ہر گھر میں ہر فرد اپنی ضروریات کے مطابق شاپنگ لسٹ بناتا ہے۔ بازار، دکانیں، شاپنگ مال، ہر مقام پہ لوگ اپنی اپنی پسند، معیار اور وسائل کے مطابق شاپنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ جن کے پاس وسائل کم ہیں وہ ’’ونڈو شاپنگ‘‘ سے دل بہلاتے اور آہیں بھرتے نظر آتے ہیں۔ آنکھوں میں حسرت اور دلوں میں رنج اور اداسی کے ڈیرے ہیں۔
بیرون ملک جا کر اپنے وطن میں گھر بنانے کا منصوبہ ہر پردیسی کا خواب ہوتا ہے۔ پلاٹ لے لیا ہے۔ اب نقشہ بن گیا ہے، تعمیر شروع ہے۔ تعمیری سامان کی فراہمی کے لیے شاپنگ ہے۔ ساری زندگی کا محور وہ گھر ہے جو دیس میں بن رہا ہے۔ پردیس میں خانہ بدوشی کی زندگی ہے۔ دیس میں آرام سے سکون سے رہنے کے لیے دن رات صبح و شام منصوبہ بندی ہے۔
گھر بن گیا۔ اب اس کی تزئین و آرائش کی شاپنگ ہے۔ اس گھر کے شایان شان سازوسامان کی خریداری ہے۔
ہم آج کے دور کو شاپنگ کلچر کا دور کہہ سکتے ہیں۔ زیور، کپڑے، پھر لباس کے لوازمات، میچنگ اشیاء، ایک چیز کے ساتھ ایک اور بڑھتی جاتی ہے۔ کبھی شاپنگ کا بھوت خواتین کے سر پر سوار ہوتا تھا۔۔۔ اب ہر فرد، ہر عمر میں اس دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ اب ہر روز ایسی گہماگہمی نظر آتی ہے جو کبھی تہواروں پہ نظر آتی تھی۔ ہر انسان مہنگائی کا رونا روتا ہے مگر خریداری کا رحجان کم نہیں ہوتا نظر آتا۔
انتظار کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے جیسے عدم برداشت کا رویہ بڑھ رہا ہے۔ خواہشوں کے پورا ہونے میں دیر نہ ہو ۔۔۔محنت کے بغیر مل جائے۔ بس دولت ہو اور پھر من کی خواہش پوری ہو جائے۔۔۔ شاپنگ کے لیے نکلنا ایک طرح سے اب نشہ بنتا جا رہا ہے۔ مسائل کے حل کے لیے اک نیا مسئلہ وبالِ جان بنا ہوا ہے۔ بازار تو بجائے خود بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ بازار میں خریدوفروخت ہو رہی ہے، ساتھ بہت کچھ ’’مزید‘‘ بھی لیا دیا جا رہا ہے۔ حقیقیت یہ ہے کہ انسان واقعی ہر لمحہ کچھ نہ کچھ شاپنگ کرتا رہتا ہے۔ سودا چکایا جا رہا ہے کچھ دے کر کچھ خریدا جا رہا ہے۔
دنیا دے کر دنیا ہی خریدی جا رہی ہے۔۔۔ دولت خرچ کر کے کسی اور قسم کی دولت ہی حاصل کی جا رہی ہے۔ ہر کسی کا کوئی نہ کوئی خواب ہے جس کو پورا کرنے کے لیے دولت کمائی جا رہی ہے اور خرچ کی جا رہی ہے۔ انسان اپنے ہی جیسے انسان کے ساتھ خرید و فروخت کر رہا ہے۔
کیا یہ نفع کا سودا ہے کہ فانی چیز کے بدلے فانی چیز ہی حاصل کی جائے؟ شاپنگ کا مزہ تو یہ ہے کہ کم تر چیز قربان کر کے بہتر چیز حاصل کی جائے۔
کیا کوئی ایسا بازار، شاپنگ مال ہے جہاں انسان کسی بڑی بہت اعلیٰ ہستی کے ساتھ خریدوفروخت کرے جو فانی مال لے کر غیر فانی ابدی مال عطا کرے۔ جی ہاں ایسی بھی شاپنگ ہے وہ بھی ہر لمحہ کی جا سکتی ہے۔ ہر روز کی جا سکتی ہے، ہر جگہ کی جا سکتی ہے، گھر بیٹھے کی جا سکتی ہے۔ اب تو آن لا ئن شاپنگ کا کلچر بھی رواج پا رہا ہے۔ تو یہ شاپنگ آن لائن سے بھی زیادہ آرام دہ ہے۔ اس میں خیانت کا کوئی خطرہ نہیں کہ ’’امین‘‘ ہستی سے معاملہ ہے۔ مال کے گھٹیا ہونے کی فکر نہیں۔ معاہدے سے پھر جانے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ کوالٹی کی گارنٹی ہے۔ نفع اور بھرپور نفع کا یقین ہے۔
