کردارساز،انسانی رویے وہ روشن دیئے ہوتے ہیں,جن سے ہمیں اپنی زندگی کے اندھیروں میں راہ سجھائی دیتی ہے۔مثبت انسانی رویوں کے تذکرے سے یہ وہ گلدستہ تیار ہوتا ہے(خطا اور نسیان کو ہٹا کر) جس کی خوشبو انسانیت کی مشام جاں کو معطر کرتی ہے۔ اسی گلدستے کا ایک پھول میرے والد رحمہ اللہ بھی ہیں۔
میرے والد جن کو خاندان کے اکثر بچے’’ابی جان‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ ان کی زندگی کے کئی پہلو اس معاشرے میں خاندانی رویوں کے حوالے سے مثال ہیں۔
میرے والد عبدالغنی احسن، ایک مستحکم ومضبوط عقیدہ و نظریہ کے حامل مسلمان تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس کی رضا ہر پہلو سے مقدم رکھتے تھے۔اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اظہار ہر وقت کرتے اللہ تعالی کے احسانات کا تذکرہ کرتے۔ توحید کے علمبردار تھے دکان پہ دیہاتی لوگوں سے خصوصا اس موضوع پر بات کرتے۔شرک یا اس سے قریب عمل کی کوئی بھی ملاوٹ نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر مکمل بھروسہ ان کی زندگی کو ہر قسم کے حالات میں ثابت قدم رکھتا تھا۔اللہ تعالیٰ کی رضا پہ راضی رہنے کا خیال کبھی متزلزل نہ ہوا۔ وہ غم میں حوصلے کی ردا اور خوشی میں اعتدال کا دامن تھامے رکھتے ۔
ہمارے بزرگ حکیم محمد عبداللہؒ چودھری نذیر احمد کے ساتھ مل کر اپنے آبائی گائوں روڑی کے قریب شہر سرسہ کے نواح میں ’’دارالسلام‘‘ آباد کیا تھا۔اس بستی(دارالسلام) کا مقصد ایک نمونے کا شہر آباد کرنا تھا۔ جہاں مدرسہ، مسجد، تربیت گاہ مطالعہ گاہ کے علاوہ نوجوانوں کو ہنر بھی سکھائے جاتے تھے۔ میرے والد ان نوجوانوں میں شامل تھے جو اس بستی کو آباد کرنے کے پرجوش کارکن تھے۔مرزا مسرت بیگؒ، ڈاکٹر مقبول احمد شاہد(والد صائمہ اسماء) ہدایت اللہ سلمانی(قانتہ رابعہ کے والد)، حکیم عبدالحمید سلمانی، ظہور احمد مجاہد اور میرے والد عبدالغنی احسن اس بستی کے معروف نوجوان تھے۔ ان سب نوجوانوں نے مل کر ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا جس کی کتابت اشاعت، تربیت و تنظیم مضامین وغیرہ کا انتخاب اور پھر اس کی تقسیم خود ہی کرتے تھے۔میرے والد کا ادبی ذوق عمدہ تھا۔ اس میگزین کے بارے میں ماموں جان ہدایت اللہ مرحوم بتایا کرتے تھے کہ’’اس رسالے کا نام زیرغور تھا اور عبدالغنی اپنا کوئی تخلص بھی رکھنا چاہ رہے تھے۔ ہم مل کر کہیں جارہے تھے اور مختلف ناموں پر بھی غور کرتے جارہے تھے۔ پھر یہ تجویز ہوا کہ راستے میں مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے جس مسجد میں رکیں گے، وہاں امام صاحب نے جس سورت کی تلاوت کی اس میں سے کوئی لفظ چن لیں گے۔جب ہم نماز پڑھنے سے فارغ ہوئے تو سب کا متفقہ فیصلہ ہواکہ ’’احسن‘‘ نام رکھا جائے گا ۔کیونکہ امام صاحب نے سورۃ التین کی تلاوت کی تھی‘‘۔
تحریکی رسالے جتنے بھی شائع ہوتے تھے، سب پہلے پرچے سے لے کر ابی جان کی زندگی میں مستقل آتے رہے۔ مطالعہ کاشوق وذوق اس قدر تھا کہ کتابوں کا انتخاب ان کا مشغلہ تھا۔مستند سیرت و تاریخ کی کتابیں موجود رہیں۔ میرے بچپن میں درجن بھر سے زیادہ ماہانہ رسائل وجرائد بچوں، بڑوں کے ہمارے گھر آتے تھے۔روزانہ اخبارات اس کے علاوہ تھے۔ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی سے محبت دل میں بسی ہوئی تھی۔جماعت اسلامی کے ہر سالانہ اجتماع میں شریک ہوئے ۔ جہانیاں شہر کے ناظم بھی رہے ۔
