قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن

قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن

اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب کا پہلا حصہ ’’فاتحہ‘‘ ہے۔ یہ اس کتاب کا افتتاحیہ بھی ہے۔ نام بھی اور ایک دُعا بھی۔ اس میں مانگنے کا سلیقہ سکھایا گیا اور کیا مانگو وہ بھی بتا دیا گیا۔۔ اور کب مانگو، اس کی اہمیت بھی شریعت نے بتا دی کہ ہر نماز کی ہر رکعت میں طلب کرو۔ گویا روزانہ، شام و سحر کے ہر پہر اور ہر لمحے اپنے رب کے حضور سوالی بن کر کھڑے رہو۔ جب مانگنے کی اتنی تاکید ہے تو غور کا مقام ہے کہ طالب کیا واقعی وہی کچھ طلب کر رہا ہے جو اسے سکھایا گیا ہے؟۔۔۔ اور جب سوال کا جواب عنایت ہو رہا ہو تو وصول کر لینے کی اور وصول کرنے بعد کی کیفیات کیاہوں؟

پہلی طلب اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ہے، جب کہ باقی سب مطلوب اشیا اسی طلب کے ضمیمے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سیدھا راستہ کیا ہے؟ کون لوگ سیدھے راستے پر چلے ۔۔۔ اور کون لوگ گمراہ ہوئے اور اس گمراہی سے بچنے کے طریقے کیا ہیں؟ صراط مستقیم کے طلب گار کو پورا قرآن پاک جواب کے طور پر عنایت کیا گیا۔ کون، کیا، کیوں، کب، نوعیت کے سبھی سوالات کے جوابات اس الہامی کتاب میں موجود ہیں جس میں کوئی شک نہیں۔ سوال کرکے۔۔۔ یقین کتنا ہے؟ جواب کے سچ اور بہترین ہونے کا ۔۔۔ اگر شک ہے تو پھر نہ ہدایت ملے گی نہ گمراہ اور مغضوب لوگوں سے عبرت حاصل ہوگی۔۔۔ اور انعام والے لوگوں کی زندگی کی تلاش بھی نہ ہوگی ۔۔۔ اور جب پورا قرآن ان کی نشان دہی کرے گا تو ایک سچے مومن کو اپنی زندگی کا راستہ متعین کرنے کے ضمن میں بڑی آسانی ہوگی۔

اگر سوال کیا ہے تو جواب بھی سنو۔۔۔ کچھ مانگا ہے تو عنایت ہونے پر قدر بھی کرو۔ زندگی کے کتنے رمضان المبارک گزرتے جا رہے ہیں۔ کتنے قرآن پاک پڑھ لیے گئے۔۔۔ کتنی رکعتوں میں ہزاروں مرتبہ سورۂ فاتحہ کی شکل میں ’’صراط مستقیم‘‘ طلب کرتے آ رہے ہیں ۔۔۔ ہر سال رمضان المبارک کے بعد کتنی اور کیا کچھ تبدیلی آئی کہ رفتہ رفتہ قاری، قرآن نظر آنے لگے ہوں۔۔۔

قرآن کے آئینے میں شخصیت کا جائزہ

آئیے قرآن کو آئینہ بنا کر اپنی شخصیت کا جائزہ لیں۔ اس عظیم ترین کتاب سے فلسفۂ زندگی پوچھیں۔۔۔ سوال کریں۔۔۔ جواب لیں اور اپنا آپ سنوارنے کی کوشش کریں۔ ہر قاری جس نے اس رمضان المبارک میں ایک بار پورا قرآن پڑھا یا سُنا۔۔۔ اسے کتنے سوالوں کے جواب حاصل ہوئے؟ مسئلہ تو یہی ہے کہ نہاں خانۂ قلب و نظر سے سوال ہی نہیں اٹھتا۔۔۔ کہ جواب کا انتظار بھی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ طلب ہی سچی نہیں ہے۔ جب کاسہ، دامن اور پیٹ خالی ہوتا ہے تو مانگنے کے لیے کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔
ہمارا کاسہ، دامن اور پیٹ حیوانی ضرورتوں کے لیے خالی ہے، سو اس کے لیے تو مانگ رہے ہیں، اور مانگے چلے جا رہے ہیں۔۔۔ جس سے مانگنے کی ہوس اور حرص بڑھتی جاتی ہے۔

