بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
شعب الایمان للبيهقي 128/12 حدیث 9154 السلسلة الصحيحة حدیث نمبر2440 میں سیدنا سلمان (رض) سے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان مروی ہےکہ”کوئی شخص اپنے مہمان کے لیے ایسا تکلف نہ کرے جس کی وہ استطاعت نہیں رکهتا۔”
اسلام دین فطرت ہے۔ حالات و واقعات کے مطابق زندگی گزارنے کے سارے اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ اچهے برے حالات میں انسان اپنے ایمان، اخلاق پہ آنچ نہ آنے دے۔۔۔ زندگی میں ایسی یکسانیت نہ ہو کہ انسان اپنی حیات میں کشش محسوس نہ کرے۔۔۔ مہمان کی تکریم اگر استطاعت ہے تو خوب سے خوب تر کرنے پہ بہت اجر ہے۔ اگر استطاعت نہیں ہے تو پانی پلا دینا ہی وہی اجر رکهتا ہے۔ جو کام اپنی حدود اور استطاعت سے بڑھ کے کرنے کی کوشس کی جائے گی اس کا نتیجہ ذہنی کوفت کی صورت میں ملے گا اور پهر سارے معاملات خوشی سے محروم ہو جائیں گے۔
اگر ایک شخص کی کسی کے گهر میں اچهی میزبانی ہوئی تو یہ اس پہ ایسا قرض نہیں کہ وہ لازماً خود کو مصیبت میں ڈال کر ویسی ہی میزبانی کرے۔۔۔ اوراچهی میزبانی کی استطاعت کرنے والوں کو بهی یہ توقع نہیں رکهنی چاہیے کہ ہم نےجیسا کهلایا اس سے بڑھ کرملنا چاہئے۔۔۔ جس تعلق میں استطاعت سے بڑھ کے خرچ کیا جائے اس میں بیزارکن رویہ پنپنے لگتا ہے۔۔۔ ہمارے معاشرے میں عام گهریلو دعوت ہو یا شادی بیاہ استطاعت کے اندر کرنا عیب سمجها جانے لگا ہے۔۔۔ ہرطرح اس کی نفی کی جاتی ہے۔۔۔ صحت، وقت، دولت، رسم و رواج اور لینے دینے استطاعت کے قریب قریب بهی نہیں پائے جاتے۔۔۔ یہ خطرناک حد تک قومی رویہ بنتا جا رہا ہے۔ اور یہ سوچ ہماری سادہ، معصوم مگر پر وقار تہذیب کو چاٹ چکی ہے۔ الله تعالى نے اپنے نبی کو جو سلیقہ زندگی دیا کیا اس کی کوئی رمق ہمارے گهروں میں باقی رہ گئی ہے۔۔۔؟
مہمان کی تکریم کے لیے ہم وقت، پیسہ اور جسمانی توانائی پہ تو استطاعت سے بڑھ کرصرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پیٹھ پیچھے جو کچھ اس کو کهلایا اس کے ساتھ اس کا "اپنا گوشت”بهی نوچ نوچ کے کها جاتے ہیں۔۔۔ یہ بهی استطاعت سے بڑھ کرہی ہوجاتا ہے۔ بہتر نہیں کہ اپنی صحت، جیب، وقت اور حالات کے مطابق کهایا پلایا جائے۔۔۔؟ اور اپنے اجر کو محفوظ رکها جائے؟ تکریم مہمان کا اجر اسی صورت میں ملے گا جب ہم ذہنی اذیت اور بے زاری کے بغیر مہمان کی خدمت کریں گے اوراس کے جانے کے بعد اس کا گوشت نوچنے کی بجائے دل میں راحت اور گهر میں برکت محسوس کریں گے۔۔۔
فی زمانہ شادی یا پارٹی دعوت میں أنواع وأقسام کے کهانوں کی کثرت کا مقابلہ بهی دیکهنے میں آیا ہے جو سراسر ریاء اور تفاخر کی علامت ہے۔ سنن ابی داؤد 3756 میں سیدنا ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایسے دو لوگوں کی دعوت قبول کرنے سے منع کرتے تهے جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دعوت کا اہتمام کریں۔۔۔
اللهم إنا نعوذ بک من منکرات الأخلاق والأعمال والأهواء و من زوال نعمتک ومن فتنة الفقر و ضیق الدنیا وعذاب الاخرة۔
آمین