روزے کا اصل مقصد:
روزے کا اصل مقصد الله رب العزت کی اطاعت و فرماں برداری کا عملی نمونہ بن کے دکهاناہے یعنی تقوی اختیار کرنا ہے
روزے کا مقصد یہ نہیں کہ انسان خود کو تکلیف میں مبتلا کرکے راہبوں کا مرتبہ پانے کی کوشش کرے یا ایسے مذاہب کے سادهووں کی پیروی کرے جن کے ہاں فطری انسانی ضرورتوں کو تج دینا نیکی ہے اور خود کو زیادہ سے زیادہ جسمانی مصیبت میں مبتلا کرنا اعلی درجے کی بزرگانہ شان حاصل کرنے کا زریعہ ہے.
اسلام دین فطرت ہے. انسان کی فلاح اس کا اصول ہے..اس فلاح کے حصول میں کوئی تنگی نہیں رکهی گئی،احکامات و فرائض میں یسر اور آسانی حالات واقعات، صحت تندرستی ،عمر ،سفر وحضر کے مطابق عطا کی گئی ہے.اس لئے کہ رب العلمین اپنے بندوں پہ مہربان ہے،اس کی رحمت ہر شے پہ چهائی ہوئی ہے.
یہی وجہ ہےکہ روزے نہ رکھ سکنے والوں کو سہولت دی گئی ہے.اب اگر کوئی اس سہولت کو، اس رحمت الہی کو پس پشت ڈال کر خود کو اذیت میں مبتلا کرتا ہے اور اپنے متعلقین کو بهی پریشانی میں مبتلا کرتا ہے، تو وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی شفقت نرمی رحمت سے منہ موڑتا ہے. کچھ بیمار بوڑھے لوگ شدید تکلیف اور کمزوری کے باوجود روزہ رکهنے پہ مصر ہوتے ہیں اور دل میں بہت معصومانہ سی خواہش مچل رہی ہوتی ہے کہ اگر موت آنی ہے تو روزے کی حالت میں آئے.ہر مومن کی دلی خواہش یہی ہوگی مگر الله سبحانه وتعالى کی محبت شفقت ہی مطلوب ہےتو اس وقت الرحمان الرحیم ذات یہی تو عطا کر رہی ہے اس مہربانی کو قبول کر لینا ہی اطاعت اور فرماں برداری ہے.موت کی تیاری اس طرح خود کو اذیت دے کر نہیں بلکہ اطاعت و فرماں برداری کرکے کرنا زیادہ پسندیدہ ہے. کہیں ایسا نہ ہو کہ الله تعالی کی طرف سے عطا کردہ سہولت سے فائدہ نہ اٹها نے پہ ناشکر گزاری کا لیبل لگ جائے .کچھ لوگ الله تعالى کی عطا کردہ نرمی سے ناجائز فائدہ اٹها تے ہیں وہ بهی تقوی سے دور ہیں .اور جو نرمی شفقت اور محبت کو قبول نہیں کرتے وہ بهی متقی کا درجہ نہیں پاسکتے. عبادت کا مقصد خود کو جان بوجھ کر اذیت میں مبتلاکرنا اپنی بیماری کو بڑهاوا دے کر موت کی تمنا کرنا نہیں ہے ….ایسے طرز عمل کو رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم نے پسند نہیں فرمایا.. الله تعالى اور اس کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہر قسم کے حالات کے مطابق دی گئی ہدایات پہ عمل کرنا ہی اصل عبادت ہے اور یہی تقوی ہے.
طالبہء دعا. بشری تسنیم