مولانامودودیؒ کی ہر کتاب ان کی لائبریری کی زینت تھی۔ میرے نام کا حصہ’’تسنیم‘‘ بھی تحریکی اخبار پہ رکھا۔پاکستان بننے کے بعد ہجرت کے سخت مراحل سے گزرکر جہانیاں میں رہائش پذیر ہوئے۔کیونکہ ہمارے بزرگ مولانا حکیم عبداللہ مرحوم اور چودھری نذیراحمد مرحوم نے بہت سارے شہروں اور علاقوں کا جائزہ لینے کے بعد جہانیاں کو رہنے کے لئے مناسب مقام پایا۔
سفرو ہجرت کی صعوبتیں، نئی جگہ پر معاش کی پریشانیاں، وبائی امراض سے اموات کے صدمے، ایک چیلنج تھا ہر اک کے لئے نئے وطن میں آباد ہونا۔دینی جذبے اور تحریکی شعور نے ہمارے والد کی زندگی کو کسی بھی مرحلے پر مایوسی سے ہمکنار نہ کیا۔ جب پاکستان میں پہلے الیکشن ہوئے تو ابی جان دور دراز علاقوں میں الیکشن مہم پہ گئے ہوئے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کی پہلی بیوی زچگی کی تکلیف کے دوران شادی کے سال بعد ہی اللہ کو پیاری ہوگئی۔ اطلاع ملنے پر گھر آئے۔ صبر ورضا اور حوصلے کی ردا اوڑھے جلد ہی اپنی مہم پر واپس چلے گئے۔ پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا عزم ان کو اسی صورت میں پورا ہوتا نظر آتاتھا کہ باشعور مسلمان الیکشن کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچیں۔پاکستان میں جب بھی الیکشن ہوئے ابی جان ن دامے، درمے، سخنے اس کو جہاد سمجھا اور ہر مرتبہ اس کے لئے مثالی سعی و جہد کی۔ پاکستان سے والہانہ محبت تھی۔ 65ء کی جنگ کے ہیرو ایم، ایم عالم جہانیاں آئے تو ان کی خدمت کے لئے کمربستہ رہے۔ سقوط ڈھاکہ پہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔
مرے زمانہ طالبعلمی میں اجتماعات میں شریک ہونے کے لئے یا دوسرے شہروں میں ملاقاتوں اور دوروں کے لئے جانے پہ کبھی قدغن نہ لگائی۔ بچپن میں کوئی تحریر شائع ہوئی تو مجھے نقد انعام دیتے۔ میری والدہ نے مجھے قلم پکڑنا سکھایا۔لکھنے کی تربیت کی اور میرے والد نے میری حوصلہ افزائی کی، شاباشی دی۔جماعت کے رہنما قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہوتے تھے تو میرے والد ان کو ہمیشہ دعائوں میں یاد رکھتے تھے۔ کم گو تھے لیکن ایسے معاملے پر بھرپور اظہار خیال کرتے تھے۔محلہ کے نوجوانوں میں بہت مقبول تھے۔ ان کی رہنمائی کرتے، محبت وشفقت کرتے تھے۔رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیراحمد، شہید ہوئے تو کئی دن ملول رہے۔ دونوں میں دوستی اور بھائی چارہ تھا۔
ساری عمر مسجد کمیٹی کے ممبر رہے۔ صاب الرائے تھے۔ خاندان میں، گلی محلہ میں یا کسی بھی پنچایت میں بلائے جاتے تو ٹھوس، جامع، مدلل اور قابل عمل رائے دیتے تھے۔صلح جو تھے، دوسروں کے درمیان صلح کرواتے، تعلقات کو نبھانے اور دوست رکھنے کی پوری کوشش کرتے۔اپنی طرف سے رنجش کا اظہار نہ کرتے۔ تحمل، برداشت اور حلم کی خاص خوبیاں تھیں۔ سلیقہ مند، شائستہ اطوار اور منصوبہ بندی کرکے کام کے عادی تھے۔ ہڑبونگ، بدزبانی الل ٹپ کام کرنے کو عیب جانتے تھے۔مالی معاملات اور تجارتی لین دین میں ایمانداری، محنت اور ایفائے عہد پہ کاربند رہے۔ سنجیدگی،متانت، توازن ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔ نہ خوشی میں آپے سے باہر ہوئے نہ غم کی کٹھالیوں سے گزرتے ہوئے صبروضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے۔
