بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورہ اسری (بنی اسرائیل )17
یہ سورت معراج کے موقع پہ اور ہجرت سے ایک سال پہلے نازل ہوئی تهی.
نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کو مکہ میں توحید کی دعوت دیتے 12 سأل گزر چکے آپ نے طائف کے لوگوں کو بهی دعوت توحید دی مگر وہاں کے مشرکوں نے بهی آپ کو بہت زیادہ تکلیف دی ..واپسی پہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور کچه مدت بعد یثرب کے کچه لوگ ایمان لائے تو امید کی کرن نظر آنے لگی اس طرح تمام مزاحمتوں کے باوجود توحید کی آواز عرب کے ہر گوشے میں پہنچ گئ تهی .اور پر قبیلہ سے دوچار لوگ اس دعوت کو قبول کر چکے تهے. یثرب کے اوس وخزرج کے طاقتور قبیلوں کے کافی افراد اسلام قبول کرکے اپنے قبیلے میں دعوت اسلام دے رہے تهے ..
ایک نئے سفر زندگی سے پہلے، ایک نئی جگہ جاکر اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالنے سے پہلے آلله تعالى نے نی اکرم صل اللہ علیہ و سلم کو معراج کا سفر کرایا ..واپسی پہ یہ پیغام جو اس سورت میں ہے دنیا والوں کو سنایا. گویا پوری تیاری تهی ہجرت کی،اور نئ مملکت کے دستور کی اور اس ملک کو چلانے والے لوگوں کی تربیت کی جارہی ہے..یہی اصول ہے کسی بهی نئی ریاست کے قیام سے پہلے کہ اس کا دستور تیار ہو اور اس دستورکو چلانے والے بهی اسی اعلی معیار کے ہوں ..نیم پختہ تدابیر سے کام لینا کسی بهی میدان میں زوال و ناکامی سے ہمکنار کرتا ہے .اور غیر تربیت یافتہ افراد معاملات کو سنوارنے کی بجائے مزید الجها دیتے ہیں. .الله تعالى نے اس سورت میں تنبیہ،تفہیم،تعلیم سب کو یکجا کر دیا ہے..تنبیہ کفار مکہ کو،کہ بنی اسرائیل اور دیگر قوموں کے انجام سے سبق سیکھو. بنی اسرآئیل کو بهی خبردار کیا گیا ہےکہ اپنی بد اعمالیوں پہ جو سزائیں پا چکے ہو ان سے عبرت حاصل کرو.اب جو نبی آگیا ہے اس پہ ایمان لاؤ اور اپنی سابقہ روش کی تلافی کرلو. تفہیم کے پہلو میں بہت پیارےانداز سے فلاح وبد بختی کے بنیادی اصول بتائے گئے ہیں تعلیم کے پہلو میں اخلاق اور تمدن کے دو بڑے اصول بیان کئے گئے ہیں..اسلام کا منشور اسلامی ریاست کے قیام سے پہلے پیش کیا گیا..جو پوری انسانیت کے لئے خیر و بهلائی امن سلامتی کا موجب ہے..
آیت 23 سے 38 تک حقوق الله اور حقوق العباد کی ترتیب بتائی گئ ہے یہی وہ آفاقی دستور زندگی ہے جو ہر دور میں کامیاب زندگی کا ضامن ہے وہ زندگی ایک فرد کی ہو ایک گهر کی ایک ملک یا ساری دنیا کی..
شرک نہ کرو . والدین کے سامنے آف بهی نہ کرو( اس جملے میں معنی کا ایک جہان آباد ہے). رشتےدار، مسکین مسافر کے حقوق کا زکر ہے..فضول خرچ کو شیطان کا بهائی کہہ کر اس کے انجام سے متنبہ کیا گیا ہے. معاشی ناہمواریوں کا ایک ہی علاج بتا دیا گیا کہ نہ فضول خرچی کرو نہ بخل کرو..اولاد کا قتل یہ بهی ہےکہ اولاد کو اسلامی اخلاق و ادب تعلیم نہ دلا کر اس کی روح کو مار دیا جائے اور رزق کی تنگی کے خوف سے اولاد کی پیدائش سے اجتناب کرنا گناہ ہے. .زنا کےایسے ابتدائی محرکات سے بهی دور رہیں جو اس برے راستے کو جاتے ہوں.یہ آلله کا حکم ہے کہ محرکات بدکاری،اسباب زنا کے قریب بهی نہ جائے کہ یہ حدودالله ہیں
قتلِ عمد کی شدید مزمت ہے مال یتیم اور(
بیت المال )کے پاس نہ پهٹکو. عهد کی پابندی جو الله کے ساته اور باہم معاہدے.
تجارتی لین دین چهوٹا ہو یا بڑا ایمان داری سے کرو
معاشرت کو بہتر رکهنے کے لئے ہر فرد یاد رکهے کہ آنکھ ،کان اور دل کی بازپرس ہونی ہے
متکبرانہ انداز ایک فرد میں ہو یا کسی فرقے میں وہ زمیں کا سب سے برا فرد اور گروہ ہے . یہ سب امور کو سامنے رکهنے سے کامیاب معاشرہ وجود پاتا ہے..یہ ہیں وہ اصول جو ایک اسلامی ریاست کو قائم کرنے سے پہلے متعین کئے گئے اور دربار الہی میں بلاکر سمجهاے گئے..
ساری امت محمدی اجتماعی توبہ کرے اور ہر فرد الگ اپنے رب سے اپنے گناہوں، کی معافی طلب کرے. اس آئینے میں امت اپنی صورت دیکهے تو خود ہی ڈر جائے ہم جو نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کے امید وار ہیں ان آیات کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں تو رونگٹے کهڑے ہوتے ہیں. یہ حکمت کی باتیں جو الحکیم زات نے قرآن حکیم میں ہمیشہ ہر زمانے کے لئے محفوظ کر دی ہیں ہم اس معیار پہ کتنا پورا اترتے ہیں؟؟
اپنے قلب و زہن اور وجود پہ یہ دستور کتنا نافذ ہے؟
اپنے گهروں کا جائزہ لیں کتنے گهر اس نور سے منور ہیں؟دنیا کا کون سا مسلم خطہ ہے جہان مسلمان اس نور کے سائے مین امن سے رہ رہے ہیں؟؟
اگر آج ہم اور آپ اپنے آپ کو اپنے گهروں کو ان حکمت بهری باتوں کے مطابق ڈهال لیں تو ابتدا تو ہو جائے گی.یہ بهی ہجرت ہے بہتر سے بہترین کی طرف…جنت کی طرف.. . اور ہجرت سے پہلے دعا سکهائی گئ ہے
رب ادخلني مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا. . آمین
دعا کی طالب بشری تسنیم