روح کا کاسہ بھی خالی ہے، اور ایمان کا کشکول بھی ۔۔۔ مگر اس میں طلب کرنے کو جو کچھ چاہیے۔۔۔ اس کے مانگنے کی ٹریننگ کے انتظار میں رہتے ہیں اور مانگنے والے کو وہی ملتا ہے جس کی وہ طلب کرتا ہے۔۔۔

آئیے اپنی طلب کو قرآن کے ساتھ جوڑ لیں۔۔۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اور قرآن اس کا کیا جواب دیتا ہے؟ ہمارے ذہنوں میں کیا سوال اٹھتے ہیں اور ان کے جواب ہمیں کہاں سے لینے ہیں؟ اصل میں انسان کی شخصیت کا پہلا مسئلہ ہی اس کے اندر سے اٹھنے والے سوالوں کا صحیح جواب ملنا ہے۔ سوال ہی انسانی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔۔۔ اور اس کا اندازِ سوال ہی اس کی مطلوب منزل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہر باشعور انسان سب سے پہلے اپنی زندگی پر غور کرتا ہے کہ کیا مقصد ہے اس کا؟ اور پھر موت بھی زندگی کا حصہ کیوں ہے؟ سب کے ذہنوں میںیہ سوال آیا ہوگا ۔۔۔ لیکن اگر سائل کو جواب کی سچی طلب نہ ہوگی تو اُسے جواب کا ادراک بھی نہ ہوگا۔ قرآن پاک نے اس سوال کا جواب دیا، بہت مرتبہ دیا، مگر ہم ایک جواب پہ ہی توجہ مرتکز کر لیں تو ہمارے لیے کافی ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً  (الملک ۶۷:۲)
جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔
ساتھ ہی ایک دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ احسن عمل کیا ہے؟

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo (حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۳۳)
اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔

کیا اسلام لانے والے سب مسلمان، ایک جیسے نہیں؟ انسان بحیثیت مسلمان کے سوچتا ہے کہ اس کے اردگرد سب مسلمان ہیں لیکن سب کے معاملات اور افکار و عقائد میں فرق ہے، تو کیا اسلام زندگی کے کسی خاص دائرے سے متعلق ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اسلام تو انسان کے پورے پورے دین میں داخل ہو جانے کا نام ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (البقرۃ ۲:۲۰۸)
اے ایمان لانے والو: تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ۔
اور اگر ایسا نہ ہو رہا ہو تو پھر قرآن پاک کیا کہتا ہے؟

وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُج ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (آل عمران۳:۸۵)

اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔

خسارے سے بچانے والے اعمال

مسلمان کے لیے کون کون سے اعمال بجا لانا ضروری ہیں جن کے باعث وہ خسارے سے محفوظ رہیں:

وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍoاِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْ بِالْحَقِّ۵لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo(العصر۱۰۳:۱۔۳)

زمانے کی قسم، درحقیقت انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اورنیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

قرآن پاک میں اٰمنوا اور عملوا الصلحت کے الفاظ متعدد بار آئے ہیں۔ علماے دین کے مطابق اٰمنو سے مراد۔۔۔ ’’حقوق اللہ‘‘ ہیں اور عملوا الصلحت سے مراد ’’حقوق العباد‘‘ ہیں۔
ان دو قسم کے حقوق کی ادایگی میں جو سوال طالب کے ذہن میں آتے ہیں ان کا واضح جواب قرآن پاک میں کیا دیا گیا ہے۔ ہم نے ابھی پورا ایک مہینہ قرآن پاک کی رفاقت و معیت میں گزارا۔۔۔ تو کیا اس سوچ نے سوال کی صورت میں ہمیں بے چین کیا؟
آخر انسان کے ذہن کو اور اس کی سوچ کے محور کو بھی تو اللہ رب العالمین نے کوئی ہدایت کی ہوگی۔ انسانی دماغ کے پنہائیوں میں اگر ’’کیا سوچوں؟ میری فکر و نظر کیا ہو؟‘‘۔۔۔ کا سوال اٹھا ہوگا تو اس کا جواب اس آیت مبارکہ میں موجود ہے:

الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاًج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِo(آل عمران۳:۱۹۱)

جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) ’’پروردگار، یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ تو پاک ہے اِس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے ربّ، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

غور وفکر کے لیے وسیع میدان مہیا کیا گیا۔ انسان جو سوچتا ہے وہی بولتا ہے۔ پھر اس کے اندر سے بولنے کی یعنی گویائی کی ’’ہدایت‘‘ کا سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی گفتگو کے ضمن میں قرآن پاک میں اس کی راہنمائی کن خطوط پر کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ۲:۸۳)