بچوں کو خصوصاً بچیوں کے ساتھ چاہے وہ اپنی ہوں یا پاس پڑوس کی،سب کے ساتھ شفقت کا رویہ ہوتا۔ خاندان کی بچیاں خاص انس اور خصوصی الفت کا جذبہ اپنے دلوں میں محسوس کرتیں۔ حالانکہ نہ کبھی لمبی نشست ہوئی نہ زیادہ بات چیت کرتے۔ مگر محبت، پیار اوربزرگانہ شفت کے چند بول،دعائیں اورسر پہ دست شفقت سب کو اپنے لئے خاص ہی محسوس ہوتا تھا۔ خاندان میں یا دوست احباب، پاس پڑوس کی بچیوں کو سسرال میں کوئی پریشانی یا تکلیف ہوتی تو عملی طور پر اس کا حل تلاش کرنے میں معاونت کرتے۔ سب ان پر بھروسہ کرتے ان کے مشورے پر صاد کرتے… بہت لوگوں کو ان کی کم آمیزی اور مختصر گفتگو کا گلہ ہوتا تھا۔ ضرورت کے مطابق بات کرتے لیکن ٹھوس، مضبوط دلائل کے ساتھ انکی شخصیت کا خاص پہلو تھا
"کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا”۔
ان کی زندگی میں افراتفری، غل غپاڑہ کانام ونشان تک نہ تھا۔ لب و لہجہ دھیما، منتخب الفاظ یہ بات چیت کا انداز تھا تو چال میں شاہانہ وقار تھا۔مجال ہے قدم غیر متوازن ہو۔ بہت سارے لوگوں میں دور سے پہچانے جاتے تھے اپنی متوازن اور پر وقار چال کی وجہ سے۔
بگاڑ،باہمی تعلقات کا ہویا گھر کی مادی اشیاء کا ان کی درستی میں دیر نہ لگاتے۔ ٹوٹے رشتے، ناراض لوگوں کی آپس میں صلح کرانے میں پہل کرتے۔ غصہ اور ناگواری کا اظہار منہ سے نہ کرتے۔ پیشانی پہ ایک رگ ابھرتی اور ہونٹ زور سے دبالیتے گویا اپنے اندر اٹھنے والے طوفان کو پورے ضبط سے ٹھنڈا کررہے ہیں اور منہ سے کوئی لفظ نہ نکلنے پائے۔
’’پہلوان تو وہی ہے جو اپنے غصہ کو قابو میں رکھے‘‘۔
انتخاب چاہے دوستوں کا ہو…یا کپڑوں کے رنگوں اور کوالٹی کا یا برتنوں اور گھرکی دیگر اشیا کا بہترین انتخاب ہوتا۔ہماری والدہ طبعا درویش صفت اور سادگی پسند تھیں۔ہمارے والد نے اپنے ذوق کے مطابق بہترین لباس اور اشیاء ان کے لئے مہیا کیں۔ہمارے والد کی خریداری کو خاندان کی خواتین بھی سراہتی تھیں۔مردوں کو اپنی بیویوں کی بے جا فرمائشوں اور بے جا خرچوں کا گلہ ہوتا ہے۔ میرے والد کو ہماری امی سے سادگی و درویشی کاگلہ تھا۔ مردوں کے لئے کاروباری دنیا ایک کڑا امتحان ہوتی ہے اور اگر شراکت پہ کاروبارہوتو یہ آزمائش اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے والد اور ہمارے ماموں حکیم ہدایت اللہ سلمانی نے باہم شراکت پہ کاروبار شروع کیاایک مدت تک کاروباری اداروں تک کو اندازہ نہ ہوا کہ ہم جن کے ساتھ معاملات طے کررہے وہ آپس میں سگے بھائی نہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے دونوں پہ خاص کرم کیاتھا۔ دونوں کو اتناوسیع القلب اور اعلیٰ ظرف بنایا تھا کہ کسی کو ایک دوسرے سے شکایت نہ ہوئی۔مدت تک پیارومحبت اور اعتماد کے سائے تلے کاروبارکرتے رہے۔ ہمارے ماموں ہدایت اللہ مرحوم کو روحانیت سے خاص شغف تھااور درویشی ان کی صفت تھی۔دنیا داری سے ان کا اتنا ہی تعلق تھا کہ جسم و جان کا رشتہ قائم رہے۔ ہمارے والد نے ان کے حصہ کاکام بھی ایک وقت آیا کہ احسن طریقہ سے نبھایا اور ان کے سارے معاملات کو بحسن و خوبی چلایا۔
