وہ ایک لمحہ

رات کے وقت قبرستان نہایت بھیانک منظر پیش کر رہا تھا۔ چند آدمی لیمپ ہاتھ میں لیے کھڑے تھے۔ لیمپوں کی روشنی میں لوگوں کے سائے بڑے پراسرار نظر آ رہے تھے۔ رات کے اس سناٹے میں کبھی کبھار دُور کسی کتے کے بھونکنے کی آواز فضا میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھی۔
قبر کھودی جا رہی تھی۔ سناٹے میں پھاؤڑے کی ضرب ماحول کو افسردگی کے ساتھ بہت بھیانک بھی بنا رہی تھی۔ سب لوگ خاموشی سے اس کارروائی کو تک رہے تھے۔ قرآنی آیات و کلمہ طیبہ کی آواز کسی وقت بلند ہو جاتی ۔ ورنہ سرگوشیوں کی طرح موجود رہتی۔
وہ قبرستان میں نہ جانے کتنی مدت بعد آیا تھا۔ اس کا دل کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح اڑ رہا تھا……….قبر تیار ہو گئی تو ایک مزدور نے اس میں لیٹ کر دیکھا۔ اس لمحے ان جانا خوف اس کے رگ و پے میں سرایت کرتا چلا گیا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے………… بدن میں لرزش پیدا ہونے لگی۔
یہ قبر اس کے بچپن کے دوست اس کے عزیز ترین ساتھی کے لیے تیار کی گئی تھی۔ سیف الرحمن اس کا ہم جماعت اس کا بھائی اس کا دوست تھا۔ دونوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔ تعلیمی میدان میں جب تک دونوں ساتھ رہے۔ان کے خیالات میں ہم آہنگی رہی، لیکن عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی دونوں کے خیالات میں خلیج حائل ہونے لگی۔ سیف الرحمن نے اپنے والد کا کاروبار سنبھال لیا اور حلال رزق کی جدوجہد میں لگ گیا، جبکہ ……….وہ خود سرکاری عہدے پر فائز ہوا اور اپنے بچپن ،لڑکپن کے ماحول سے دور ہوتا چلا گیا۔ مغربی افکار نے اس کی بصیرت کو زائل کرنا شروع کیا۔ ’’ھَلْ مِنْ مَّزِیْد’‘ ‘‘ کی خواہش اور معیار زندگی کو دوسروں سے ممتاز کرنے کی خاطر انداز فکر بھی بدل گیا۔ زندگی کی خوبصورتی ایک نئے روپ میں سامنے آنے لگی۔ وہ تمام روشن روشن ارادے لہو و لعب کی بھول بھلیوں میں کھو گئے۔
مگر سیف الرحمن ان بھول بھلیوں میں بھٹکتے دوست کو دیکھ کر اپنے فکر و عمل کے چراغ روشن کرتا رہتا۔ وہ یہ سوچ کر اک نئے عزم سے اٹھ کھڑا ہوتا کہ نام نہاد مہذب سوسائٹی نے کیسے کیسے چراغ گل کر دیئے ہیں۔ ان بجھتے دئیوں کو روشن کرنا سیف الرحمن نے اپنا مقصد زندگی بنا لیا تھا۔ اسی سیف کی قبر پر وہ چپ چاپ کھڑا تھا۔ سوچیں اس کے اندر کا طوفان اٹھا رہی تھیں۔
