واقعہ تخلیق آدم کے ساتھ ہی قدر و ناقدری کا احساس وجود میں آ گیا۔شیطان کی سب سے پہلی بغاوت اسی وجہ سے تھی کہ اس کے خیال میں برسوں کی عبادت اور ریاضت کی قدر نہ کی گئی اور خلعت خلافت انسان کو پہنا دی گئی اور اسی نا قدری کا احساس لئے شیطان قیامت تک تلملاتا رہے گااور شیطان ہر انسان کو قدر، وقار، انا کے غبارے سے بہلاتا رہے گا، پھسلاتار ہے گا۔شیطان نے آدم خاکی کو بھی جنت میں ہمیشگی کی قدر و منزلت کا سبز باغ دکھا کر شجرہ ممنوعہ کو چکھا دیا اور معصوم و بھولا آدم اسی پہلی خطا پہ شرمندہ و نادم ہو کر تائب ہوا۔ مگر قدر اور ناقدری کے گورکھ دھندے سے آزاد نہ ہوا۔یہی احساس پوری دنیائے انسانیت کے دل کو بے قرار کئے ہوئے ہے۔اپنی قدر و منزلت کا احساس دوسرے سے ہر لمحہ شاکی رکھتا ہے ۔ اس میں انسان کی عمر، جنس، مرتبہ اور مقام کی کوئی قیدنہیں۔ ہر کوئی اسی دنیا میں اپنی محنت، محبت، خلوص کو کیش کروانا چاہتا ہے۔
دنیا کا سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی کا ہے یہ سب چھوٹے چھوٹے آدم و حوا ایک دوسرے سے شاکی ہیں۔ ہر شوہر روزانہ اپنی ناقدری پہ کڑھتا ہے۔دن بھر کی مشقت، سردی، گرمی سے بے نیاز خون پسینہ ایک کر کے کمائی کرنے والا مرد اپنی قدر کروانا چاہتا ہے۔ویسی ہی جیسا کہ اس کا حق ہے اور اس کو اپنا حق کہاں مل سکتا ہے؟جبکہ اس کی شریک حیات، نصف بہتر تو زیادہ بے قدری کا گلہ کرتی ہے۔ وہ ہر دم سوچتی ہے کہ دن بھر بچوں کو پالتی پوستی ہے۔اپنی ذات کی نفی کر کے سب کے نخرے سہتی ہے۔ رات کی نیند ،دن کا چین حرام کرتی ہے۔مگر اس مرد کے معاشرے میں اس کے ایثار و قربانی کا کوئی قدر دان نہیں ہے۔بھری دنیا میں کوئی اس کے جذبات و احساسات کو سمجھنے والا نہیں۔سب کو لینا آتا ہے، دینا نہیں اور یہی آدم و حوا اپنی اولاد سے شکوہ کناں ہے کہ وہ ماں باپ کی قدر نہیں کرتے اور اولاد اپنے ماں باپ سے شاکی ہے۔ اس دائرے سے ذرا آگے بڑھیئے تو ہر پڑوسی اپنے پڑوسی کا گلہ کرتا ہے، محبتوں کی قدر نہیں۔اپنے اپنے فرض کو احساس جان کر بے قدری کا احساس دو چند ہوتا جاتا ہے۔ساس بہو سے، بہو ساس سے، نند بھابھی سے اور بھابھی نند سے ناقدری کا رونا روتی ہے۔ادارے ورکرز سے اور ورکرز اپنے اداروں سے نالاں۔ ہر جگہ نوکر مالک سے اور مالک نوکر سے ناخوش و بے زار، ہر رشتہ دوسرے رشتہ سے مفرور، اگر ہم نباتات و جمادات کی زبان جان سکتے ہوتے تو معلوم ہو تاکہ وہ انسان سے کس قدر نالاں ہیں۔ قدرتی حسن کی ناقدری کرنے پر رزق کی قدر نہ کرنے کا احساس اس بھوکے پیٹ سے پوچھئے جو کوڑے کے ڈھیر سے زندگی کا رشتہ برقرار رکھنے پر مجبور ہے اور وہ رزق جو ٹنوںکے حساب سے ضائع ہوتا ہے وہ خود کس قدر شکوہ کناں ہو گا۔ غرض عرش سے فرش تک ناقدری کا عذاب ہے، جس کی لپیٹ میں ہر ذی روح آیا ہواہے۔ کہیں محبتوں کی قدر نہیں، کہیں محنتوں کا صلہ نہیں، ایک ہی سوچ ایک ہی رخ اور ایک ہی آواز سب انسانوں کے اندر سے پھوٹ رہی ہے اپنا احسان،اپنی محنت، اپنا کیا ہوا کام بہت بہتر اور خوب لگتا ہے۔