بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
صحیح مسلم حدیث نمبر2553 مسند احمد 228/4 کے مطابق سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنه نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "نیکی حسن خلق کا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کهٹکے اور تو پسند نہ کرے کہ لوگوں کو اس کا علم ہو۔”
اس حدیث مبارکہ میں اپنے أعمال کی جانچ پرکھ کا آسان طریقہ بتایا گیا ہے۔ حسن خلق اچهے برتاؤ کا نام ہے۔ اور یہی اچها برتاؤ جب مومن کرتا ہے تو یہ عبادت ہے۔ سارے حقوق العباد ادا کرنا بهی عبادت ہے۔ ہر وہ عمل جس کی بنیاد الله کی رضا حاصل کرنا ہو وہ نیکی ہے اگرچہ وہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہی ہٹا دینا ہو۔ اس عمل کے بعد اگر دل میں سکون اور راحت محسوس ہوتی ہے تو یہ حسن عمل ہے۔ اور یہی نیکی ہے جس کی قبولیت کا امکان دل کا وہ سکون بڑها دیتا ہے جو اچهے کام کرکے محسوس ہوا تها۔۔۔ اور گناہ وہ ہے جس سے دل میں گهبراہٹ پیدا ہو۔ تشویش اور پریشانی ہو کہ کسی کو اس کا علم نہ ہوجائے۔ جب انسان کے دل میں خدشات پیدا ہوں گے تو یہ خطرے کی گهنٹی ہے کہ” رک جاؤ باز آجاو” دل کی تیز دهڑکن دراصل دروازے پہ دستک ہے، الله سبحانه وتعالى کی طرف سے کہ” میں دیکھ رہا ہوں۔”
انسان کے لیے یہ کیفیت الله تعالى کی طرف سے نعمت ہے۔ ایسی نعمت جس کی قدر کرنا، اس کی پہچان رکهنا، اس کا شکر ادا کرنا، اس کی حفاظت کرنا ہی نجات کا باعث ہے اور دنیا میں مطمئن زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے۔
جب کوئی کسی کے مال کو چراتا ہے تو ڈرتا ہے کہ اسے علم نہ ہوجائے، جب کسی کی غیبت چغلی کرتا ہے تو تشویش میں مبتلا رہتا ہے کہ اس تک بات نہ پہنچ جائے، اسی طرح جو کسی کا حق مارتا ہے خیانت کرتا ہے اپنی طرف سے سارے اقدامات کرتا ہے کہ اس کا یہ عمل چهپا رہے۔ جهوٹا شخص ایک جهوٹ کو چهپانے کے لیے سو جهوٹ اور بولتا ہے اور ہر جهوٹ کو چهپانے میں سرگر داں رہتا ہے۔ مومن اپنے اعمال کی جانچ پرکھ میں بہت حساس رہتا ہے اس کا دل اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ نیکی کرکے خوش ہوتا ہے اور یہ خوشی اس کے چہرے سے محسوس ہوتی ہے اس کی روح کو بشاشت عطا کرتی ہے۔ اور زندگی کے شب وروز سکون سے بسر ہوتے ہیں۔ گناہ ہو جائے تو مومن ایسی بے چینی محسوس کرتا ہے جیسے اس کے دل میں کانٹا چبھ گیا ہو یا اس کی آنکھ میں کوئی کنکر تکلیف دے رہا ہو وہ جب تک اپنے الله کے سامنے توبہ وانابت کا اظہار نہیں کر لیتا اسے چین نہیں آتا۔ اور جب تک ندامت کے آنسوؤں سے آنکھ کی صفائی نہیں ہوجاتی اس کی روح بےقرار رہتی ہے۔
مؤمن گناہ کرکے کبهی شاد نہیں رہ سکتا۔ گنہگار کے چہرے پہ پریشانی طاری رہتی ہے۔ وہ ایسے چور کی مانند ہوتا ہے جس کی جیب میں چوری کا مال ہو اور اسے کسی وقت بهی رنگے ہاتهوں پکڑے جانے کا خوف ہو اور یہ خوف اسے کو ذہنی، روحانی، نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جب کہ مومن نیکی کرکے خوش اور گناہ کے کانٹے سے جلد از جلد نجات پاکرشاداں فرحان ہوجاتا ہے۔ مومن کی زندگی کے بارے میں الله تعالى نے فرمایا ” لا خوف علیهم ولا هم یحزنون ” وہ نیکی کرکے خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔۔۔ اور وہی نیکی خوش اور مطمئن کرتی ہے جو الله کی رضا کے لیے ہو۔۔۔ اور وہ گناہ کرتے نہیں، ان سے کسی وقت ہوجاتے ہیں تو وہ فوراً اپنی غلطی پہ متنبہ ہوجاتے ہیں اور اپنی اصلاح کر لیتے ہیں۔ توبہ و انابت اور اصلاح عمل سے ان کی روح تروتازہ اور دل خوش مطمئن ہوجاتا ہے۔ دل کو زندہ رکهنے کا یہی طریقہ ہے۔۔۔ دلِ مردہ، دل نہیں ہے۔ اور مومن کا تقوی دل ہی میں ہوتا ہے۔
اللهم إنا نسئلک قلبا سلیماً، اواهاً منیبا
اللهم إنا نسئلک الهدی واتقی والعفاف والغنی
آمین