الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
بخاری شریف کے باب الطب میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنه سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے کہ
"الله تعالی نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا جس کی شفا نہ اتاری ہو۔”
اسی طرح کا ارشاد سیدنا جابر (رض)سے مروی ہے کہ” ہر مرض کی دوا ہے”
بےشک جب درست طریقے سے علاج کیا جاتا ہے تو الله کے حکم سے مریض شفا پاتا ہے۔ ایک اور صحیح حدیث ترمزی کے باب الطب میں ملتی ہے کہ ” الله تعالیٰ نے سوائے ایک مرض کے سب بیماریوں کی شفا یا دوا پیدا کی ہے۔ صحابہ (رض) نے پوچھا وہ کون سا مرض ہے؟ آپ نے فرمایا الھرم یعنی بڑھاپا۔”
الله رب العزت نے انسان کے لیےصحت مند زندگی گزارنے کےسارے وسائل پیدا کیے ہیں۔ دھوپ چھا ؤں، خوشی غمی، کی طرح صحت بیماری بھی انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ الله تعالی نے آسمان سے دو علم (طب اور وحی) انسانوں کی جسمانی اور روحانی صحت تندرستی کے لئے اتارے. جسم بیمار ہوتا ہے اور روح بھی. دونوں کو متوازن غذا اور علاج درکار ہوتا ہے۔دونوں کے معالج ہوتے ہیں۔ رسول الله کا ارشاد سنن ابو داؤد میں ہے کہ” جہالت بھی ایک بیماری ہےاور علماء سے دریافت کرنا اس کی دوا اور علاج ہے”
الله تعالی کا ارشادہے کہ "اگر تم نہیں علم رکھتے تو ان دانش مندوں سے دریافت کرو جو تمہیں نصیحت کر سکیں۔”
جسم ہو یا روح ایک صاحب علم و دانش سے علاج کا تقاضا کرتی ہے، کوئی ایسا ماہر معالج جو اپنے ہنر میں مستند اور صاحب بصیرت ہو۔ موجودہ دور اسپیشلایزیشن کا دور ہے۔ نیم حکیم سے جان کا خطرہ ہے تو نیم عالم سے ایمان کا خطرہ ہے. آج کے دور میں علاج کے نت نئے طریقے اور تجربے ہر فرد تک پہنچتے رہتے ہیں۔ الله کے رسول اللہ ﷺ نے علاج کے ہر طریقے اور ہر کسی کے نسخہ کو آزمانے سے منع فرمایا ہے۔مسند أحمد میں اسامہ بن شریک سے مروی ہے کہ"الله تعالی نے ہر بیماری کا علاج اتارا ہے۔ جاننے والا ہی اسے جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ نہیں جانتا”
یعنی ہر کوئی یہ علم نہیں رکھتا۔ علاج کے بے شمار طریقے ہیں ہر کسی پہ ہر نسخہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔ معالج ہزاروں ہیں جسمانی علاج کوئی بھی کرسکتا ہے۔ کسی بھی ماہر طبیب سے کرایا جا سکتا ہے مذہب فرقہ علاقہ وغیرہ کی کوئی قید نہیں۔مومن اپنے الله سے مشورہ کرنے کے بعد کسی بھی طریقہ علاج کو منتخب کرتا ہے تو پھر معالج کی ہدایات کا پابند رہنا بھی ضروری ہے ہر بیماری سے شفاء ملنا اللہ تعالی کے اذن سے ہی ممکن ہے۔
بڑھاپا ایسی بیماری ہے جس کو روکنا انسان کے بس میں نہیں جب یہ لاحق ہوجائے تو صحت یعنی (جوانی)لوٹانا ممکن نہیں۔ بڑھاپےجیسی بیماری میں مبتلا ہو جانے والے کچھ لوگ ایسے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ وہ بڑی عمر میں بھی جوان، صحت مند ہشاش بشاش رہتے ہیں ۔ اس سدا بہار رہنے کی وجہ یہ ہے کہ جوانی میں انہوں نے خوراک کا خیال رکھا جس سے بڑھاپے سے بچا جا سکتا ہے۔ وہ سدا بہار چیز ہے انسان کی روح ، اس کی غذا کا خیال رکھنے والے بر وقت علاج کرنے اور معالج نے جن باتوں سے پرہیز کا بتایا اس کی سختی سے پابندی کرنے والے ہی جوان رہ سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے عقلمند لوگوں کا جسم تو لازما بوڑھا ہو جاتا ہے مگر روح جوان سے جوان تر ہوتی جاتی ہے۔ انسان کی اصل تو اس کی روح ہے یہ جسم تو اس روح کا لباس ہے جس نے پرانا ہونا ہی ہے۔ روح کی صحت تندرستی اور جوانی قائم رکھنے کا نسخہ قرآن پاک ہے۔ "ہم قرآن کے ذریعے وہ نازل کرتے ہیں جس میں مومنین کے لئے شفا اور رحمت ہے۔” (بنی اسرائیل 82″17)
جسمانی طور پہ جوان رہنے کے جتنے بھی کوئی جتن کرلے،بڑھاپے سے فرار ممکن نہیں۔ جوان رہنے کی تمنا تو جنت میں پوری ہوگی لیکن اس تمنا کو پورا کرنے کے لیے روح کو جوان صحتمند لے کے جانا ہوگا۔ روح جوان ہوگی تو اس روح پہ جوانی کا نیا لباس پہنا دیا جائے گا۔اس کو جوان رکھنے کے لئے اس کے ماہر معالج سے رابطے میں رہنا ہوگا اور اسکا معالج خاص اللہ تعالی اس کا رسول ہے اور اللہ ” وحدہ لا شریک” ہےتو رسول "خاتم النبیین” ہے۔
رضینا باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد رسولا نبیا ۔
اے اللہ !ہم ہر بری بیماری سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں وہ جسمانی ہو یا روحانی۔ ہمیں مکمل صحت و عافیت کے ساتھ کامل ایمان عطا فرمادیں ۔آمین۔
اللھم إنا نعوذبک من سیئ الاسقام سوء الکبر و ارذل العمر اللھم إنا نسئلک ایمانا کاملا و یقینا صادقاً حتی نعلم أنه لا یصیبنا إلا ما کتبت لنا و رضا بما قسمت لنا انک علی کل شئی قدیر آمین