حدیث نمبر 33

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین

مشکوة المصباح کے حصہ کتاب الصوم میں متفق علیہ حدیث مبارکہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "جس شخص نے روزے رکهے ایمان اور احتساب کے ساتھ تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دیے جائیں گےجو اس سے پہلے سرزد ہو گئے ہوں گے۔۔۔”

اس فرمان رسول الله کے مطابق گزشتہ گناہ معاف ہوجانے کی دو شرائط ہیں۔۔۔ پہلی شرط ایمان کی، یعنی غیر مسلم اگر سحری سے افطار تک کهانے پینے سے رکا رہے تو وہ روزہ دار نہیں کہلایا جا سکتا۔۔۔ یہ بهی یاد رہے کہ اس فرمان کے مخاطب اس وقت کامل ایمان رکهنے والے لوگ تهے۔ ہم اپنی ایمانی کیفیت کا جائزہ لیں تو کیا مومنوں والا حقیقی ایمان محسوس ہوتا ہے؟ ایمانی کیفیت کا محاسبہ پوری دیانت داری سے کرنا ہوگا اور بغیر رو رعایت کے اپنے قصور تسلیم کرنا ہوں گے۔ مومن اپنے ایمان میں جس قدر خالص ہوگا اپنے افکار اقوال اور افعال پہ اسی قدر کڑی نگاہ رکهتا ہوگا۔۔۔ ایمان میں کمزوری کے مطابق خود کو رخصتیں دی جاتی ہیں۔ اپنے قصروں پہ وضاحتیں اور رعاتیں رکهی جاتی ہیں۔۔۔ حالانکہ اپنے ایمان کے خالص ہونے یا نہ ہونے کا پیمانہ ہمارے ضمیر میں موجود ہے۔۔۔ بل الإنسان علی نفسه بصیرة ولو القی معاذیرہ۔۔۔ کسی کو کیا علم کہ ہماری نیت کیا ہے؟ ہمارے دل میں کیا افکار ہیں؟ ہم نے تنہائیوں میں کیا عمل کیے ہیں؟ یہ ہم خود جانتے ہیں تو ہماری ایمانی کیفیت کا ہمیں ہی اندازہ ہے۔۔۔ بس اسی ایمان کے مطابق ہی قصور معاف کیے جائیں گے۔

ایک بات اور بهی یاد رہنی ضروری ہے کہ گناہوں کی معافی کی خوشخبری سنانے کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ماہ روزہ رکهنے، تراویح کا اہتمام کرنے یا قیام الیل کی مشقت اٹهانے سے ہمیں مستقل معافی کا لایسنس مل رہا ہے کہ اب نئے سال کے لیے ہم آزاد ہوگئے۔ اگلا سال  آئے گا تو پهر سے اسی قسم کی مشقت کرکے اس لائسنس کی تجدید کرا لیں گے۔۔۔ قصور ہوجانے اور ارادتاً نافرمانی کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مومن سے گناہ اور قصور سر زد ہوجاتے ہیں اور وہ ان جانے میں سرزد ہوجانے والے قصوروں پہ بهی ایسے شرمندہ ہوتا ہے جیسے کہ وہ جان بوجھ کے کر بیٹها ہو۔ مؤمن یہ نہیں سوچتا کہ قصور چهوٹا ہے یا بڑا وہ یہ جانتا ہے جس رب کی نافرمانی کی ہے وہ عظیم الشان ہے۔۔۔ یہی وہ احتساب ہے جس کو ایمان کا ہی حصہ بنایا گیا ہے۔ ایمان ہے تو احتساب لازمی ہوگا۔ اور جب کسی بهی انسان کو اپنا احتساب کر لینے کی دانش مل گئی تو پهر اس دانشمندی کا لازمی نتیجہ ایمان لانا ہے۔۔۔ ایمان اور احتساب کے ساتھ رکهے ہوئے روزے ہی معافی کی گارنٹی ہیں۔ اور مومن کو ان دونوں چیزوں کی گارنٹی دینی ہوگی کہ وہ ایمان اور احتساب کو اپنی زندگی سے خارج نہیں کرے گا۔

اپنی عبادات، اپنے اخلاق و معاملات، اپنے وقت، صلاحیتوں پہ ایمان داری سے کڑی نگاہ رکهنا ہی روزہ دار ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ دنیا کی نہیں بلکہ الله تعالى کی نظر میں اگر ہم روزہ دار ہوں گے تو وہ معافی کا وعدہ بهی پورا کرے گا۔۔۔ اور الله سینوں میں چهپے ان رازوں سے بهی واقف ہے جو لوگ  دوسروں سے چهپاتے ہیں۔ ان برے ارادوں سے بهی واقف ہے جو رمضان سے پہلے  کیے اور رمضان کے بعد پورے کرنے ہیں۔

جان بوجھ کر منصوبہ بندی سے گناہ کبیرہ میں مبتلا رہنے والے مسلمان الله رب العزت کے ساتھ مذاق کرتے ہیں تو الله بهی أن کے ساتھ مذاق کرتا ہے اور ان کو اس "ہیرا پهیری” میں مبتلا رکهتا ہے۔ وہ سمجهتے ہیں الله نے ان کی” ڈیل” قبول کر لی ہے، ایمان بهی سلامت ہے، احتساب کے بغیر روزے کے بدلے میں جنت کا ٹکٹ بهی کٹوا لیا ہے۔۔۔ الله تعالی نے فرمایا ویمدهم فی طغیانهم یعمهون۔۔۔  یہ” ڈیل” نہیں ڈهیل ہے۔۔۔

اگر ایمان سلامت رکهنا ہے، ایمان کی نشوونما کرنی ہے، الله سبحانہ و تعالیٰ کی نظر میں محبوب بننا ہے، الله رب العالمین سے محبت کا احساس پیدا کرنا ہے، روزے قبول کروانے ہیں، قصور معاف کرانے ہیں، جنت کا ٹکٹ حاصل کرنا ہے تو ان سب خوشیوں کے حصول کا ایک ہی طریقہ  ہے۔”احتساب اور إصلاح”۔

ربنا ظلمنا أنفسنا وان لم تغفر لنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین۔

آمین

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s