بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین
مشکوة المصباح کے حصہ کتاب الصوم میں ابوداود، ترمزی، نسائی، ابن ماجہ کے حوالے سے انسب کعبی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”الله تعالیٰ نے مسافر سے آدهی نماز کم کر دی ہےاور اسے روزہ چهوڑنے کی بهی اجازت ہے۔ اسی طرح دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کو بهی روزہ چهوڑنے کی اجازت ہے۔”
اسلام دین فطرت ہے اور الله اپنے بندوں پہ مہربان ہے، سارے احکاماتِ الہی بندوں کی فطرت سے مطابقت رکهتے ہیں۔ ناگزیرحالات میں ان احکامات میں نرمی رکهی گئی ہے اس لئے کہ الله رب العزت بندوں کی استطاعت سے بڑھ کر کو ئی بوجھ نہیں ڈالتا اور وہ اپنے بندوں پہ ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
بیمار، مسافر اور مجبور کے لئے نماز اور روزہ میں آسانی اور رخصت رکهی گئی ہے۔
روزہ کا اصل مقصد تقوی کی نشوونما ہے اور تقوی دراصل الله کے احکامات کی پیروی کرنا ہے۔ کهانے پینے کے مخصوص اوقات کی پابندی کرنا تقوی ہے۔ جب کہا کهاو تو کها لیا جب کہا رک جاؤ تو رک گئے۔۔۔ اب اگر کسی مجبوری کی وجہ سے روزہ رکهنا مشکل ہے تو رخصت سے فائدہ اٹهاو۔۔۔
روزے کا اصل مقصد الله رب العزت کی اطاعت و فرماں برداری کا عملی نمونہ بن کے دکهانا ہے یعنی”تقوی”اختیار کرنا ہے۔ روزے کا مقصد یہ نہیں کہ انسان خود کو تکلیف میں مبتلا کرکے راہبوں کا مرتبہ پانے کی کوشش کرے یا ایسے مذاہب کے سادهووں کی پیروی کرے جن کے ہاں فطری انسانی ضرورتوں کو تج دینا نیکی ہے اور خود کو زیادہ سے زیادہ جسمانی مصیبت میں مبتلا کرنا اعلی درجے کی بزرگانہ شان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔۔۔
اسلام دین فطرت ہے۔ انسان کی فلاح اس کا اصول ہے۔۔۔ اس فلاح کے حصول میں کوئی تنگی نہیں رکهی گئی، احکامات و فرائض میں یسر اور آسانی حالات واقعات، صحت تندرستی، عمر، سفر وحضر کے مطابق عطا کی گئی ہے۔ اس لئے کہ رب العالمین اپنے بندوں پہ مہربان ہے، اس کی رحمت ہر شے پہ چهائی ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہےکہ روزے نہ رکھ سکنے والوں کو سہولت دی گئی ہے۔۔۔ اب اگر کوئی اس سہولت کو اس رحمت الہی کو پس پشت ڈال کر خود کو اذیت میں مبتلا کرتا ہے۔ اوراپنے متعلقین کو بهی پریشانی میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔ تو وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی شفقت، نرمی اور رحمت سے منہ موڑتا ہے۔۔۔ کچھ بیمار بوڑھے لوگ شدید تکلیف اور کمزوی کے باوجود روزہ رکهنے پہ مصر ہوتے ہیں اور دل میں بہت معصومانہ سی خواہش مچل رہی ہوتی ہے کہ اگرموت آنی ہے تو روزے کی حالت میں آئے۔۔۔ ہرمومن کی دلی خواہش یہی ہوگی مگرالله سبحانه وتعالى کی محبت شفقت ہی مطلوب ہےتواس وقت الرحمان الرحیم ذات یہی توعطا کررہی ہے۔ اس مہربانی کو قبول کر لینا ہی اطاعت اور فرماں برداری ہے۔۔۔ موت کی تیاری اس طرح خود کو اذیت دے کرنہیں، بلکہ اطاعت و فرماں برداری کرکے کرنا زیادہ پسندیدہ ہے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ الله تعالی کی طرف سے عطا کردہ سہولت سے فائدہ نہ اٹها نے پہ ناشکر گزاری کا لیبل لگ جائے۔۔۔ کچھ لوگ الله تعالى کی عطا کردہ نرمی سے نا جائز فائدہ اٹها تے ہیں وہ بهی تقوی سے دور ہیں۔ اور جو نرمی، شفقت اور محبت کو قبول نہیں کرتے وہ بهی متقی کا درجہ نہیں پاسکتے۔ عبادت کا مقصد خود کو جان بوجھ کر اذیت میں مبتلا کرنا، اپنی بیماری کو بڑهاوا دے کرموت کی تمنا کرنا نہیں ہے۔۔۔ ایسے طرزعمل کو رحمت للعالمین صل اللہ علیہ و سلم نے پسند نہیں فرمایا۔۔۔ الله تعالى اور اس کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہر قسم کے حالات کے مطابق دی گئی ہدایات پہ عمل کرنا ہی اصل عبادت ہے اور یہی تقوی ہے۔
اللهم إنا نسئلک الهدی واتقی والعفاف والغنى
اللهم إنا نسئلک ایمانا کاملا و یقینا صادقاً حتی نعلم أنه لا یصیبنا إلا ما کتبت لنا و رضا بما قسمت لنا انک علی کل شئی قدیر آمین