حدیث نمبر 21 

بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
مسند احمد 191/1 میں مستند حدیث کے مطابق حضورﷺ نے ارشاد فرمایا :”جب عورت پانچ وقت کی نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکهے، اپنے خاوند کی اطاعت گزاری کرے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت  کرے، تو اسے کہا جائےگا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے.”
ہر مسلمان کی یہی تمنا ہے کہ اسے جنت جیسا مقام نصیب ہو۔  اور اسی مقام کو پانے کے لیے وہ حقوق الله اور حقوق العباد کو ادا کرنے کی سعی و جہد کرتا رہتا ہے۔ اس حدیث میں خواتین کو جنت میں داخلے کا ایسا اختیار دیا جا رہا ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے لیے جو دروازہ  وہ  پسند کرے اس کا انتخاب کر سکتی ہے۔  یہ اعزاز پوری امت میں سے صرف سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو عطا کیا گیا تها اور ان کا اعزاز یہ بهی تها کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں نے سب بندوں کے احسانوں کا بدلہ چکا دیا سوائے ابو بکر صدیق کے اور یہ وہ صدیق اکبر ہیں کہ جن کی ایک رات کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں۔  ایسی شخصیت کے ساتھ ان خوش قسمت خواتین کا ذکر ہو رہا ہے جن کے لیے جنت کے سب دروازے کهلے ہوں گے اور داخلے کے لیے انتخاب ان کا اپنا ہوگا۔۔۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ۔۔۔
الله تعالى نے جو ترجیحات اور ترتیب حقوق کی ادائگی کے لیے رکهی ہے اس کی پابندی کرنے سے ہی معاشرے میں امن وسکون ہو سکتا ہے ترتیب بدلنے اور ترجیحات میں رخنہ ڈالنے سے باہمی نزاع پیدا ہوتا ہے۔ الله تعالی نے اپنا حق سب سے مقدم رکها کہ اس کے ساتھ کوئی شریک نہ بنایا جائے نبی کو مبعوث فرمایا کہ راہبر صرف وہی ہے۔ الله کی خوشنودی کے لیے اسی کی اطاعت لازم ہے پهر ماں کا حق رکها اور اس کے بعد باپ کا۔۔۔ شادی شدہ عورت کے لیے یہ ترتیب بدل جاتی ہے کہ اب الله اور اس کے رسول کے بعد شوہر کی اطاعت فوقیت رکهتی ہے۔ زندگی کے اس پرچے میں کامیاب ہونا ہی جنت کی ضمانت ہے۔
میاں بیوی کا رشتہ معاشرے کی وہ پہلی اینٹ ہےجس پہ باقی ساری عمارت قائم ہوگی ان دونوں کی ذمہ داریاں اور دائرہ کار مختص کر دیا گیا ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری نبهانی ہے۔ اگر کوئی اپنی ذمہ داری کے مقام سے ہٹ  گیا تو گهر کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
الله تعالى نے گهر کا نظام "الرجال قوامون علی النساء” کے تحت قائم کیا ہے۔  والدین کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے مگر سجدہ تعظیمی کے امکانات کو اس رشتہ کے ساتھ مثال نہیں دی گئی۔  مگر عورت کو یہ ضرور کہا گیا کہ اگر سجدہ تعظیمی کی گنجائش ہوتی تو وہ شوہر کے لیے ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گهر کے نظام کو مضبوط بنانا مقصود ہے۔ رشتوں کے حقوق میں مرد کے لیے ماں کا حق افضل ہے تو عورت کے لیے شوہر کا حق فضیلت رکهتا ہے۔
المستدرک الحاکم میں کتاب النکاح میں صحیح اسناد کے ساتھ درج ہےکہ