لوگوں سے بھلی بات کہنا۔
کیونکہ
مَایَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌo (قٓ ۵۰:۱۸)
کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ رکھنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔

کھانے پینے کے لیے رہنمائی

کبھی اس سلسلے میں پریشانی لاحق ہوئی کہ کیا کھایا پیا جائے؟ تو جواب ملتا ہے رزق حلال ہو۔ جس میں ذائقہ، رنگ، تازگی، پاکیزگی،صحت اور رزقِ طیب کے اوصاف ہوں اور شیطانی طریقوں کا استعمال نہ ہو:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّباً ز صلے وَّ لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo (البقرۃ۲:۱۶۸)

لوگو، زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں اُنھیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

کھانے پینے کے معاملے میں اسراف و تبذیر سے منع کیا گیا۔ ارشاد ربانی ہے:

کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْاج اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo (الاعراف۷:۳۱)

کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
(ضرورت سے زیادہ نہ کھاؤ۔۔۔ اسے لیے کہ یہ عمل بیماریوں کا اور موٹاپے کا سبب بنتا ہے، overeating کے بعد غذائی منصوبے بنا کر ہلکان ہونا پڑتا ہے)۔ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

لباس کے آداب

انسانوں کو کیا پہننا چاہیے کہ جو قرآن کی نظر میں محمود اور پسندیدہ ہو۔ لیجیے جواب حاضر ہے:

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًاط وَلِبَاسُ التَّقْوٰیلا ذٰلِکَ خَیْرٌ  (الاعراف۷:۲۶)
اے اولادِ آدمؑ ، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔
لباس کے متعلق بنیادی چیزیں بتا دی گئی ہیں۔۔۔ اور لباس کے مقاصد بھی واضح کر دیے ہیں۔ رنگ کون سا اختیار کریں کہ جس رنگ میں قرآنی جھلک نظر آئے۔

صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً (البقرہ ۲:۱۳۸)
اللہ کا رنگ اختیار کرو اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا؟
باطل طریقوں سے مال نہ کھاؤ
لین دین اور باہمی معاملات کے لیے بھی رہنمائی دی گئی ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلاّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ (النساء ۴:۲۹)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دُوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضا مندی سے۔
اقتصادی راہنمائی کا ایک واضح مدلل ٹھوس نکتہ بتا دیا گیا:

وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا (البقرۃ۲:۲۷۵)
اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔
سود کے بارے میں اتنے واضح احکامات ہیں کہ فرمایا ہمیشگی ہے آگ کے عذاب کی۔

وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ(البقرۃ ۲:۲۷۵)
اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے۔ وہ وہاں ہمیشہ رہے گا۔

معاشرتی تعلقات

باہمی تعلقات اور حقوق العباد کے ضمن میں قرآنی تعلیمات کیا ہیں؟ آئیے رب کریم کے بعد انسان کے سب سے بڑے محسنین یعنی والدین کے متعلق ہدایاتِ خداوندی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وِبِالْوَالِدَیْنَ اِحْسَانًاط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًاo وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرً o(بنی اسرائیل۱۷:۲۳۔۲۴)

تیرے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انھیں اُف تک نہ کہو، نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار، اِن پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘۔

والدین خود اپنے بارے میں اور اپنی اولاد کے متعلق کیا نظریہ، رویہ، سوچ اور فکر رکھیں:

قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالحِجَارَۃُ (التحریم۶۶:۶)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔

میاں، بیوی کے تعلقات کو بہترین رکھنے کے لیے قرآنی نسخہ کیا ہے؟ ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے رکھی جائے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو ایک ہی مثال دے کر آسان راہ بتا دی۔ ازدواجی زندگی میں سکون و طمانیت حاصل کرنے کے لیے ارشاد فرمایا:

ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ (البقرۃ ۲:۱۸۷)
وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو۔
لباس کی ایک دوسرے کے لیے تشبیہ میں ہر وہ نکتہ موجود ہے جو دونوں کے قرب، محبت، زینت اور اعتماد میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اس سے بہتر مثال ممکن ہی نہیں تھی۔اللہ تعالیٰ کو جس طرح مخلوق پہ فوقیت ہے اس کے کلام پاک کو بھی دنیا والوں کے کلام پہ فوقیت حاصل ہے۔

