حدیث نمبر 31

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام على سيدنا محمد خاتم النبیین و رحمۃ للعالمین

السلسلة الصحيحة حدیث  نمبر 1585 جلد 4 صفحہ 159 عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنه سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” بے شک تم میں سے کسی شخص کے سینے میں ایمان اسی طرح پرانا بوسیدہ ہوجاتا ہے جیسے لباس یا کپڑا پرانا ہو جاتا ہے پس تم الله سے سوال کیا کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کی تجدید کردے۔”

رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ دلوں کو زنگ لگ جانے کا بهی ذکر فرمایا۔ ایمان کی تجدید یا دل کا زنگ دور کرنے کے لئے تدابیر بهی بتائی گئی ہیں۔ وہ تدابیر روزانہ کی بنیاد پر بهی ہیں جیسے استغفار کی کثرت، کلمہ توحید کی شعوری تکرار، الله کا کثرت سے ذکر۔۔۔   پانچ وقت نماز کی ادائگی،  ہفتہ وارجمعہ کی نماز، سال میں ایک بار رمضان کے روزے اور زندگی میں ایک بار حج کی فرضیت اور پهر جہاد فی سبیل اللہ- اس ایمان کا آخری عملی  ثبوت ہے۔ روشن مصفا دل کا تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ اپنی کامل محبت کے سا تھ رب کے حضور حاضر ہو جائے۔

جان دی، دی ہوئی اسی کی تهی،
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

تجدید ایمان یا قلب و روح کو روشن کرنے، اس کی صفائی ستهرا ئی کے لئے رمضان المبارک آیا ہی چاہتا ہے۔ اس سے بهر پور فائدہ اٹهانے کے لئے سب سے پہلے ایمان کے کپڑے کی جانچ پڑتال کرنی ہوگی کہ بوسیدہ کہاں کہاں سے ہے۔ جب نقص کا علم ہوگا تواس کو درست کرنے کے لوازمات بهی اسی نوعیت کے درکار ہوں گے۔۔۔ ہم سب کا زندگی میں یہی تجربہ ہے کہ جب کسی چیز کی بر وقت اور ساتھ ساتھ مرمت نہ کرتے رہیں وہ جلد ہی  بے کار ہوجاتی ہے۔۔۔ اور زیادہ عرصہ بعد اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں تو محنت اور وقت زیادہ لگتا ہے اوراس وقت معلوم ہوتا ہے کہ کپڑے میں اتنے سوراخ ہیں کہ رفو کرنے کا کام کبهی ختم نہ ہوگا۔

ایمان کے لباس کی خوبی یہ ہے کہ تجدید  (توبہ و انابت، اصلاح عمل) سے یہ بالکل نیا ہوجاتا ہے۔ ایسے نیا کہ جیسے کبهی کپڑا استعمال ہی نہ ہوا ہو۔ "توبہ کرکے اپنی اصلاح کرنے والا ایسے ہی ہو جاتا ہے جیسے کبهی گناہ کیا ہی نہ ہو۔”

رمضان المبارک کو پانے والی ساری امت مسلمہ انفرادی اور اجتماعی طور پہ اپنے بوسیدہ ایمان کی تجدید کر لے تو ان چند دنوں کی رحمت سے فیضیاب ہوکر مغفرت کی خوشخبری سن سکتی ہے اور پهر دنیا میں رسوائی و ذلت کی آگ سے اورجہنم کی آگ سے نجات مل سکتی ہے۔ اس طرح ساری امت مسلمہ جنت میں عید منانے کی بجا طور پہ حقدار ہوگی۔۔۔

یہ وقت ان شاء الله ضرور ہمیں نصیب ہوگا مگر  ابهی اوراسی وقت کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنے گزشتہ سال اور گزری عمر کی خطاؤں پہ دن رات استغفار کریں۔ ہمارے ایمان کی بوسیدگی کا پہلا علاج اپنے پیارے رب کو منانا ہے۔ اپنی کوتاہیوں گناہوں کو تسلیم کرنا ہے۔ جب داغ دهبے نظر آئیں گے تو ان کی صفائی بهی ہوگی۔ کپڑے کا میل کچیل نظر آتا ہے تو اس کو دهویا بهی جاتا ہے۔ داغ دهبے، میل کچیل دیکهنے کے لئے آنکھ بهی چاہئے۔ ظاہری کپڑے کے داغ  دییکهنے کےلئے ظاہری آنکھ درکار ہے، اورایمان کی بوسیدگی کا احساس کرنے کے لئے ایمانی آنکھ درکار ہوتی ہے۔۔۔ ایمان کا تعلق دل سے ہے تو تجدید ایمان کے لئے دل کی آنکهیں کهلی ہونی چاہئیں۔

آئیے اپنے دل کی آنکھ سے اپنے ایمان کی چادر کا جائزہ لیں اوراس کو نیا نکورکرنے کی تیاری میں لگ جائیں۔ اپنا محاسبہ آج اورابهی سے کرنا استقبال رمضان المبارک کا پہلا مرحلہ ہے۔۔۔ اورالله سے دل کو سیدها سچا رکهنے کی التجا کرنا ہے۔

ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هدیتنا وهب لنا من لدنک رحمہ انک انت الوهاب۔ آمین

الله سبحانه وتعالى ہمارے اوقات، وسائل، محنت میں برکت عطا فرمائے اور ہمارے دلوں کو مقبول عبادات کے ذریعے اطمینان سکون اورعافیت عطا فرمائے۔آمین۔

تبصرہ کریں