خونی، قانونی، کاروباری، تعلق ورشتے کے باوجود سب نے ایک دوسرے کی رفاقت اور رشتوں کا احترام برقراررکھا۔ اپنے حقوق پر دوسروں کو ترجیح دی۔ ایک دوسرا پہلو جس کا تذکرہ میں خاص طور پر کرنا چاہتی ہوں۔وہ ہمارے والد مرحوم کا وہ اخلاق ہے جس پر بہت کم مرد مسلمان پورے اترتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔’’تم میں سے وہ بہترین شخص ہے جو اپنے گھر والوں خصوصا اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے‘‘۔ مزید فرمایا کہ ’’تمہارے اوپر تین مردوں کا احسان ہے۔ ایک باپ، ایک استاد، ایک وہ جس نے تمہیں بیٹی دی‘‘۔
میرے والد مرحوم کی زندگی، کردار واخلاق کایہ وہ پہلو ہے جو ان شاء اللہ ان کے درجات کی بلندی میں کلیدی کردارادا کرے گا۔ معاشرے کے مروجہ غیر شرعی لین دین کو ناپسند کرتے چاہے شادی بیاہ کامعاملہ ہو یادوستی کا۔بہت کم حضرات ایسے ہوتے ہیں جو حقوق و فرائض کے دائرے میں عدل و توازن اور ترجیحات کا تعین کرسکیں۔خصوصا بیوی کے اور اس کے خاندان، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کاپیمانہ ڈانواں ڈول ہی رہتا ہے۔ اپنے گھر میں آنے والی خاتون کے رشتہ داروں کو اپنا سمجھنے کا رجحان نہیں پایا جاتا۔بلکہ اپنے گھر والی کو بھی اپنے خاندان کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔اگر وہ اپنے خاندان کی نہ ہوتو معاملہ اور بھی دگرگوں ہو جاتا ہے۔معاشرے میں یہ عدم توازن بہت سی معاشرتی ونفسیاتی الجھنوں کا باعث بنتا ہے کہ بیوی سسرال میں آکر تو سارے رشتے ناطے نبھائے اور اپنے میکے والوں کے ساتھ حسن سلوک کی بھی حق دار نہ ہو۔
میرے والد مرحوم نے اپنے قانونی رشتہ داروں کا خیال اپنے رشتہ داروں جیسا ہی رکھا بلکہ زیادہ رکھا۔آپس میں رشتہ داری بھی تھی لیکن اس کو زمانے کے مروجہ پیمانوں سے کبھی نہیں ناپا۔ میری والدہ بتاتی تھیں کہ’’تمہارے والد کا اماں جی(ہماری نانی اماں) سے اتنا پیار تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے زیادہ ان پر بھروسہ کرتی تھیں۔ہمارے والد نے حقیقی ماں کی طرح ان سے محبت کی اور ان کی مشکلات وپریشانیوں میں تعاون کیا جبکہ ہجرت کے بعد دگرگوں حالات میں وہ کسی سے کوئی اظہار نہیں کرتیں تھیں۔صرف تمہارے والد ہی ان کے ہمراز و غمگسار تھے۔ بیوگی اور چھوٹے بچوں کا ساتھ تھا اماں جی غیرت مند تھیں۔ اپنی مشکلات کا اظہار نہ ہونے دیتی تھیں۔ مگر ہمارے والد سے محبت اور اعتماد تھا۔ اس لئے پہلی بیٹی کے فوت ہونے پر ان کو دوسری بیٹی دی‘‘۔
ہماری والدہ مرحوم ہمیشہ والد مرحوم کے ایثار، جذبہ،،خلوص و محبت اور تعاون کی تعریف کرتیں۔ ہماری والدہ نے گھر کے انتظامات کو ہمیشہ ترتیب و تنظیم سے چلایا، اپنے گھر کو اہمیت دی، لیکن جب کبھی دوسروں کی خاطر ایثار کاوقت آیا تو اس میں بھی کوتاہی نہ کی۔ میرے والد نے ہمیشہ ان کے اس جذبے کی حوصلہ افزائی کی۔ تعاون کیا، ہماری ممانی رشیدہ قطب(بیگم ڈاکٹر کفایت اللہ فیصل آباد) ہماری امی سے کہتی تھیں کہ ’’ آپا!بھائی صاحب بہت اچھے ہیں، بڑے دل کے مالک ہیں جو آپ اس طرح خدمت خلق کرتی ہیں۔ورنہ مرد تو برداشت ہی نہیں کرتے کہ ان کی بیوی اپنے میکے والوں کے کام آئے‘‘۔