ہمیں جب بھی شاپنگ کا خیال آئے تو خیال کریں کہ کون سا سودا بہترین ہے؟
ایک گھر دنیا کا ہے تو آخرت میں بھی ایک گھر بنانا ہے۔ وہاں بھی سامان چاہیے۔ وہ سامان یہیں سے آرڈر ہو گا۔۔۔ اسی دنیا کے راستے سے وہاں ضرورت کی ہر چیز پہنچائی جائے گی۔ کیونکہ اس راستے سے گزرے بغیر وہاں جانا ممکن ہی نہیں۔
یہاں کی خریداری یہیں رہ جائے گی جو وہاں کے لیے شاپنگ ہو گی وہ باقی رہ جائے گی۔ دنیا کی شاپنگ بوسیدہ ہو جائے گی۔ آخرت کی شاپنگ کو خطرہ نہیں حیاتِ مستعار کا کتنا حصہ خرچ ہو چکا۔ اس حیات سے کیا کیا خریدا جا چکا؟ اب کتنا سرمایہ رہ گیا اس سے کیا خریدنا ہے؟
ہم دنیا میں رہ کر ہی آخرت کے لیے شاپنگ کر سکتے ہیں۔ جیسے ہی دنیا سے رخصتی ہوئی یہ شاپنگ کی کل مہلت ختم ہو جائے گی۔ مختلف ادارے وقتاً فوقتاً اپنے اپنے تیار شدہ مال کی اشتہاری مہم چلاتے ہیں۔ طرح طرح سے لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے پاس جو پراڈکٹس ہیں ان کی نمائش لگاتے رہتے ہیں اور قرآن ہمیں جگہ جگہ ان چیزوں کی طرف متوجہ کرتا ہے جو خریدنی چاہئیں جن کی شاپنگ کے منصوبے بنانے چاہیں۔ جن پہ سرمایہ وقت، عمر اور دولت خرچ کرنا چاہیے۔ روزانہ کوئی ایک اینٹ، کوئی پتھر۔۔۔ کسی قسم کا کوئی ایک ذرہ وہاں کے گھر کی تعمیر کے لیے بھی خریدا جا سکے۔ کوئی کھڑکی، کوئی کواڑ۔۔۔ وہاں کے لیے بھی پسند آ جائے۔ وہاں کے لان کے لیے کوئی درخت، کوئی پھول، کوئی پتہ خریدنا بھی ہمارے دن کے کسی حصے میں ضروری سمجھا جاتا ہو۔۔۔ زیور، کپڑوں کی خریداری میں وہاں کے لباس کی خریداری بھی چونکا دیتی ہو۔۔۔ ہماری شاپنگ لسٹ میں وہاں کے سامان بھی لکھے جاتے ہو۔ جب کسی منصوبے پہ عمل کرنا ہو تو سارے وسائل، عقل و فہم مانع لے آتی ہے۔۔۔ ضروری اور غیر ضروری کی لسٹیں بن جاتی ہیں۔ کیا کیا پابندیاں لگا کر کیا مستقبل بن سکتا ہے سب سوجھ جاتا ہے۔ فیصلہ انسان کے ارادہ و اختیار کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہ یہی جان و مال کا سرمایہ ہے اس سے دنیا کی شاپنگ کر لو یا پھر آخرت میں جنت حاصل کرنے کے لیے کچھ خرید لو اور اسی دنیا کے میلے سے کچھ انوکھی شاپنگ کر کے اپنا وہ محل (جنت) سجالو، جس کا سودا تو ہو ہی چکا ہے۔ اب یہ سودا قائم رکھنا ہے یا نہیں؟
بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو دنیا کو آخرت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ حاصل کرنے کو سب سے اچھا برانڈ اللہ کا ہے اس کو پانے کے لیے ’’برانڈڈ‘‘ نیکی کیضرورتہے۔بہت بدنصیب ہیں وہ جو دنیا دے کر دنیا ہی خرید پاتے ہیں۔ وہ دنیا جس کا کوئی برانڈ نہیں، کوئی قیمت نہیں۔ مچھر کے پر سے بھی زیادہ حقیر برانڈ ہے دنیا کا اللہ
کی نظر میں۔
(بشریٰ تسنیم)
Asak beautiful msg. Read this while returning frm union co op. Need to shop for jannah. May Allah make it easy.
Empower your Business with BlackBerry® and Mobile Solutions from Etisalat