"مومن بیوی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کے گهر میں کسی ایسے فرد کو آنے کی اجازت دے جسے وہ ناپسند کرتا ہو (اس میں کسی رشتہ یا کردار کا ذکر نہیں ہے) اور نہ ہی وہ اس کی اجازت کے بغیر یا ناپسندیدگی دیکھ کر گهر سے نکلے (کام، مقام کا ذکر نہیں) اور نہ ہی خاوند کے معاملے میں کسی اور کی بات مانے۔”
یعنی  گهر کے معاملات میں شوہر کی رائے کو ترجیح دے۔  کسی بهی ادارے کو مستحکم بنیادوں پہ چلانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک سربراہ ہو اور باقی کارکن قواعد و ضوابط کی پابندی کریں۔  مزاجوں کے اختلاف اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ حکم عدولی سے ادارے کا نظام بگاڑا جائے۔۔۔ اسی طرح”الرجال قوامون علی النساء” کے قانون کوعورت چیلنج نہیں کرسکتی۔۔۔ جس کا جو مقام الله نے مقرر کر دیا ہے اس پہ بندوں کے بنائے ہوئے قوانین کو فوقیت دینا سراسر فساد کا موجب ہے۔ سنن إبن ماجہ کتاب النکاح حدیث نمبر1804 أم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنها سے مروی ہے کہ "جوعورت اس حال میں فوت ہو کہ اس کا  شوہر اس سے راضی تها تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔۔۔”( مومن شوہر اس لیے راضی تها کہ بیوی نے مومنہ بیوی ہونے کا ثبوت دیا)
ہرمومن شوہر اور بیوی میں مقابلہ ہے کہ دونوں میں سے کون اپنے رب کے مقرر کردہ قانون کی پابندی کرکے جنت کا مستحق ٹهہرتا ہے۔ اگر بیوی نیک نیتی سے شوہر کی اطاعت (الله کی اطاعت کے تحت )کرتی ہے، الله سبحانه وتعالى کے عائد کردہ فرائض انجام دیتی ہے، اپنی عصمت کی حفاظت کرتی ہے تو اپنے لیے جنت کے سب دروازے کهلے پائے گی۔ دنیا جن (الله کی مرضی سے ٹکرانے والے) قوانین کے تحت عورتوں کو حقوق دلوانے کے دعوے کرتی ہے وہ شیطان کا پهیلایا ہوا جال ہے۔ الله تعالیٰ  مرد و عورت کا خالق ہے  کیا وہی نہ جانے گا کہ کس صنف کو کیا کام سونپا جائے؟
انسانوں پہ عائد کردہ فرائض کے حوالے سے ہر رشتے کی طرح شوہر اور بیوی کے درمیان  بهی”ایکم احسن عملا "کا مقابلہ ہے۔ الله تعالیٰ نے یہ  دنیا  خاص توازن کے ساتھ بنائی ہے۔ جس میں ہر دو فریق کے لیے حقوق و فرائض کا پلڑا برابر رکھا ہے اور اس کا توازن بگاڑنے والے کو الله کی طرف سے سزا ملے گی۔۔۔ الله تعالیٰ نے فرمایا "واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسرواالميزان "۔۔۔ کائنات کو حقوق و فرائض کے میزان عدل پہ قائم کیا گیا ہے۔ الله کی اس میزان میں کمی بیشی یا اپنی مرضی چلانے سے یہ نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔۔۔ دنیا میں حقوق حاصل کرنے کے لیے فرائض ادا کرنے پڑتے ہیں۔ یک طرفہ مطالبہ فطرت کے خلاف ہے۔
الله تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جو بھی دنیا میں اپنے فرائض بحسن وخوبی انجام دے وہ الله کا محبوب ہوگا۔ اور اگر مسلمان عورت جنت کے دروازے اپنے  لیے کھلے دیکھنے کی خواہشمند ہے تو اسے اپنے رب کے احکام کی روشنی میں زندگی گزارنی ہوگی۔۔۔
وہ اپنے بندوں پہ مہربان ہے اوربے شک وہ ذات لطیف بهی ہے اور خبیر بهی۔۔۔
الله تعالی امت مسلمہ کے ہر مرد اور عورت کو اپنی رضا کا پابند بنا دے. آمین

تبصرہ کریں