہ شروع ہوئی اور اب کس مرحلے میں ہے۔ پودوں کی کاٹ چھانٹ، کیاریوں کی صفائی اور ترتیب سے پودے جب بہار دے رہے ہوتے ہیں تو باغبان ہی نہیں دیگر دیکھنے والے بھی آسودگی اور تراوٹ محسوس کرتے ہیں۔ باغ میں پھولوں کی خوبصورتی، ان پہ کی گئی محنت کی حوصلہ افزائی، دیکھنے والوں کے ظرف اور حسن نگاہ پہ منحصر ہوتی ہے۔ چاہے تو کوئی اس باغیچہ کے پھول مسل دے۔ کیاریاں تباہ کر دے، پتے نوچ ڈالے اور خوب صورتی کو بدصورتی میں تبدیل کر دے۔ چاہے تو اس کی حفاظت کرے، بہتری کے لیے مشورے دے، خوبصورتی سے خود بھی خوش ہو اور باغبان کو بھی خوش کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ والدین کو اپنی اولاد سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں ہوتا۔ بہتر سے بہترین بنانے کی لگن سے کوئی والدین غافل نہیں ہوتے۔ فرق صرف دنیا یا آخرت میں سرخرو ہونے کے تصور میں ہے۔ مومن خود کو سرخرو اسی وقت سمجھتا ہے جبکہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائے۔ مستقبل قریب کے بجائے’’مستقبل بعید‘‘ حقیقت میں ’’مستقبل قریب‘‘ ہے کی فکر لاحق رہے۔ جس طرح ثمر بار درخت میں ہر ذی روح کا حصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح نیک و فرماں بردار بچے والدین کے لیے ہی نہیں ساری مخلوق خدا کے لیے باعث خیر و فلاح ہوتے ہیں۔ اس لیے سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کی اولاد کا خیر خواہ، ہمدرد، محب و مہرباں ہونا چاہیے۔ بچوں کی وہ خوشیاں جن کا تعلق حصول دین سے ہو، ان میں سب کو بھرپور خوشی منانی چاہیے۔ مثلاً علم قرآن و حدیث کے حصول پہ خوشی، چھوٹے بچے کی دعا، آیت یا دینی امور میں نمایاں کامیابی، نماز، روزہ، غرض ہر نیکی کا صلہ خوشی محبت، حوصلہ افزائی، انعام کی صورت میں دیا جائے۔ دین سے بے بہرہ لوگ دنیاوی کامیابیوں پہ جشن مناتے ہوں تو مسلمان بچے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوششوں میں ہونے والی کامیابیوں کی خوشیاں کیوں نہ منائیں؟ …….. وہ تقریبات جو شرعاً جائز ہوں ان کو باوقار طریقہ سے اسلامی تہذیب و فکر کے ساتھ منایا جائے۔ امت مسلمہ جس پرُآشوب دور سے گزر رہی ہے اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے، کہ آج ہی صدق دل سے ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کو پہچانے اور نسل نو کی بحیثیت ایک مسلمان کے دوا اور دعا دونوں کی شدت کے ساتھ آبیاری کرے۔ اخلاقی طور پر انحطاط پذیر معاشرے میں اگر آج بھی مستقبل کے والدین خصوصاً مائیں اپنی سوچ اور اپنے عمل کو صراط مستقیم پر لے آئیں۔ اپنی نیت کو خالص کر لیں تو امید ہے کہ آئندہ ایک دو عشروں کے بعد کے نوجوان بہتر مسلمان ہوں گے۔ اگر ہر گھر سے ایک مومن کامل بھی نصیب ہو جائے تو امت مسلمہ کی پریشان حالی کا مداوا ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کا حال جانتا ہے۔ وہ نیت کے حساب سے ذرے کو آفتاب بنا سکتا ہے۔ تھوڑی محنت سے زیادہ شیریں پھل دینے پہ قادر ہے۔ وہ قدر دان ہے، ہر چیز پہ قادر ہے۔ اسی پروردگار سے کھری نیت کے ساتھ ہر دم مدد کے طلبگار رہیں گے تو وہ مشکل کام کو آسان بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کیے بغیر اور اس کی نصرت و حمایت کے بغیر کسی بھی کام میں سرخروئی ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزی، بے کسی، اور آہ و زاری کے ساتھ والدین اپنی اولاد کے لیے راہنمائی طلب کریں۔ والدین کی مسلسل دعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے نسل نو کو مثالی مسلمان قوم بنانے کے لیے نصرت و حمایت کی دعا کرتے ہیں۔
رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ ٲَزْوَاجِنَا وَ ذُرِیَّتَنِا قُرَّۃَ ٲَعْیُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَاما ﴿الفرقان۵۲:۴۷﴾
اے ہمارے رب، ہمیں اپنے شرکاءِ حیات اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے، ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