حدیث نمبر 35 

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین

کتاب الصوم از مشکوة المصباح میں بیہقی سے عبدالله بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”روزہ اور قرآن بندے کے شفیع ہیں۔ روزہ سفارش کرتا ہے کہ اےرب! میں نے اس کو دن بهر کهانے پینے اور شهوات سے روکے رکها، اس لئے میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔۔۔ اور قرآن کہتا ہے کہ اے رب میں نے اسے رات کونیند سے روکے رکها، اس لئے اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔۔۔ پس دونوں کی شفاعت قبول فرما لی جائے گی۔”

دن اور رات کا یہ حسن عمل خالص رضائے الٰہی کے لئے ہوگا تو یہ عبادتیں خود گواہی بن جائیں گی۔ قیامت کے دن جب کوئی کسی کے کام نہ آئے گا تو اپنی عبادات مومن کو حوصلہ دیں گی، اس کے لئے اطمینان کا باعث ہوں گی۔ اورانہی مومنوں کے لئے نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم بهی سفارش کریں گے کہ ان عبادتوں میں جو کسر رہ گئی جو کوتاہی ہو گئی ہے وہ معاف کر دی جائے۔۔۔

لیکن اپنے پاس کچھ کام تو ایسا ہونا چاہئے جو سفارش کا حقدار بنا سکے۔ سفارش کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی کام میں جو کسر رہ گئی ہے اس سے صرف نظر کرانا، پاس ہونے کے لئے چند نمبروں کی کسر رہ گئی ہے، ممتحن سے گزارش کرنا کہ رعایتی پاس کر دیا جائے۔ ہم مسلمان اقراری مجرم ہیں کہ "عادی مستقل گنہگار ہیں، ڈوبے ہوئے غفلت میں ہیں، جو بهی ہیں، آخری نبی ہیں نا شفیع المذنبین۔۔۔ نیکیوں میں جو کمی کوتاہی رہ گئی ہوگی اس پہ سفارش کا وعدہ ہے”۔۔۔ دنیا میں مگن گناہوں کے انبار لانے والوں کو شیطان نے کیسی بهول بهلیوں میں گم کر رکها ہے۔

سفارش کروا لینا ہماری خواہش پہ ہر گز نہ ہوگا بلکہ الله تعالى کے اذن سے ہوگا۔ مالک یوم الدین کو ہی علم ہے کہ کون سفارش کا مستحق ہے۔ کس کا روزہ کیسا ہے؟ اور کس کا تعلق قرآن پاک سے کیسا ہے اور کون سنت رسول الله کا کتنا پابند ہے۔ جس سے جیسا رشتہ ہوگا وہ ویسا ہی تعلق آخرت میں نبها ئے گا الله تعالى کی اجازت ملنے کے بعد۔۔۔

ہمارا رشتہ الله تعالى اور اس کے رسولﷺ سے کیسا ہے؟ یہ اسی زندگی میں متعین کرنا ہوگا۔ اگر دل کا رشتہ قرآن پاک سے ہوگا تو ہم اپنی زندگی اسی کے مطابق گزاریں گے اور پهر الله تعالى ہر سفارش کرنے والے کو اجازت دیں گے کہ وہ ہمارے حق میں سفارش کرے وہ روزہ ہو، قرآن ہو یا خاتم النبیین۔

ساری امت مسلمہ قرآن حکیم سےتعلق بنانے کے لئے رمضان المبارک  میں خاص طور پہ تیاریاں کرتی ہے۔

دن کو دورہ تفسیر اور رات کو تراویح میں قرآن حکیم سننے کی سعادت حاصل  ہوتی ہے۔۔۔ گویا دن رات الله تعالی کے کلام کے ساتھ بسر ہو رہے ہوتے ہیں۔۔۔ الله رب العزت  کے کلام کے ساتھ دل کا رشتہ کیسا ہے؟ یہ دیکهنے کے لئے ہمیں روزانہ دورہ قرآن اور قیام الیل کے لئے جانے سے پہلے ان آیات پہ غور کرنا چاہئے۔

٭سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل الله کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں، اورجب الله کی آیات أن کے سامنے پڑهی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے (الانفال8؛2)

٭الله کا ذکر سن کران لوگوں کے رونگٹے کهڑے ہو جاتے ہیں، جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ان کے دل نرم ہوکر الله کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں (الزمر39:23))

٭أن کا حال یہ تها جب ان کو رحمان کی آیات سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تهے (مریم19:58)

٭جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پہ اترا ہے تو تم دیکهتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں۔ (المآئدہ5:83)

جب قرآن مجید کے ساتھ ایسا دل کا رشتہ جڑ جائے گا تو اس کی حلاوت کا ذائقہ  بهی محسوس ہوگا۔۔۔ اور اس حلاوت کو جس نے محسوس  نہ کیا اس نے کچھ حاصل نہ کیا۔۔۔

اے الله! قرآن حکیم کو ہمارے دل کی بہار، سینے کا نور، آنکھوں کی ٹهنڈک، قبر کاساتهی اورآخرت میں ہمارا شفیع  بنا دے۔ آمین

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s