والد مرحوم نے کبھی ہماری والدہ سے تندوتیززبان ولہجہ میں بات کرنا توکجا کبھی بلند آواز سے پکارا بھی نہیں۔ہمارے چھوٹے ماموں کا گھر ساتھ ہی ہے درمیان میں دروازہ صحن کی دیوار بھی بہت بلند نہیں ہے۔ گویا کہ ایک ہی گھر ہے۔ ہماری ممانی اور ان کے بچے گواہ ہیں کہ گزشتہ چالیس برسوں میں کبھی ہمارے والد کی آواز ان کے گھر تک پہنچی ہو۔ یا تلخ لب و لہجہ کاشائبہ ہوا ہو۔ گھر کے اندر بھی اتنا ہی وقار، ویسی ہی شائستگی، وہی نرمی و محبت، حلم وتحمل جیسی کہ گھر سے باہر۔ انسان کے حقیقی کردار وشخصیت کا اندازہ توگھرمیں ہی ہوتا ہے۔ الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم تھا کہ ہمارے والد اس طرح کی دو رنگی سے محفوظ تھے۔ بیٹیوں سے خصوصی پیار، ہر نئی بیٹی کی پیدائش پر پہلے سے زیادہ محبت وشفقت کرنے والے۔ جب ہماری چھٹی بہن پیدا ہوئی اور اطلاع ملنے پر ’’الحمدللہ‘‘ کہا تو اطلاع دینے والی عورت بے حد حیران ہوئی۔ وہ تو صدمے اور دکھ کے تاثرات کی منتظر تھی۔پھراس نے تبصرہ کیا کہ ’’بیٹی کی پیدائش پر خوش ہوتے ہیں تو اللہ بھی ان کو خوش کررہا ہے‘‘۔
ہماری امی کو اکثر گلہ ہوتا کہ بچوں کے ساتھ زیادہ ہی نرمی برتتے ہیں۔کسی بچے کو ڈانٹا جھڑکا نہیں،مارنا تو دور کی بات ہے۔ہمارے بڑے بھائی مرحوم شاہد کو کبھی نہ ڈانٹا بھائی کا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں تھا۔ نہ شرارت، نہ کسی کو ایذا رسانی، خاموش طبع تھے اور بہت زیادہ مطابقت رکھتے تھے روحانی مزاج کے حوالے سے ہمارے ماموں ہدایت اللہ کے ساتھ …جوانی میں ہی اپنی مہلت عمر پوری کرکے اپنے رب سے جاملے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جوان بیٹے کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا مشکل امر ہے۔اللہ تعالیٰ کی رضا پہ راضی رہنے والوں کا کڑا امتحان تھا… وہ وقت آزمائش بھی پوری ایمانی کیفیت کے ساتھ گزارا۔اللہ تعالیٰ ان کو صبر،حوصلے کا پورا پورا اجر عطا فرمائے۔ آمین۔
ہماری دادی جان اور دادا جان کی یکے بعد دیگر وفات کے بعد ہمارے والد اپنے تین بہن بھائیوں کو اپنے ہاں لے آئے تھے۔ان کی پرورش، تعلیم وتربیت کے فرائض ہماری والدہ مرحومہ نے اپنی پوری خلوص نیت اور سوزدروں سے ادا کئے۔ ہمارے والد مرحوم نے اس کا تذکرہ ہم سے اکثر کیا کہ’’یہ میرا فرض تھا، میری ذمہ داری تھی مگر تمہاری امی نے اس کو احسن طریقے سے ادا کرکے مجھ پر احسان کیا ہے۔جس کا حق ادا کرنا میرے لئے ناممکن ہے۔ ’’وفات سے ایک ماہ پہلے میرے گھرمیں اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے گریہ طاری ہوگیا تھا ان پر "رب ارحمھما کما ربینی صغیراً "حالانکہ میرے والد نے بھی اس سے پہلے ہماری نانی اماں اور ان کے چھوٹے بچوں کے بارے میں اپنا فریضہ ادا کیا ہی تھا۔ مگراس بات کو کبھی نہ جتایا جبکہ امی کے احسان سے ہمیشہ ممنون رہے۔
ابی جان نے اپنی جائیداد بنائی تو ہماری امی جان کے لئے بھی ضرورخریدی اور کاروبار میں بھی ان کا حصہ شامل کیا۔ہر معاملے میں شریک حیات رکھا مالی معاملات ہوں یا معاشرتی۔۔
جب والد مرحوم کو حج کی سعادت نصیب ہوئی تو ان دنوں میرا قیام سعودی عرب میں ہی تھا۔ہم نے کوشش کی کہ وہ اپنے گروپ کے ساتھ نہ رہیں اور ہمارے ساتھ فریضہ ادا کریں تاکہ آرام اور سہولت سے دن گزریں۔ مگر ان کی طبیعت اور مزاج نے گوارانہ کیا کہ وہ اپنے حج کے ساتھیوں کو چھوڑ کر’’آرام اور سہولت‘‘ اختیار کریں، گردے کے عارضہ میں مدت سے مبتلا تھے۔ آخری دور میں عارضہ قلب کی بھی شکایت ہوگئ تھی۔
