کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ ۔۔۔۔

 

کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ ۔۔۔۔

مشرق سے مغرب تک کا روزانہ کی بنیاد پہ سورج کا سفر کتنی کہانیاں رکھتا ہے۔۔۔ وہ جو ہماری دنیا کو روشن کرتا ہے مگر وہ اپنی پوری تابناکی کے باوجود دیکھتا رہتا ہے وہ کچھ جو افراد اور قومیں  روشن دنوں کو اپنے سیاہ کارناموں سے اندھیرے میں گم کر دیتی ہیں۔ یہ دن ہی ہوتے ہیں جو فتح و کامرانی کی نوید لاتے ہیں اور وہ بهی دن ہی کہلاتے ہیں جو افراد اور قوموں کی زندگی کو شکست و نامرادی سے دوچار کرتے ہیں۔ دن اور اس میں کیے گئے اعمال ہر کس و ناکس کی چادر حیات کا تانا بانا ہے۔۔۔

الله تعالیٰ نے بهی تاریخ انسانی کے کچھ اہم  دنوں کو "ایام الله "کہ کر عبرت دلائی ہے۔ "فذکر بایام الله”

یہ دعوت فکر ایک فرد کو بهی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے شب و روز کے أعمال و معاملاتِ کو یاد کرے سوچے، فکر وتدبر کرے ناکامی ہے تو اس کے اسباب کی کھوج لگائے اور آنے والے ایام کو بہتر بنانے کی سبیل تلاش کرے۔ ہر فرد کے گزرے دن خوشی اورغمی کامیابی اور ناکامی کا امتزاج ہوتے ہیں۔ افراد سے قوم بنتی ہے اور قوموں کی زندگی میں سانحے اس کے لیے اہم موڑ ہوتے ہیں۔۔۔ قوموں کی اجتماعی خوشی ان کو ترقی کی راہ پہ سنجیدگی اور وقار سے گامزن رکھتی ہے۔ مگر انسانی نفسیات کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ افراد کی نفسیات اگر خوشی پانے کے بعد مدہوش ہونے والی ہے تو روشن مستقبل خطرے میں ہے اور اگر کسی ناکامی یا سانحے کے بعد مایوسی کی بے ہوشی ہے تو بهی آٹھ کھڑے ہونے کا امکان مفقود ہوگا دونوں کیفیات میں نقصان برابر ہوگا ہر فرد اپنی زندگی میں جو کچھ سوچتا بولتا اورعمل کرتا ہے وہ اپنی قوم کے مستقبل پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ افراد اپنے شب ورود کے اعمال پہ کڑی نگاہ رکهیں گے تو قوم کی تاریخ سنور جائے گی اور جغرافیہ محفوظ رہے گا۔۔۔

اپنے گھر پہ کسی غاصب کا قبضہ کرنا کس کو برداشت ہوتا ہے؟ ایک عارضی ترین ٹھکانے پہ بهی جب آپ رقم خرچ کرکے چند گهنٹوں کا سفر کرتے ہیں تو اپنی  چند بالشت جگہ کسی کو دینے پہ آمادہ نہ ہوں گے۔۔۔ ایسے سفر کو آپ اور ہم تکلیف دہ سفر کے طور پہ یاد رکھیں گے جہاں اپنی جگہ موجود ہونے کے باوجود ذہنی اذیت اور جهگڑے کا سامنا کرنا پڑے۔ غنڈہ گردی کا  یہ واقعہ ہم اور آپ کبھی نہ بهلا پائیں گے۔ مگر اسے سفر کی صعوبت سمجھتے ہوئے منزل کی طرف گامزن ضرور رہیں گے۔۔۔

اپنے وطن کا تصور ایک ایسا حسین رومانی تصور ہے۔۔۔ جس پہ ہر زمانے کی انسانی تاریخ گواہ ہے۔ اور جانوں کی قربانی دے کر اپنا وطن حاصل کر لینا ہمیشہ سورج  کے لیے اس کے طویل سفر میں ایک خاص واقعہ رہا ہے۔ سورج کی روشنی ایسی آنکھ کی معتبر گواہی ہے جس کا متبادل کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔

  27 رمضان المبارک  کی مقدس رات چاند کے سفر میں بے حد اہم ہے تو اسی سال 14 اگست 1947ء سورج کے سفر میں اہم دن ہے۔۔۔ چاند اور سورج دونوں برابر اس گواہی پہ نازاں ہوں گے۔

نبیوں کا ظہور، اور نافرمان قوموں پہ عذاب سب الله کے دنوں میں اہم دن ہیں..اسلام کے نام پہ ملک بن جانا اور الله کے احکام کی نافرمانی کرنے کا انجام سامنے آجانا  بهی الله تعالیٰ کی کتاب کائنات  کے خاص ورق ہیں اور خاص ہی معاملات ہیں.

