حدیث نمبر 27

 بسم الله الرحمن الرحيم

الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین

صحیح بخاری حدیث نمبر 13 اور صحیح مسلم حدیث نمبر 45 کے مطابق انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

"تم میں سے کوئی اس وقت تک (اعلیٰ درجے کا) مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بهائی کے لیے وہی پسند نہ کرے، جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔”

انسانی معاشرے کے سکون اور باہمی احترام کے لیے اس سے زیادہ کارآمد اصول کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہر معاشرتی فساد کی جڑ ہی کٹ جائے اگر ہر فرد اپنے ساتهی کے بارے میں اتنا ہی بهلا سوچے جتنا وہ اپنے لیے سوچتا ہے۔

ہر شخص کو اپنی عزت نفس پیاری ہوتی ہے اسی طرح اگر دوسرے کے لیے سوچا جائے گا تو زندگی میں پیش آنے والے اتار چڑهاو میں انسان اپنے رد عمل کو ظاہر کرنے میں سنجیدگی سے کام لے گا۔ اگر دوسروں کے بارے میں غلط رویہ اختیار کرنے میں پہل کی گئی تو سوچنا چاہیے کہ ایسا ہی ردعمل اپنے لیے بهی قابل قبول ہوگا یا نہیں؟

کسی بهی فرد کی بہت نا انصافی والی سوچ ہے کہ اپنےغصے، بغض وعناد کا اظہارقول وعمل سے کرنے میں خود کو حق بجانب سمجهے اور دوسرے کی عزت نفس کا ذرا بهی پاس و لحاظ نہ رکهے۔ مگر جب ردعمل ہوتو برداشت نہ کرے۔ اسی لیےغصہ حرام ہے اوراس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ اپنی زبان کو قابو میں رکهو۔ بولنے سے پہلے سوچ لو کہ کیا یہی کچھ خود سننا پسند کرو گے یا نہیں؟

ہرانسان اپنےعیب چهپانا چاہتا ہے تو دوسرے کے عیب کیوں ظاہرکرتا ہے؟ اپنی تعریف  سننا چاہتا ہے تو دوسرے کی برائی کا خواہشمند  کیوں ہے؟ غرض ہر وہ نعمت جو خود کو چاہیے وہ دوسرے کے پاس ہوتوحسد کیوں کرتا ہے؟ اس حدیث پہ عمل کرنے سے انسان چغلی، غیبت، حسد، غصہ، بغض، بدگمانی، بہتان تراشی جیسی قبیح برائیوں سے بچ جاتا ہے۔۔۔ روا داری، تحمل، برداشت والا مزاج بن جاتا ہے۔ ورنہ دنیا اس اصول پہ کاربند ہے کہ چور کہتا ہے "میں تو چوری سے باز نہیں آسکتا میری مجبوری ہے آپ اپنے نقصان پہ صبر کریں کہ صبرکا بدلہ جنت ہے۔”

معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے سب کی سوچ ربانی ہونی چاہئے کہ خوشی محبت عزت سب کا حق ہے۔ اگر دوسروں کا حق تسلیم کریں گے اور ادا کریں گے تو یہ توازن نہیں بگڑے گا۔

ہر مومن کی تمنا ہے کہ وہ جنت جیسے مقام کو حاصل کرے اور جب یہی تمنا ہمیں اپنے اقرباء، پڑوسی، دوست حتی کہ غیر مسلم اقوام کے لیے بهی ہوگی تو ہم اعلی درجے کے مومن کہلا سکتے ہیں۔۔۔ اور ہمارا مقصد زندگی بهی یہی ہے کہ الله کے سارے بندے الله تعالى کے حقیقی بندے بن جائیں اور وہ جهنم کے عذاب سے بچ جائیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے خود کتنے خیرخواہ ہیں؟ اپنی پسند نا پسند کا معیار کیا یے؟ ہمارے سامنے دنیا ہے یا آخرت؟ یقیناً ہمیں پہلے اپنی پسند کا معیارالله تعالى کی پسند کے مطابق کرنا ہوگا۔ پهر ہم دوسروں کے لیے بهی وہی پسند کر یں گے اور ایک معیاری مؤمن کے مرتبے پہ پہنچ جائیں گے۔۔۔ ان شاء الله

اللهم إنا نسئلک ایمانا کاملا و خلقا مستقیما وقلبا واسعاً و شفاء القلوب آمین

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s