بسم اللہ الرحمن الرحیم
جنید جمشید ایک استعارہ تها زندگی میں بهی اور اپنی موت کے متعلق بهی، جس دور میں رہا جس مقام پہ رہا لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا، شکل و صورت، آواز و انداز منفرد لے کر پیدا ہونے والا جب دین سے دور جنگلوں کی پگ ڈنڈیوں پہ بنجارہ بنا پهرتا تها تو کوئی نہیں جانتا تها کہ یہ توبة النصوح کی عمدہ مثال بن جائے گا۔ پهر واقعی وہاں سے نکل کر دین کی شاہراہ پہ آیا تو” دل بدل دے ” کی التجائیں آسمانوں سے قبولیت کی سند لے کر لوٹیں۔ دل بدلا تو ایسا کہ زندگی کا ہر پہلو بدل گیا۔ سچی بات ہے دل ہی تو بدلنے پہ راستے کا حتمی تعین ہوتا ہے۔ اور الله نے سینے میں دو دل نہیں بنائے یہ ایک ہی دل ہے اور راستہ بهی ایک ہی ہے۔۔۔ اب دل کہاں لگانا ہے بندے کی مرضی ہے۔ جنید نے توبہ کی تو اس کا حق ادا کر دیا حرام سے منہ موڑا تو پیچھے مڑ کے نہ دیکھا، الله رب العزت نے اپنے اس بندے کو اپنے لیے پسند کر لیا۔
جسے الله انبیاء کے مشن کے لیے پسند کر لے اس کی تربیت کے لیے مشکل گهاٹیاں بهی تیار کی جاتی ہیں۔ معاشی مشکلات، حرام کی کثرت چھوڑ کر حلال کی قلت پہ گزارا کرنا اور توکل کا دامن تهامے رکھنا جہاد ہے۔ جنید کے ذریعے دنیا کو عملی ثبوت ملا کہ "من یتوکل علی الله فهو حسبه ” اپنے ارد گرد رہنے والوں کی زبانوں، رویوں، نا قدریوں، کا سامنا کرتے ہوئے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ پیروی رسول کی قابل تقلید مثال ہے۔ اور اس کا بهی عملی ثبوت دنیا کو الله نے دکھایا کہ تعز من تشاء و تذل من تشاء عزت اور ذلت اسی مالک الملک کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ الله کی خاطر جنید سے محبت کرنے والے، اس کی عزت کرنے والے، الله کا قرب پانے کے متلاشی دنیا کے ہر کونے میں جنید کے لیے آنکھوں سے موتی نچھاور کر رہے ہیں۔ دل کی گہرائیوں سے اس کی بلندی درجات کے لیے دعا گو ہیں۔۔۔ اہم یہ نہیں ہوتا کہ کسی کے مرنے پہ کتنے لوگ سوگوار ہیں اہم یہ ہوتا ہے کہ کس قسم کے لوگ سوگوار ہیں..الله کے دیوانے یا دنیا کے دیوانے؟ جنید خوش قسمت ہے کہ اس نے اپنا دل بدلا تو بر وقت اس کے دیوانے بهی بدل گئے۔۔۔
نعت گو کی حیثیت سے مجهے جنید شهید حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ساتھی لگتا ہے۔۔۔ جی ہاں وہی حسان شاعر رسول اور نعت گو جن سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنها کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے چوک ہوگئی تهی۔ اور سیدہ عائشہ نے ان کو معاف فرما دیا تها۔۔۔ میں چشم تصور میں دیکھتی ہوں کہ جنید جمشید نے حسان بن ثابت سے کہا ہوگا ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنها کے حضور مجهے لے چلو کہ میں بهی ان سے معافی مانگ لوں۔ میری چشم تصور یہ بهی دیکھتی ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ محبت سے جنید کو دیکھتی ہیں جیسے ماں اپنے اس بچے کو دیکھتی ہے جو ان جانے میں کوئی بهول کر بیٹھے اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر رو رو کر معافیاں مانگ رہا ہو۔ اور ماں اپنے بیٹےکی محبت میں بے قرار ہو۔۔۔ اور کہے جاتی ہو کہ الله توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔۔۔
