حدیث نمبر 37

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین

مشکوة المصباح کے حصہ” کتاب الصوم” میں بیہقی اور محی السنة کے حوالے سے زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ کهلوائے یا کسی مجاہد/ غازی  کے لئے سامان جہاد فراہم کرکے دے تو اس کو ویسا ہی اجر ملے گا جیسا کہ اس روزہ دار کو روزہ رکهنے اور غازی کو جہاد کرنے کا ملے گا۔”

اسلام ایسا بہترین طریقۂ زندگی ہے کہ اس میں نیکی کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا جاتا۔ رائی کے دانے یا ذرہ برابر بهی کسی نے نیک کام میں حصہ ڈالا ہو تو وہ اس کے لئے نجات کا باعث بن سکتا ہے۔ نیک کام کی ابتدا کرنے والے اور تعاون کرنے والے دونوں کو بہتر اجر سے مالا مال کر دیا جائےگا۔ اور سب کو پورا اجر ملے گا کسی کے اجر میں کمی نہ کی جائے گی۔۔۔

روزہ اور الله کی راہ میں جہاد عظیم ترین عبادتیں ہیں۔ دونوں الله کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ نیکی کی طرف راہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے کی مانند ہے۔۔۔

روزہ دار کا روزہ کهلوا دینا بظاہر معمولی سی بات لگتی ہے مگر اس کا اجر بے پناہ ہے۔ مؤمن کی ساری زندگی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جہاں سے بهی موقع ملے نیکی تک پہنچ جائے۔ رمضان المبارک میں اس کی تمنا اور بهی بڑھ جاتی ہے۔۔۔

مؤمن نیکیاں جمع کرنے کے سلسلے میں بهی دانائی سے کام لیتا ہے۔۔۔ ایک کام کا ثواب حاصل کرنے کے لئے دو ناپسندیدہ کام کرنے پڑتے ہیں تو وہ پرکھ لیتا ہے کیا زیادہ درست ہے۔ اگر نفل کام کرنے کے لئے فرض سے غفلت ہو جاتی ہے تو نفل کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ الله تعالى نے ہرعبادت اور حقوق کی ادائگی میں درجہ بندی کی ہے۔ جب فرض عبادت یا کام کا وقت ہے تو وہی قبول ہوگا، دن کو کرنے والے اہم کام دن کو ہی کارآمد ہیں۔ مؤمن ہر کام میں فرض و نفل کی حکمت سے غافل نہیں ہوتا۔۔۔

انسان کو وہ کام اور ہدایات زیادہ بهاتی ہیں اور ان پہ عمل کرنا آسان لگتا ہے جن سے اپنا مزاج اور نفس خوش ہوتا ہو۔ اس میں انسان اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ اپنے اصل ٹارگٹ کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ مگر مؤمن کی نگاہ بصیرت کی نگاہ ہوتی ہے۔

آئیے ہم اپنی مومنانہ بصیرت کا جائزہ لیں کہ رمضان المبارک میں دوسرے روزہ داروں کے ثواب میں حصہ دار بننے کے لئے ہم نے جو روزے کهلوائے ہیں ان سے ہم  کیا قیمتی چیزیں گم کر بیٹهتے ہیں؟

روزہ تو کهجور کا معمولی سا پہلا ٹکڑا منہ میں رکهتے ہی کهل جاتا ہے۔ ثواب کے حقدار تو ہم اسی وقت ہوگئے۔ مگر باقی دستر خوان پر جو بهی کهانے رکهے گئے اور ان کی تیاری میں جو وقت لگایا گیا، جو مشقت اٹهائی گئی، نمازوں کی، دوسرے ذکر اذکار کی اگر قربانی دی گئی تو وہ کس کهاتے میں لکهی جائے گی؟

سادہ مختصر سا کهانا، باعث ثواب ہے، اس دستر خوان کی نسبت جس پہ اسراف ہو، فرائض سے غفلت ہو جائے، نام ونمود کی خواہش ہو، دستر خوان پہ کهانوں کی کثرت کا مقابلہ ہو، صرف پیٹ بهرے لوگوں کی دعوت ہو، غریبوں کا خیال نہ ہو۔۔۔

روزے اور روزے دار کے ہر عمل کا مقصد متقی بننا ہے۔

روزے کا اصل مقصد (تقوی کا حصول ) اس وقت بهی پورا نہیں ہوتا جب افطاری کے وقت سارا دن بهوکا پیاسا رہنے کی”سزا” پیٹ کو حد سے زیادہ کھانے کی صورت میں بهگتنی پڑتی ہے۔ روحانی احساسات کی کوئی ایک جهلک بهی افطاری کے بعد روح کو میسر نہیں ہوتی۔ اس کیفیت میں کلام الله روح کو کیسے شاداب کرے گا؟ نڈهال جسم، غنودگی کی حالت میں، کس کے رونگٹے کهڑے ہوسکتے ہیں؟ "ولقد يسرنا القرآن لذكر فهل من مدكر” کس کے دل پہ دستک دے گا؟

رمضان المبارک  کی تیاری میں سب سے پہلا احساس جو ہمیں ہوتا ہے اور جس حدیث پہ ہمارا پختہ یقین ہوتا ہے وہ یہ کہ” رمضان المبارک میں مومنوں کا رزق بڑها دیا جاتا ہے”۔ اس حدیث پہ عمل کرنے کے لئے ہم جت جاتے ہیں اور انواع و اقسام کے پکوان کی فہرست ہمارے "ایمان بر طعام” کو تقویت دیتی ہے اور ہم وہ کچھ کهانے کی بهر پور کوشش کرتے ہیں جو سارا سال بهی کهانے کا پروگرام نہ بنایا ہو۔

آخر کیا وجہ ہے کہ رزق کی فراوانی سے ہم "روحانی رزق "کی فراوانی مراد کیوں نہیں لیتے؟ کیا ہی اچها ہو اگر ہم روحانی رزق کو بڑها نے کی فہرستیں تیار کریں اور پیٹ کو روزہ رکهنے کی” سزا” دینے کی  بجائے روح کے رزق کی فراوانی کی طرف توجہ کریں۔ جس کا اہتمام اس ماہ مبارک میں کیا گیا ہے۔۔۔ وہ "الله کا دستر خوان” ہے۔ اس سے روح کی طلب پوری کریں۔ اور سارے سال کی کسر پوری کریں۔۔۔ اس کی صحت بحال رکهنے کو اگلے گیارہ ماہ کا توشہ بهی تیار کریں کہ اس ماہ مبارک میں مومنوں کا رزق  بڑها دیا جاتا ہے اور مؤمن تو قرآن سے پہچانا جاتا ہے۔۔۔ اور اپنے دوست احباب اعزہ و اقرباء کو بهی "الله کے دستر خوان” کے لئے دعوتیں دیں۔۔۔

شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن

رمضان المبارك پیاسی روح کی سیرابی کا مہینہ ہے اور اس کی شادابی لیلة القدر کی تلاش ہے۔ رحمت، مغفرت اور آگ سے رہائی کا پروانہ مل جانا کامیابی کا عنوان ہے۔۔۔

اللهم إنا نسئلک علما نافعا و رزقا واسعا من القرآن الكريم و عملا متقبلا۔ آمین

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s