بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورہ النحل 16
مشرکین مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تهے. یہ سورت اسی زمانے میں نازل ہوئی.
سورت کا آغاز ہی تنبیہی جملہ سے ہوتا ہے،جس عزاب کا منکرین کو انتظار ہے وہ بس آیا ہی چاہتا ہے ابهی جو بهی مہلت ہے اس میں عقل سے کام لوگے تو توحید اور شرک کے حق و باطل ہونے کو سمجه سکتے ہو.اور دل نشیں انداز میں توحید کے دلائل دئے گئے ہیں. پورا کارخانہ قدرت الله کے ایک ہونے پہ گواہ ہے. انسان کی پیدائش ،اسکے لئے کائنات کی ہر شے کا مسخر کرنا اس رب کے شفیق و مہربان ہونے کا ثبوت ہے تو ہر عقلمند اس مہربان ہستی کی طرف سے سیدهے راستے کی طرف راہنمائی کا بهی یقین رکهتا ہے.جس رب نے انسان کی جسمانی
معاشی روزمرہ کی ضروریات کا انتظام اس قدر منظم کر رکها ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے روح کی ضروریات سے صرف نظر کر لیا ہو..ایک الله ہی اس ساری کائنات کو مکمل منظم طریقے سے چلا سکتا ہے.جومنعم و مدبر ہونے کے ساته ساته غفور رحیم بهی ہے..
عالم برزخ کا زکر ہے یہ وہ زمانہ ہے جو انسان موت کے آخری لمحہ سے لے کر دوسری زندگی کے شروع ہونے تک گزارے گا.موت جسم اور روح کے جدا ہونے کا نام ہے .روح اپنی پوری شخصیت کے ساته زندہ رہتی ہے. مجرم روح اور متقی روح عزاب اور ثواب کی ساری کیفیات قبر میں محسوس کر تی ہے اور یہ سلسلہ حشر تک جاری رہے گا
مجرم لوگ بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ الله کسی مرنے والے کو نہیں اٹها ئے گا، اللہ اس سے زیادہ دعوے سے اعلان کرتا ہے کہ بعث بعد الموت ایک ایسا وعدہ ہے جو پورا ہوکر رہنا ہے .
ساری کائنات الله کے حکم کی پابند ہے خود کافر بهی جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو اسی ایک الله سے فریادیں کرتے ہیں جب سخت وقت گزر جاتا ہےتو دوسروں کی مہربانیوں کے شکر گزار ہونے لگتے ہیں.اور الله کے احسان کو بهول جاتے ہیں.
آیت 61 ہمیں جهنجهوڑ رہی ہےکہ” اگر کہیں الله لوگوں کو ان کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیاکرتا تو روئے زمین پہ کسی متنفس کو زندہ نہ چهوڑ تا ”
حقیقت یہی ہے کہ ہم اس رب کی نرمی سے نا جائز فائدہ اٹها رہے ہیں .توبہ و انابت، استغفار کی مہلت مل رہی ہے عمل کرنے کو صحت وقت صلاحیت میسر ہے. اپنی دائمی زندگی کے لئے تیاری کرنے کی فکر کریں اس سے پہلے کہ مہلت ختم ہوجائے. الله تعالى نے ہر سو پهیلی نعمتوں کی فراوانی اور اس کے انسان تک پہنچانے کے انتظام پہ غور کرنے کی دعوت دی ہے جانوروں کے فوائد نباتات اور پهلوں کی کثرت، حتی کہٰ شہد کی مکهی انسان کے لئے کتنی محنت کرتی ہے اور انسان اپنے رب کی ان عنایات کے جواب میں کیا رویہ رکهتا ہے؟؟اس سورت میں تکرار کے ساتھ نعمتوں کا زکر ہے جو ہر وقت انسان استعمال کرتےہیں اپنی پیدایش سے ارزل العمر تک پہنچنا. لباس .،سواری کے اور سفر وحضر کے انتظامات کی عقل دینا. مگر اکثر لوگ حقیقت جان کر بهی حق کا انکار کرتے ہیں .الله نے صاف صاف اپنی نشانیاں ظاہر کر دی ہیں ہدایت رحمت اور خوشخبری ہے تسلیم کرنے والوں کے لئے. یہ لوگ وہ ہیں جو احسان کا رویہ رکهتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں بدی بے حیائی ظلم و زیادتی سے باز رہتے ہیں الله کے ساته کئے عهد کو پورا کرتے ہیں…وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ الله کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے جو انسانوں کے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے نیکی پہ ثابت قدم رہنے والا کوئی مرد ہو یا عورت ان کو آلله دنیا میں بهی باعزت پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور آخرت میں بهی أن کو بہترین اجر انکے اچهے اعمال کی بدولت ملیں گے .بفراغت رزق کے ساته مطمئن زندگی گزارنے والے جب کفران نعمت کرتے ہیں تو الله أن پہ خوف اور بهوک کی مصیبتیں نازل کر دیتا ہے . سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو مثالی شخصیت پیش کیا گیا ہے کہ وہ مشرک نہ تها .مطیع و فرماں بردار تها .نعمتوں کا قدردان اور شکر گزار تها. .
داعی کی خوبی بتائی گئ ہےکہ رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساته اور لوگوں سے مباحثہ کرو بہترین طریقے سے. (بغیر اشتعال کے،تحمل بردباری دلائل کے ساته )
انسانوں کو حق بات کی طرف لانے کے لئے صبر سے معاملات چلانے پڑتے ہیں.آخری آیت میں ہے
"اے نبی (صل اللہ علیہ و سلم )لوگوں کی حرکات پہ رنج نہ کرو نہ ان کی چالبازیوں پہ دل تنگ ہو ،الله أن لوگوں کے ساته ہے جو تقوی سے کام لیتے اور احسان کا معاملہ کرتے ہیں (128)
اللهم بارک لنا فی ما رزقتنا واجعل غنآءنا فی أنفسنا واجعل رغبتنا فی ما عندک. آمین
طالب دعا بشری تسنیم