الله تو رحمت واسعہ کا مالک ہے مگر یہ دنیا کے ظالم سنگ دل لوگ فرعون بن جاتے ہیں۔۔۔ جنید کی جب سرعام ہتک کی گئی تو ہر صاحبِ دل مسلمان کی طرح میرا دل بہت رویا۔ مجهے اندر سے خوف آنے لگا کہیں جنید مایوس اور بد دل ہوکر واپس نہ پلٹ جائے۔ اس کی استقلال اور ثابت قدمی کی بہت دعا کی۔ اور فرشتے بهی توایمان والون کی آزمائش کے وقت ان کی استقامت کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔۔۔ اس وقت جنید کے تحمل درگزر کی جو شان تهی وہ بهی قابل تقلید ہے۔ کوئی بعید نہیں جنید کی وہ معافیاں مانگنے کا عمل وہ عاجزی اور اعلئ ظرفی الله کو بها گئی ہو اور لوگوں کی ناروا باتوں پہ اس بندے کی اعلیٰ ظرفی قبول کر لی ہو اور اس رب العالمين نے اس کے سارے گناہ معاف کرکے شہادت کا عظیم رتبہ اس کے لیے مقدر کر دیا ہو۔
نادان کم فہم اور عاقبت نا اندیش لوگ اپنی زبانیں تکلیف دہ باتوں سے آلودہ کر رہے ہیں ان کو الله سے ڈرنا چاہئے۔ اسرائیلی آثار میں ایک روایت ہے کہ کسی شہر میں ایک ہی دن دو آدمیوں کی موت ہوئی۔ ساری زندگی دونوں کی دو انتہاؤں پہ رہی۔ ایک شخص ایسا گنہگار کہ الله اور بندوں کی ساری حق تلفیاں اس نے کیں۔۔۔ اس بندے کی زندگی قابل رشک اور موت ایسی شاندار تهی کہ اس کی ہر ناممکن آخری خواہش الله نے پوری کی۔ ساری اولاد اس کے اردگرد خدمت میں پیش پیش تهی۔ آرام و سکون سے وہ دنیا چھوڑ گیا۔ دوسری طرف وہ الله کا فرماں بردار کہ اپنی زندگی الله کی رضا میں کهپا دی۔۔۔ زندگی کے عیش وآرام تج دئے مرتے وقت تنہا کوئی پانی پلانے والا نہ تها پاس پڑا پانی کا پیالہ اس نے ہاتھ بڑھا کر پینا چاہا تو الله تعالیٰ نے فرشتے کو حکم دیا کہ اس پانی کو گرا دو۔۔۔ پیاس کی حالت اور تنہائی میں الله کے فرماں بردار بندے نے جان دی۔۔۔
شہر میں لوگوں نے تبصرے کیے کہ برا آدمی تها مگر بادشاہوں کی طرح جیا۔۔۔ لگتا تها اس کی موت بہت بری ہوگی مگر اس کی موت کتنی شاندار تهی۔۔۔ اور وہ الله والا زندگی مشکل تهی تو موت بهی آسان نہ تهی۔۔۔ عجب چہ می گوئیاں تهی جو منہ در منہ گردش کرتی تهیں۔۔۔
موت کے فرشتوں نے الله رب العزت سے پوچھا کہ اس میں کیا حکمت تهی؟
الله تعالیٰ نے فرمایا
برے آدمی نے ساری زندگی میں ایک بهلا کام کیا تها۔ میں اس بندے سے ناراض تها وہ کام میں نے قبول نہیں کیا۔ اور میں کسی پہ ظلم نہیں کرتا اس ایک نیکی کا صلہ اسے اچھی زندگی اور آسان موت سے ادا ہوگیا۔ میں نے پسند نہیں کیا کہ وہ میرے پاس آکر اس نیکی کا صلہ طلب کرے۔ اسے دنیا میں ہی اس کا بدلہ مل گیا ہے۔
اور وہ بندہ جو میرا فرماں بردار رہا اس سے ایک گناہ ہو گیا تها۔۔۔ مگر میں اس سے خوش تها اور نہیں چاہتا تها کہ وہ میرے سامنے آکر اس ایک گناہ کی وجہ سے شرمندہ ہو تو میں نے اس کو دنیا میں عارضی تکلیف دے کر دائمی عذاب سے بچا لیا ہے۔۔۔ درحقیقت دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی حکمت اور مشیت الہی انسان نہیں جان سکتا ہے۔
الله تعالى نے زندگی اور موت کے اسباب کی حکمتیں پوشیدہ رکھی ہیں۔ ہمیں دوسروں کے بارے میں فیصلے کرنے سے زیادہ اپنے ایمان اور اپنی موت کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
الله تعالٰی نے جس کو جس طریقے سے اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کیا وہ حاضر ہوگیا۔ الله تعالیٰ نے شهادت کی جو نوعیتیں مقرر کی ہیں ان سے کوئی انکار نہیں کرسکتا الله سب کی مغفرت فرمائے۔ اور ہم سب کو اپنی موت کی فکر کرنے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے تیاری کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
تحریر :ڈاکٹر بشری تسنیم