تکلیف کی شدت اور پیرانہ سالی کے باوجود رمضان المبارک کے روزے قضا کرنے پر راضی نہ ہوئے۔بیماری یا موسم کی شدت بھی اس جذبہ کو ختم نہ کرسکی۔تہجد کی نماز حتی الامکان ادا کرتے رہے اور مسجد کے ساتھ تعلق نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ بھی برقراررہا۔
قرآن پاک کی تلاوت روزانہ بآواز بلند کرتے۔ مجھے اپنے بچپن کی یادوں میں یہ منظرپوری جزئیات کے ساتھ محفوظ ہے کہ ابی جان روزانہ برآمدے میں کرسی پر بیٹھ کر تلاوت کررہے ہیں ان کی آواز سارے گھر میں پہنچ رہی ہے۔ہماری والدہ باورچی خانہ میں ناشتہ بنارہی ہیں اور ہم بچے سکول جانے کی تیاری کررہے ہیں۔ ابی جان کی تلاوت کی آواز ابھی بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ جو ہمارے گھر کے ماحول کا لازمی حصہ تھی۔ جمعتہ المبارک کو سورہ کہف کی تلاوت کرتے۔ کوئی بیماری کی وبا ہوتی تو سورۃ التغابن کا ورد کرتے ۔۔۔
’قرآن پاک کے ساتھ میرے خصوصی تعلق کو بہت سراہتے تھے۔میری والدہ ذکر کرتیں کہ جب تم بہت ہی چھوٹی تھی ابھی گود میں تھی۔تو تم اپنے والد کی تلاوت کو غور سے سنتی تھی اور جس قدر بھی رورہی ہوتی اس آواز کو سن کر خاموش ہو جاتی تھی اور ہمہ تن گوش ہو جاتی تھی‘‘۔ گویا میرا اپنے والد سے تعلق قرآن پاک کی نسبت سے بھی ہے اور آج جب اس قرآن پاک سے تلاوت کرتی ہوں جو چالیس سال میرے والد کے زیر تلاوت رہا تو مجھے ان سے تعلق و قرب کا احساس زندہ جاوید لگتا ہے۔ اے اللہ! ہمیں اپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ بنادے۔ آمین۔
ہمارے والد مرحوم رات کو گرمیوں میں گھرکی چھت پر سب بچوں سے نماز، چھوٹی سورتیں، گنتی، پہاڑے، چھوٹی چھوٹی نظمیں سنتے، کندھوں پر بٹھا کر جھولا دیتے۔ شہاب، ثاقب، کہکشاں، چمکتے ستاروں اور روشن چاند کی باتیں کرتے۔ جس کو سبق اچھا یاد ہوتااس کو نقد انعام دیتے۔ سردیوں میں مونگ پھلی، چلغوزے چھیل کر کھلاتے خاص حریرہ بنا کر کھلاتے جو خاص طور پر میوے ڈال کر بنتا۔ کھانا کھاتے تو گھر میں سب سے چھوٹے بچے کو ساتھ ضرور کھلاتے۔ہماری والدہ کہتیں کہ ’’خود کھاناکھالیں آرام سے‘‘… مگر وہ اس بات سے خوش ہوتے کہ بچے کے ساتھ ساتھ لقمہ کھلایا جائے۔ماموں جان کے بچے بھی آجاتے تو ان کو بھی توجہ سے کھلاتے۔ کھانا کھانے کے آداب سکھاتے۔ بچوں سے منی منی باتیں کرتے۔ کھانا کھاتے ہوئے انسان کو دیکھ کر اس کی شخصیت کے بہت سے پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ ہمارے والد اطمینان وسکون کے ساتھ متوازن لقمہ منہ میں ڈالتے اور بغیر کوئی آواز نکالے چباتے اور اسی طرح بچوں کی بھی تربیت کرتے کہ کھاناکھانے کا مسنون عمل اور درست طریقہ اور متوازن چال یہ دونوں باتیں انسان کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ہم میں سے کوئی بیمار ہو جاتا تو اپنے ہاتھ سے دوائی، کھانا کھلاتے پاس بیٹھ کر پیار بھرے بول سے دل جوئی کرتے۔ سر، بازو، ہاتھ سہلاتے تھے۔ آیات کا ورد کرتے، بھوک، نیند میں خلل، یا بے آرامی(بچوں کی وجہ سے ) ان کو کبھی مشتعل نہ کرتی بلکہ ناگواری کا احساس بھی نہ ہونے دیا۔ چھٹیوں میں ہم ساری بہنیں اپنے بچوں سمیت آتیں تو بہت نہال ہوتے۔ شام کو دکان سے واپسی پر گھر آتے ہوئے کوئی نہ کوئی پھل یا مٹھائی ضرور ساتھ لاتے۔۔یہ ان کا ہمیشہ معمول رہا۔ رات کا کرنا کھا کرحالات حاضرہ کا پروگرام سیر بین بی بی سی ضرور سنتے تھے۔
