بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورہ الکہف 18
یہ سورت بعثت کے پانچویں سال میں نازل ہوئی ابهی ہجرت حبشہ واقع نہیں ہوئی تهی اس سورت میں اصحاب کہف، قصہ خضر،اور ذوالقرنین کے بارے میں بتایا گیا ہے .
ہر جمعہ کو اس سورت کی تلاوت مسنون ہے.ہفتہ وار یاد دہانی ہے کچھ ایسے افکار و اعمال کی ہر خواص وعوام کے لئے جو صراط مستقیم پہ ثابت رہنا چاہتے ہیں.. .اور فتنہ دجال سے بچنے کی تیاری بهی یہی ہے کہ ایمان مضبوط ہو..
اصحاب کہف سے سبق ملتا ہے کہ کفار کس قدر بهی غالب ہوں مومن کو باطل کے سامنے سر نہیں جهکانا چاہئے. توکل علی الله کرتے ہوئے اس جگہ سےہجرت کرنا چاہئے.اس واقعہ سے زندگی بعد موت کی حقیقت سامنے آتی ہے. جن لوگوں کو آلله نے دنیا میں مال وأولاد سے نوازا ہے وہ فخر و غرور میں مبتلا نہ ہوں اس کو اپنے زور بازو کا نتیجہ نہ سمجهیں،کوئی نعمت حاصل ہو تو ماشاء اللہ لاحول ولا قوه الا بالله زبان اور دل کے یقین کے ساته پڑهنا چاہئے..کسی بهی کام کا ارادہ ہو تو ان شاآلله کہنا لازمی ہے .قصہ خضر سے مومنین کو تسلی ہوتی ہے کہ کارخانہ قدرت میں جو ظاہر ی طور پہ ہوتا نظر آتا ہے اس کے پیچھےکوئی اور خیر وحكمت کار فرما ہوتی ہے..کوئی ظاہری تکلیف اور برائی در اصل کسی بڑی اچها ئی کا پیشہ خیمہ ہو سکتی ہے.یہ احساس مومن کو راضی برضا رکهتا ہے.مایوس نہیں ہونے دیتا.تقدیرسےگلے شکوے نہیں کرنے دیتا.ہر نعمت کا ملنا، کهو جانا الله سبحانه وتعالى کی عظیم الشان حکمت اور مشیت کے تحت ہے.اس کا کوئی کام الل ٹپ نہیں ہوتا وہ اپنے بندوں پہ شفقت کی نظر رکهتا ہے..
خواص کے لئے خاص طور پہ ہدایات ملتی ہیں کہ اگر ان کو قوت طاقت اقتدار ملے تو وہ اپنے زیر دستوں پہ ظلم نہیں کرتے خدمت کے معاوضے نہیں لیتے ٹیکس نہیں لگاتے آزار اور تکلیفیں دور کرنے میں تعاون اور مدد کرتے ہیں.
اس سورت میں ہدایت کی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کا کہنا(مشورہ) نہ مانا جائے جو اپنے رب سے غافل ہیں،اور اپنی خواہش نفس کی پیروی میں لگے رہتے ہیں.اور جن کا طرز عمل افراط و تفریط کا شکار ہوتا ہے..
آیت49 میں ایسا نقشہ ہے اس وقت کا جب ہر انسان اپنی سوانح حیات کو جو اس نے اپنے ہاتهوں لکهی ہوگی اپنے ہاته میں پائے گا.اور حیران ہوگا کہ اس میں ہر لمحے کی داستان درج ہے..اور اب اس کا حساب دینا ہوگا.اور یہی کتاب فیصلہ کرے گی کہ انسان جنتی ہے یا جہنمی. .کچه لوگ اس حسرت میں مبتلا ہوں گے کہ جن اعمال کو وہ اچهے کار آمد نیکی سمجه کر کرتے رہے وہ راکه بنا کر اڑا دئے گئے ہیں..
دجال کے فتنے سے وہی بچ سکیں گے جن کے دل ایمان بالله پہ جمے ہوں گے ایمان دل میں اسی وقت رچتا بستا ہے جب وہ شعور کے ساته عمل میں بهی ہو..زندگی میں اچها برا جو بهی وقت آئے اس کو آلله سے قرب کا زریعہ بنائے .اس جنت الفردوس کو سامنے رکهے جہاں کبهی وہ اکتائے گا نہیں اور وہ ایسا وطن ہوگا جہاں سے کہین اور جانے کو دل نہ چاہے گا..
اللهم إنا نسئلک الجنت الفردوس
اللهم إنا نسئلک الجنت الفردوس
اللهم إنا نسئلک الجنت الفردوس
آمین
دعا کی طلبگار..بشری تسنیم