  جب آزاد وطن کی خوشی ملی تو سنبھالی نہیں گئ، اپنی بد اعمالیوں سے خوشی آدهی چهن گئ تو بے حسی اور مایوسی مار گئ۔۔۔ یہ خوشی اور غم کے دو واقعات جتنی کم مدت میں ہماری قوم پہ وارد ہوئے یہ ایک الگ بجائے خود دعوتِ فکر ہے۔۔۔

خوشی اورغم دونوں میں ہی من حیث القوم ذمہ داری کا ثبوت نہ دیا، ہر سال آزادی کی خوشی میں چراغاں کر لیا۔ شورشرابہ ڈهول تماشے راگ رنگ کرنے کو چهٹی منا لی۔۔۔ آزادی ملنے کی خوشی میں یہ حال اب بد حالی کی انتہا کو پہنچا جاتا ہے۔۔۔

دسمبر میں سقوط ڈھاکا کا سانحہ ویسے ہی قصہ پارینہ بن گیا تها، پشاور سکول کے سانحہ نے اس قومی سانحہ کو مزید پیچھے دهکیل دیا اور موم بتی کلچر راتوں رات پروان چڑھ گیا۔۔۔ پشاور سکول کا سانحہ دسمبر میں ہی ہوا اور اس کا غم سارے ملک میں موم بتی کلچر کو فروغ دینے کا باعث بن گیا. جب خوشی و غم بهی غیروں کے طرز پہ ہے تو ہم آزاد کب ہیں؟

الله کی تدبیریں اپنا رنگ دکھاتی ہیں، الله رب العزت نے چالیس سال بعد وہ وفا کی کہانی پهر سے زندہ کردی اور قوم کا امتحان لے لیا اور نتیجتاً کتاب کائنات کے صفحے پہ رقم ہوا کہ جب وفا کے جرم میں پھانسی چڑھنے والوں کے لیے با اختیار چہرے سپاٹ اور زبانیں گنگ ہو جائیں تو دل پتھر بنا دئے جاتے ہیں۔ پہاڑ کے کچھ پتھروں سے خشیت کے پانی کی امید رکهی جا سکتی ہے مگر جب الله رب العزت دل کو اس کی اپنی قساوت کی وجہ سے سخت کردے تو وہ” ختم الله علی قلوبهم "کے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے۔

اے وہ پیارے لوگو، جن کے دل نرم ہیں سورج کی پیاربهری گواہی حاصل کرنے کے لیے اس کی روزانہ مسافت میں کوئی اہم واقعہ درج  کراؤ۔ آسمان منتظر ہے کسی خاص خود احتسابی کی مہم پہ روانہ ہونے والے مسافروں کا، ستارے آنکھیں جهپکا جهپکا کے منتظر ہیں کسی خوشخبری کے کہ یہ قوم خوشی میں چهٹی کی بجائے زیادہ کام کرنے کا جذبہ کب بیدار کرے گی؟ کب چلنا چلنا مدام چلنا کی طرز پہ جهومے گی؟  ناکامیوں سے کب سبق سیکھے گی اوراپنی غلطیوں کی اصلاح کر کے آگے بڑھے گی؟ جتنے ستارے آسمان پہ ہیں ان میں سے ہرستارہ اپنے اس ساتھی کو آواز دے رہا ہے جس کے دل میں امید کا دیپ بن کے اس نے رہنا ہے۔ آسمان کے ستارے اس کی زینت ہیں تو  قوموں کے  مقدر کا ستارہ اس کا ہر فرد ہے۔ ؏

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

جب اندھیرا بڑه جاتا ہے  ہاتھ کو ہاتھ سجهائی نہیں دیتا تو نهنے منے ستارے بهی اپنا آپ منوا لیتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی ستارے کی روشنی کو غیر اہم نہ سمجھا جائے جس میں جتنی اورجیسی بهی قابلیت صلاحیت  کی روشنی ہے  اسے کام میں لانا ہوگا، نئے عزم کے ساتھ، نئے ولولے کے ساتھ، نئی امنگ نئی ترنگ کے ساتھ، مایوسی سے ہاتھ  چهڑا کر یقین کا دامن پکڑ کر نئی زندگی شروع کرنا ہے۔ ؏

کھول آنکھ، زمین دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ

مشرق سے ابهرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

تحریر ڈاکٹر  بشری تسنیم

 

 

تبصرہ کریں