بیٹیوں کے سسرال سے ہمیشہ مخلصانہ محبت کا رویہ رکھا۔ چونکہ تحریکی بنیاد پر رشتے قائم کئے۔ اس لئے "من احب اللہ وابغض للہ” کی سوچ کو مقدم رکھا۔
والدین اور بچوں کا روحانی تعلق دور سے بھی کس طرح قائم رہتا ہے اور کام کرتا ہے۔ یہ بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ مجھے اکثر اس بات کا تجربہ ہوا۔بغیر کوئی اظہار کئے والدین بچوں کو خصوصا بیٹیوں کے دل کا حال لاشعوری طورپر محسوس کرلیتے ہیں۔ یہ دلوں کے معاملے ہیں۔
وفات سے چند ہفتے پہلے میرے پاس آئے۔ پاکستان میں معاشی تگ ودو میں ناکامی کے بعد خواجہ مجاہد شارجہ قسمت آزمائی کے لئے جا چکے تھے۔میرے پاس جب ابی جان تھے تو انہوں نے مجھے ایک خاص وظیفہ بتایا جو میں نے ان کی ہدایت کے مطابق کیا۔ الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کرم فرمایا۔ خود بھی نماز کے بعد خصوصی دعا فرماتے رہے۔ انہی دنوں طبیعت زیادہ خراب ہوئی۔ بات کرتے کرتے بھول جاتے۔ مگر ایک بات جو میرے لئے باعث خوشی تھی کہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے کوئی بچہ غلطی کرتا تو اس کو درست کردیتے تھے۔کمزوری اور نقاہت بڑھ رہی تھی۔ عارضہ قلب نے نڈھال کردیا تھا۔ ڈاکٹر کی رائے سن کر ہماری امی نے بہت کوشش کی وہ جہانیاں چلنے پر رضا مند ہو جائیں۔ مگر وہ میرے پاس میرے گھر رہنے کے خواہش مند تھے۔ امی جان نے گاڑی منگوائی۔سامان سمیٹا، گاڑی میں رکھا، اپناگائون پہنا اور ابی جان سے اٹھنے کو کہا مگر وہ ساری کارروائی خاموشی سے دیکھتے رہے۔ جب امی نے اصرار کیا تو لحاف منہ پہ لے کر لیٹ گئے اور بچوں کی سی معصومیت اور بے نیازی سے بولے۔
’’تم جائو،میں نے نہیں جانا‘‘۔ میری امی جان بھائی محسن کے ساتھ چلی گئیں کہ جہانیاں گھرمیں کوئی نہ تھا۔ جب ہماری امی چلی گئیں تو ابی جان ہنستے مسکراتے اٹھ بیٹھے۔ حمیراشعیب کے بچے اور ہم سب مل کر اس بات سے بہت محظوظ ہوئے یہ میری سعادت تھی کہ میرے والد، میرے پاس میرے گھر رہنا باعث سکون سمجھتے تھے۔ میرے ساتھ خوش رہتے تھے۔میرے ہاتھ سے کھانا کھا لیتے تھے۔ مجھے سراہتے کہ ’’تمہیں مریض کو کھانا کھلانے کا ڈھنگ خوب آتا ہے‘‘۔
سب بچوں نے نانا کوچھیڑا’’ ابی جان آپ تو ایسے بہانے کررہے تھے جیسے بچے سکول نہ جانے کے بہانے کرتے ہیں‘‘۔ یہ سن کر خوب ہنسے۔
امی جان چلی گئیں تو وہاں جا کر بہت پریشان ہو گئیں کہ جلد از جلد گھر لانا چاہیے۔ اگلے دن بھائی بلال کو بھیجا۔ اسے دیکھ کر افسردہ ہوگئے میرے دوپٹے کاپلو پکڑ کر استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ مجھے لینے آیا ہے؟ اس کا اصرار کہ امی نے کہا ہے کہ لازما لے کر آناہے، مجھے ان کے دور رہنے سے گھبراہٹ ہوتی ہے اور ابی جان میرے پہلو سے یوں لگ کر بیٹھ گئے جیسے بچہ ماں کے پہلو سے لگ کر بیٹھ جائے۔امی کے فرمان کے مطابق پھر میں ابی جان کو لے کر جہانیاں روانہ ہوئی تاکہ وہ میری دوری سے افسردہ نہ ہوں۔ مغرب کے وقت پہنچے، نماز پڑھی۔ میں نے کہا دعا کرلیں توبولے،تم کرائو میں تمہارے پیچھے دہرا لوں گا۔ میں نے ہر ممکن طویل دعا کروائی۔ سب بچوں کا نام لے کر، سب ممکنہ دعائیں کروالیں۔ ساتھ ساتھ دہراتے رہے۔