قبر تیار ہو گئی تو اس کے دیرینہ دوست کو اس کی آغوش میں لٹانے کا مرحلہ آ گیا۔ وہ آج بالکل خاموش تھا۔ اس کا جامد و ساکت وجود پھر بھی بہت کچھ کہہ رہا تھا۔ اس نے اپنے دل کے اندر دکھ اور رنج کی لہریں محسوس کیں۔ اپنے مہربان دوست کی پیاری باتیں یاد آتی گئیں۔ برائی سے بچانے اور پستی سے دور رکھنے کیلئے اس نے بھرپور ہر ممکن کوشش کی۔ کبھی پیار سے، غصہ سے، التجا سے ،ناراض ہونے کی دھمکی دیکر اور آج وہ سچ مچ ناراض ہو گیا تھا۔ قبر میں لٹانے سے پہلے اس نے اپنے دوست کا آخری دیدار کیا۔ پر سکون، خاموش جیسے سب بے قراریوں کو قرار آ گیا ہو۔ سیف کے خاموش رہنے اور ساکت وجود میں سے ان جانی روشنی غیر محسوس طریقہ پر ماحول پر اثر انداز ہو رہی تھی نہ جانے یہ حقیقت تھی یا اس کی اپنی سوچ اور اپنا احساس تھا۔ یہ احساس بڑھتا گیا اور پھر اس کے دل میں یہ روشنی اجالا کرنے لگی۔ اس نے تسلیم کیا کہ محبت اور خلوص میں بہت طاقت ہے۔ اس کا دائرہ تو ابد تک ہے۔ یہ سچی محبت اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہے۔
’’سیف ! تم نے مجھ سے سچی محبت کی تم میرے ہمیشہ خیر خواہ رہے۔‘‘ یہ تسلیم کرتے ہوئے اس نے اپنے پیارے دوست کا چہرہ ڈھانپ دیا۔ سیف الرحمن کی تڑپ، لگن، جوش، خلوص اور محبت یاد آنے لگی اور ساتھ ہی اپنی بے اعتنائی کا احساس اس کو شرمندہ کرنے لگا۔ وہ ضمیر و ایمان کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ وہ اپنا آپ، منصف تھا وہ اپنے اعمال کا، اپنے افکار کا ، اپنے عہدے کا ………. اور اپنی ذمہ داریوں کا خود جواب دِہ تھا۔
’’سیفی! اب تم منوں مٹی اوڑھ کر سو جاؤ گے۔‘‘ اس نے قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے سوچا۔’’اب مری راہوں میں کون چراغ لے کر کھڑا ہو گا۔‘‘ آنسو اس کی آنکھوں سے بے اختیار بہنے لگے۔
’’دوستی، محبت اور خلوص کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ یہ رشتہ تو مر کر اور بھی مستحکم ہو جاتا ہے۔ تم دیکھنا مری زندگی سے زیادہ مری موت تمہیں میرے خلوص کا یقین دلائے گی۔ یہ الفاظ کتنے وثوق سے سیف الرحمن نے اس کو کہے تھے۔
’’سیفی! تم سچ کہتے تھے۔ تم نے ہمیشہ میرے لیے فکر و عمل کا چراغ روشن کیا۔ تمہاری زندگی کا چراغ گل ہو گیا۔ مگر میرے دوست میرے ضمیر میں یہ شمع روشن رہے گی۔
سیف الرحمن کو زمین کی آغوش کے سپرد کر دیا گیا۔ وہ دل ہی دل میں اس کے لئے بلندی درجات کی دعا کرتا رہا۔ اور پھر کچھ دیر وہاں ٹھہر کر سب کے ساتھ واپس ہو لیا۔
انسان میں کیسے کیسے انقلابات آتے ہیں۔ کوئی لمحہ اس کو منزل سے دور کر دیتا ہے اور کوئی لمحہ اس کو منزل کے قریب کر دیتا ہے۔
’’منزل؟ اس کے سوئے ہوئے ذہن سے ایک سوال اٹھا۔‘‘ ’’منزل ہے کہاں تیری؟‘‘ …………. پھر برسوں سے خوابیدہ ایمان نے منزلوں کی نشان دہی کی۔ اس منزل کی نشاندہی! جس کے راستے میں آنے والے پتھر اس نے خود ہٹانے تھے۔ بد عہدی، رشوت، ملاوٹ، سود، جھوٹ، خیانت یہ سب راستے کے پتھر کچھ کم تو نہ تھے۔ بہر حال وہ ایک مضبوط لمحہ کی گرفت میں آ چکا تھا۔

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s