سوسائٹی اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات کے لیے اگر کوئی آسان نکتہ ہے تو وہ قرآن کی نظر میں یہ ہے:

لَا تَظْلَمُوْنَ وَلَا تُضْلَمُوْنَ (البقرۃ ۲:۲۷۹)
نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
انسانوں کے اس معاشرے میں تلخیاں آنا، ایک دوسرے سے رنجش ہو جانا یقینی ہے باہمی تعلقات کی تلخی کو مٹھاس میں تبدیل کرنے کے لیے قرآن پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہم سے مخاطب ہیں:

وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنِکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo (حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۳۴)

اے نبیؐ، نیکی و بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

مشکلات و مصائب میں رویہ

مشکلات و مصائب میں کس سے اور کس طرح مدد مانگیں؟ صبر و ثبات کی کیا اہمیت ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِینُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (البقرۃ۲:۱۵۳)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اسلامی حکومت کے کام

اقتدار ملنے پر ایک سچے مومن کا اپنے دائرہ اختیار میں طرزِ عمل کیسا ہو؟ اس کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo (الحج ۲۲:۴۱)

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

بہترین اسوہ

مسلمان اپنی زندگی میں نمونہ کس کو بنائیں؟ اس کا جواب ملاحظہ کیجیے اور عمل کے لیے کمربستہ ہو جایئے۔

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب۳۳:۲۱)
درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔

خالق سے تعلق کی نوعیت

ایک مسلمان کا اپنے خالق و مالک سے محبت و تعلق کا انداز کیا ہو اور اسے اپنے پروردگار سے کس درجے محبت ہو؟ اس سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ  (البقرۃ ۲:۱۶۵)
ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
جس سے بھی محبت ہو، بس اللہ تعالیٰ کی محبت سے کم رہے۔ شدید محبت کی حق دار تو اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ البتہ امت مسلمہ کے دشمن کو دشمن سمجھو اور اس سے دشمنی کا ہی رشتہ رکھو۔
انسان کا کھلا دشمن
اس ضمن میں ایک مومن کو دنیا میں فوز وفلاح اور آخرت میں نجات کے لیے شیطان کی دشمنی کا ادراک ہونا چاہیے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّاط اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِo(فاطر۳۵:۶)

درحقیقت شیطان تمھارا دشمن ہے، اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔ وہ اپنے پیرووں کو اپنی راہ پر اِس لیے بُلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں۔

اجتماعی معاملات میں مشاورت

مومنین اپنے باہمی اجتماعی معاملات کو کیسے طے کرتے ہیں؟اس سلسلے میں قرآن پاک رہنمائی دیتا ہے:

وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشورٰی۴۲:۳۸) اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔

زندگی کی حقیقت
انسانی زندگی کا لب لباب کیا ہے، کیا فلسفہ ہے، کیا اندازِ فکر ہے، قرآن کی ترتیب کیا ہے؟

۱۔ لَقَدْخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ(البلد۹۰:۴) ’’درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے‘‘ یعنی انسان پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک کا عرصہ محنت، مشقت اورسختیاں جھیلنے میں گزارتا ہے۔
۲۔ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰی (النجم۵۳:۳۹)انسان کو ہی ملے گا جس کے لیے اُس نے سعی کی (محنت، مشقت کی)۔
۳۔ اَلاَّتَزِرُوَا زِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی (النجم۵۳:۳۸) کوئی (ذی روح) بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔
۴۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ (آل عمران۳:۱۸۵) ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔

موت کے بعد انسان معمولی سی نیکی اور برائی کو اپنے اعمال نامے میں درج پائے گا۔ شراور خیر کی معمولی سی مقدار بھی دنیا و آخرت دونوں میں اپنا اثر دکھا کر رہتی ہے۔ اگر شر کسی خدائی مصلحت کے تحت دنیا میں پھلتا پھولتا نظر بھی آئے تو آخرت میں میزان کا معیار وہی ہوگا جو حق اور سچ کے مطابق ہوگا۔
وہاں سچے مومنوں سے کیے گئے جنتوں کے وعدے پورے ہوں گے بلکہ اس سے بڑھ کر رضوان اللہ اکبر کی خوشخبریاں ملیں گی۔ ہمیشگی کی زندگی ہوگی ۔۔۔ اور وہ سب نعمتیں جن کے ملنے کے مومنوں کے ساتھ وعدے کیے گئے ہیں مومنوں کے تصور سے بھی زیادہ انھیں ملیں گی۔