دوسروں کے ہر کام میں جھول ہے۔ ہر شخص خود کو درست اور خوب گردانتا ہے اور بس انا اور احساس قدردانی کا یہ غبارہ پھولتا جاتا ہے۔انسان اس قدر ناشکرا کیوں ہے؟ صرف لینا کیوں یاد رکھتا ہے۔ہر صاحب مقام اور صاحب مرتبہ انسان اپنے مقام اور اپنے مرتبے کا خراج وصول کرنے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔کیا دنیا میں کبھی کسی نے کسی کی قدر کی ہے؟ ہر انسان دوسرے کی قدر کرنا نہیں جانتا، اسی لئے اس کو خود بھی اس سے محروم ہونا پڑتا ہے۔دنیا اسی احساس ناقدری کے عذاب میں گھری ہوئی ہے۔نہ دلوں میں سکون ہے نہ جسموں کو آرام، نہ ذہنوں میں اطمینان ہے ۔نہ روح کو قرار، آنکھوں میں ٹھنڈک ہے، نہ دل میں حلاوت، ظلمتوں کی ایک سیاہ رات ہے۔کھلے سمندر میں بغیر بادبان کے کشتی ہے۔زندگی ایک لاینحل مسئلہ بن گئی ہے۔شجر و حجر بھی حیران کھڑے ہیں۔تارے بھی آنکھیں جھپکا جھپکا کر دنیا والوں کو دیکھتے ہیں کہ ان کو کیا ہو گیا ہے۔’’میری قدر نہیں‘‘،’’میری قدر‘‘۔ایک شور مچا ہوا ہے۔حکومت عوام سے نالاں۔عوام حکومت سے بے زار، دوست دوست نہیں رہا۔میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس نہ رہے۔والدین و اولاد باہم استحصالی ادارہ بن گئے۔ہر فرض، احساس بن گیا اور ہر احسان کا بدلہ گویا قرض و مقروض کا معاملہ ہے۔عزت و شرف قدر و منزلت کے معنی بدل گئے، تقاضے بدل گئے، دلوں کو چھو لینے والے اس جذبے کو بھی ناقدری کا گلہ ہے۔انسان نے تو اپنی قدر آپ نہ کی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا اعزاز بخشا مگرانسان نے خود کو اسفل سافلین میں گرا دیا۔
انسان دوسرے انسان کی قدر کیسے پہچانے؟ وہ اپنی آپ قدر کیسے کروائے؟ اے نادان انسان! تو نے تو اس عظیم ہستی کی قدر نہ کی جو مہربانیوں میں بے کنار ہے۔جس کے فضل کا بادل جس کی رحمت نے ہر شے کو ڈھانپ رکھا ہے۔وہ تیری قدر دان ہے۔ذرے کو ماہتاب اور ترے آنسو کو موتی گردانتی ہے۔وہ شاکر اور علیم ہے۔تو نے اس رب کریم کی طرف سے عطا کردہ قدر و منزلت کے ایوارڈ کو بھلا دیا اور اس ذات کریم کی قدر نہ کی۔جس نے اپنے خالق و مالک کی قدر نہ کی اور اس کے دربار میں قدر و منزلت حاصل کرنے کی کوشش و نیت نہ رکھی، اس کو عزت، قدر و منزلت کہاں سے ملے گی؟ و ہ اپنے جیسے انسان کی کیا قدر کرے گا۔جس نے رب العلمین کی قدر نہ کی اور جس نے اپنے خالق و مالک کی قدر نہ پہچانی اس کی کون قدر کرے گا؟؟ اے ظالم انسان! اس آفاقی آواز کو دل کے کانوں سے سن کر شاید دلوں کے قفل کھل جائیں۔
’’ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کو پہچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت بخشنے والا تو اللہ ہی ہے۔‘‘ ﴿الحج۔74﴾
’’ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔اس کی قدرت کاملہ کا تو یہ حال ہے کہ قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوں گے۔‘‘﴿الزمر۔67﴾