یہ ہمارے والد کی آخری لمبی گفتگو تھی وہ بھی الحمدللہ دعا کی صورت میں صبح تک نقاہت اتنی بڑھی کہ بولنے کی سکت نہ رہی۔ میرے شارجہ جانے کی تیاریوں سے بہت افسردہ ہوتے تھے۔ کہتے’’ میری تو شام ہے تو صبح نہیں معلوم۔ صبح ہے تو شام کا علم نہیں۔ تم چلی جائو گی تو …‘‘ میرے دل کی حالت زخمی پرندے جیسی ہو جاتی…دل سے دعا نکلتی اللہ تعالی صحت وعافیت سے رکھے آمین۔ میں انہیں جہانیاں چھوڑ کر ملتان چلی گئی اور اسی شام بعد نماز مغرب نشست وبرخاست اور ہر کروٹ اور پہلو بدلنے پر اللہ اکبر کہنے والی زبان نقاہبت کی وجہ سے خاموش ہو گئی وہ قومے میں چلے گئے اور مرفوع القلم ہوگئے ۔ابی جان کی زبان ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرہ عاشقانہ سے تر رہتی تھی۔ بچے جب گھر ، گھروندہ بنا کر کھیلتے ہیں تو سارے کردار وہی اپناتے ہیں جو اپنے اردگرد دیکھتے اور متاثر ہوتے ہیں اسی سے بچوں کی تربیت کا رخ متعین ہوتا ہے۔ہمارے گھرمیں جب بچے گھرکے افراد کا بہروپ بھرتے تو’’ابی جان‘‘ بننے والا بچہ ہر حرکت پر’’اللہ اکبر‘‘ کہتا رہتا۔اسی ذات کبریا سے سچی امید ہے کہ اپنے بندے کے ہر فکر وذکر اور عمل کو بلند درجات عطا فرمادے گا۔آمین۔
ابی جان کے ساتھ میری طویل گفتگو اسی دعا کی صورت میں ہوئی جو میں نے ملتان سے جہانیاں آ کر بعد نماز مغرب ان کے ساتھ مل کر رب کے حضور پیش کی ۔دو تین دن ملتان گزار کر بے اختیار پھر جہانیاں پہنچ گئ
۔26جنوری2004ء کی سرد، اداس ، سہ پہر مجھے نہیں بھولتی۔ جب میں نے اپنے عظیم باپ کا دست شفقت اپنے سرپر رکھا محسوس کیا۔ان کی الوداعی خاموش، گہری آنکھوں میں ٹمٹماتی لوکا دھیما پن، محبت و شفقت کی گرمی کو کم نہ کرسکاتھا۔ایک انجانا سا خوف اور عجب بے کلی میرے وجود میں سرایت کر گئی۔ خاموش نگاہیں تعاقب میں تھیں۔ ان کے بستر سے دروازے تک چند قدم کا فاصلہ تھا جو مجھے اتنا کٹھن اور طویل محسوس ہوا کہ میں بے جان سی ہو گئی۔ کمرے کے دروازے میں کھڑے ہوکر میں نے پیچھے مڑ کردیکھا وہ محسن زاہد کے سہارے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے خالی خالی نگاہوں سے مجھے جاتاہوا دیکھ رہے تھے۔درد کی ایک لہر اور غم کی بے پناہ شدت سے میرا سانس گلے میں اٹک گیا تھا۔میں نے امی سے کہا’’ میں اب نہیں جائوں گی ملتان اس طرح کی پریشان کن حالت میں ‘‘۔
میری ماں نے ہمیشہ کی طرح اپنا فرض نبھایا اور تادیبی لہجہ میں کہا’’مجاہد بیٹا شارجہ سے کل ہی تو آرہا ہے تم جائو،اس کے ساتھ آجانا‘‘۔ اندیشہ ہائے دوردراز اور سودوزیاں کی الجھی ڈور کا سرا تلاش کرتی دکھی دل اور اپنے اندر مسلسل برستی بارش کے ساتھ میں ملتان آگئی۔
قومے میں رہنے والی خاموش مرفوع القلم ہستی نے بآواز بلند
"انت ولی فی الدنیا والآخرة توفنی مسلما و الحقنی بالصالحین” پڑھا اور پھر خاموشی چھا گئ ۔
یکم فروری9ذی الحجہ کو جب حاجی عرفات کے میدان میں رب کے حضور حاضر تھے، میرے والد بھی دو سفید چادروں میں ملبوس اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ابی جان کی خاموش نگاہوں کا تعاقب، ان کے اور میرے درمیان اس فانی دنیا کا آخری نقش ثابت ہوا۔ یہی آخری نقش وہ شاخ نہال غم ہے جو ہمیشہ تروتازہ رہے گی تاآنکہ میں اپنے ابی جان سے جاملوں، دلی دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب بہن بھائیوں کو والدین کے ساتھ ان سرسبز شاداب باغوں میں رکھے جہاں ندیاں بہتی ہیں۔ جن کا سایہ لازوال اور نعمتیں سدابہار ہیں۔ آمین۔