اے قاریِ قرآن، ذرا غور کر!
یہ وہ اجمالی سا خاکہ ہے جس پر مومن کی نظر ہونی چاہیے۔ اپنی شخصیت کو اسی پہ پرکھنا چاہیے۔۔۔ یہی سورہ فاتحہ کا جواب ہے۔
انعام والے لوگوں کا راستہ طلب کرنے پر بتایا گیا ہے کہ انعام والے تو انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں۔۔۔ صراط مستقیم پہ یہ لوگ رہے اور رہیں گے ۔۔۔ ان کے ساتھ رہنا ہے ان کے ساتھ ملنا ہے تو پھر مغضوب اور گمراہوں سے دور رہنا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں بھی وعدہ فرمایا کہ جو اس کے راستے پر صبر و استقامت کے ساتھ گامزن رہیں گے ان کو دنیا بھی بہترین ملے گی، اور قوموں کے درمیان عزت اورسرفرازی بھی ملے گی۔

ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے بدلے میں دیں گے۔ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشرط یہ کہ مومن ہو، اسے ہم دنیا میں بھی پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔ اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔ (النحل۱۶:۹۷)

ہر نماز کی ہر رکعت میں انعام، ہدایت اور صراط مستقیم طلب کرنے والوں کو قدم قدم پر راہنمائی عطا کر دی گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب اس بات پر غور کریں کہ دامن پھیلانے کے بعد۔۔۔ عطا اور بخشش کے لمحات میں اگر دامن لپیٹ لیا جائے تو خالی ہاتھ رہ جائیں گے؟ سوالی بن کر گئے لیکن منعم حقیقی کی طرف سے ملنے والے جواب کی طرف دھیان نہیں دیا، سوال کرنے والا کیا اتنا بھی غافل ہوتا ہے؟

کیا اب غفلت کو دور کرکے دل جواب سننے پہ آمادہ ہے؟ سوچیے، کیا واقعی ہم نے ہدایت، صراط مستقیم اور انعام والوں کا راستہ ہی طلب کیا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر جواب سننے اور اس پر عمل کرنے کے معاملے میں اتنی بے نیازی کیوں؟
کیا یہ شیطانی اکساہٹ ہے؟
اس کے اور اس کی ذات کے ڈالے ہوئے وسوسے ہیں؟
لوگوں کی شر انگیزیاں ہیں؟

اے قاری قرآن۔۔۔ ذرا غور کر ۔۔۔ سورہ الفلق اور سورہ الناس قرآن پاک کی آخری سورتیں کیوں ہیں؟ اپنے وسوسوں اور شرانگیزیوں کو ختم کرنے کے لیے تو یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ سورۃ فاتحہ تو ابتدا ہے۔۔۔ سراپا سوال ہے۔ اور پورا قرآن اس سوال کا جواب ہے۔۔۔ آخری بات یہی ہے کہ اس سیدھے راستے پر چلنے اور عمل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا طریقہ قرآن مجید کی صورت میں موجود ہے۔۔۔ کیا اب بھی کوئی حجت باقی رہ گئی ہے اس پہ عمل کرنے کے لیے؟ ۔۔۔ قرآن حکیم ہمارے خلاف حجت ہوگا یا ہمارے حق میں؟ ۔۔۔ غور کیجیے ۔۔۔ یہ بھی سوچیے کہ اگر بھوک نہ ہو اور اگر قسم ہا قسم کے کھانے دسترخوان پہ سجے ہوں تو کب دل چاہتا ہے کچھ کھانے کو۔ کلام اللہ بھی اللہ تعالیٰ کا دستر خوان ہے یہ روح کی غذا ہے۔ غذا کی روح میں طلب اور پیاس ہی نہ ہوگی ۔۔۔ تو کیسے اس دسترخوان سے کوئی فائدہ اٹھائے گا؟

گر تومی خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
جب مومن قرآنی تعلیمات کا آئینہ اور عکس بن جاتا ہے تو اس کی حقیقت اظہر من الشمس ہو کر دنیا کے سامنے آ جاتی ہے جیسا کہ حکیم الامت شاعر مشرقؒ نے فرمایا ہے ؂

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو خالص کردیں، قرآن کو کردار میں ڈھالنے اور سمونے کی توفیق عطا فرمائیں اور استقامت فرمائیں۔ آمین!

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s