سورہ یس، سورہ الصافات کا آئینہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سورہ یس 36

یہ  قیام مکہ کے آخری دور کی ہے.اس میں کفار کو نبوت محمدی پہ ایمان نہ لانے اور أن پہ ظلم و ستم کرنے کے انجام سے خبردار کیا گیا ہے. بار بار دلائل دئے گئے ہیں آثارِ کائنات کے زریعے توحید کا یقین دلانے کے لئے. آخرت کے دلائل آثارِ کائنات سے انسان کے اپنے وجود سے..اور رسالت کی دلیل کہ محمد بن عبد اللہ اتنے جورو ستم برداشت کرنے کے باوجود بغیر کسی غرض کے الله کی طرف بلا رہے  ہیں. بے غرض، بے لوث مشقت سالوں تک تکالیف اٹها کے کون کرتا ہے؟

اس سورت کو  قرآن کا دل بهی کہا گیا ہے.اس لئے کہ اس میں پورے قرآن کی تعلیم  کا خلاصہ آگیا ہ(.توحید رسالت اور آخرت)

دعوتِ حق  پہنچنے پہ انسانوں میں جو رویے سامنے آتے ہیں ان کا زکر ہے . جہالت کی بناء پہ ایسی  عداوت کہ  جان لینےپہ اتر آئیں اور دوسری طرف  حق کی خاطر جان قربان  کر دینے والے بهی موجود ہیں .. قیامت کے اچانک آجانے اور محاسبے کی  سختی کا زکر ہے جب انسان کے اپنے أعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے. .الله سبحانه وتعالى جب کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے تو حکم صادر کر دیتا ہے ” ہوجا "اور اس کے ظہور پزیر ہونے کے  اسباب شروع ہوجاتے ہیں. انسانوں کی زندگی اسباب کے ساته جڑی ہوئی ہے.الله تعالی ہی سارے اسباب کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے ملانے والا ہے اور  اپنے”کن” کی شان دکها تا ہے .الله تعالى کے وہ لشکر جن کو ہم  نہیں جانتے اس "کن”پہ عملدرآمد کے  لئے مقرر کر دئے جاتے ہیں. ہم الله سبحانہ و تعالیٰ کے حضور اپنی درخواستیں پیش کرکے یہ یقین رکهیں کہ الله نے منظوری دے دی اب عملدرآمد کے لئے اسباب کی  کڑیاں ملانے کا سلسلہ شروع  ہو گیا ہوگا. .انسان جلد باز ہے فوری  نتیجہ چاہتا ہے . الله تعالى حکیم ہے وہ جانتا ہے کس کو کیا کب کتنا اور کیسے پہنچایا جائے؟( فسبحان الذی بیده ملکوت کل شئ والیه ترجعون 83 )

اللهم ربنا لا تجعلنا بدعآئک شقیا و کن بنا الرؤوف الرحیم  یا خیر المسؤولين و یا خیر المعطین.اللهم إنا  نسئلک ایمانا کاملا و یقینا صادقاً و أن تجعلنا کل قضاء لنا خیر و نسئلک  ما قضیت لنا من أمر أن تجعل  عاقبته رشدا .اللهم أحسن عاقبتنا فی الأمور کلها و اجرنا من خز ی الدنیا وعزاب الاخرة آمین

******************************

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورہ

الصافات 37

یہ سورت مکی دور کی ہے جب مخالفت پوری شدت کے ساته  برپا  تهی. رسالت کا مزاق اڑانے پہ  تنبیہ ہے.اور  پیغیمبر کے  غالب آنے کی  یقین  دہانی اور  عزاب کا  ڈراوا ہے.. تفہیم و ترغیب کا انداز بھی ہے.توحید اور آخرت کے دلائل ہیں . تاریخی سبق آموز قصے ہیںانبیاء کی سیرت ہے اور ان کی جاں فشانیوں کا زکر ہے. مومن کی زندگی کا رخ الله کی طرف ہو جائے تو  افکارو اعمال  کیسے رخ بدل لیتے ہیں. .آخر  میں مومنوں کو خوشخبری سنائی گئی ہےکہ انجام کار وہی  غالب رہیں گے. سلام ہے ان سب نبیوں پہ جو  زمین پہ اتارے گئے . تصور میں لائیں سارے نبیوں کومعراج کے موقعہ پر  بیت المقدس میں حضورﷺ کی  امامت میں اور سلام پیش کریں سب کے حضور    عقیدت و محبت سے  (سبحان اللہ !کیا امام ہے اور کیا مقتدی ہیں )

سبحان ربک رب العزة عما یصفون.وسلام علی المرسلین والحمد لله رب العالمين182

طالب دعا بشری تسنیم

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s