بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورہ سبا 34
یہ سورہ مکہ کےدور اول یا متوسط دور میں نازل ہوئ.
اس سورہ میں توحید و آخرت کے دلائل اور نبوت پہ اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے. تفہیم ،،تزکیر کے ساته ساته انزار کا پہلو بهی نمایاں ہے. سبا کی قوم کی مثال دے کر سمجهایا گیا ہے کہ نعمتیں پاکر فخر و غرور میں مبتلا ہونے والی قوم کو آلله نے بیست و نابود کردیا کرتا ہے،لیکن شکر گزار بندے داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کو اچهی قابل تقلید مثال کے طور پہ پیش کیا گیا ہے.توحید و آخرت پہ یقین اور شکر گزاری کا جزبہ ایک قابل فخر شخصیت سامنے لاتا ہے.یہ داؤد اور سلیمان کی شکر گزاری کا ہی نتیجہ تها کہ ان کو وہ اقتدار میسر آیا جو کسی کو کبهی نہیں ملا. .
نبی اکرم صل اللہ علیہ و سلم کو پوری انسانیت کے لئے بشیر اور نزیر بنا کر بهیجا گیاہے قیامت تک کے لئے.اور یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم اس نبی کی امت سے ہیں جس پہ تکمیل نبوت ہوئی.
.سورہ فاطر 35
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکہ کے دور متوسط میں نازل ہوئ. .اس میں مکہ اور اس کے سورہ فاطر سرداروں کو ناصحانہ انداز میں تنبیہ و ملامت اور متعلمانہ انداز میں میں فہمائش کی گئ ہے.توحید کے آثار دن رات دیکهنے کے باوجود عقل سے کام نہیں لیتے. جو رب ایک حقیر بوند سے ایسا انسان تخلیق کر سکتا ہے وہ اس کو دوبارہ بنانے پہ قادر ہے.اگر لوگ نبی کی تعلیم کو قبول نہیں کرتے تو اس میں ان کا اپنا نقصان ہے. اور جس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اس کی بد بختی کا کوئ ٹهکانہ نہیں. شکر گزاری کے جزبہ سے ان نعمتوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے جو اگر أن سے واپس لے لی جائیں تو وہ ان کو کہیں سے نہ پا سکیں.دیکهنے والا اور أندها. دهوپ چها ؤں، روشنی اندھیرا ،مردہ زندہ ایک جیسے نہیں ہو سکتے.اسی طرح مومن اور کافر انجام کے لحاظ سے ایک کیسے ہو سکتے ہیں. مومن کی خوبیاں بتائ گئ ہیں کہ وہ کتاب الله کی تلاوت کرتے نماز قائم کرتے اور جو کچه أن کو رزق ملا ہے اس میں سے خر چ کرتے ہیں کهلے اور چهپے. یہ ایسی تجارت میں سرمایہ لگا رہے ہیں جس میں کبهی خسارے کا اندیشہ نہیں ہے.مسلمانوں کی بهی تین قسمیں بتائ گئ ہیں پہلی قسم جو اپنی جانوں پہ ظلم کرنے والے. جو اطاعت کا حق ادا نہیں کرتے. مجرم ہیں باغی نہیں ہیں.دوسری قسم وہ ہے جو نفس کو بے لگام تو نہیں چهوڑے ہوئے لیکن گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں. ان کی زندگی نیکی اور گناہ کا مجموعہ ہوتی ہے.یہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور تیسرے گروہ سے زیادہ ہیں.تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں. الله تعالى کی قائم کردہ حدود کے قریب بهی نہیں پهٹکتے.الله کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں پیش پیش رہتے ہیں .یہ وہ لوگ ہیں جو امت مسلمہ میں سب سے افضل ہیں.لوگ حشر کے میدان میں اپنے اپنے گروہ کے ساته ہونگے اور وہاں کی سختیوں کو اپنے اعمال کے حساب سے بهگتنےکےبعد جنت میں جائیں گےآئیےجائزہ لیں ہم کس گروہ میں ہیں؟؟
اللهم ارزقنا من فضلك ولاتحرمنا عافیتک واجعل رغبتنا فی ما عندک وجعلنا من الراشدين. . آمین
دعا کی طالب بشری تسنیم