الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنه سے روایت ہے جس کی سند صحیح ہے اور السلسلة الصحیحہ(امام البانی رح) کی حدیث نمبر 2510 ہے)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یقیناً آج یہ دور ہے جس میں علماء زیادہ اور خطباء کم ہیں ۔ایسی صورت حال میں جس شخص کو جو علم و معرفت ہے اس میں سے دس فی صد بهی چهوڑ دے گا تو گمراہ ہوگا ۔مگر ایک زمانہ اس کے بعد بهی آنا ہے جس میں خطباء زیادہ اور علماء برائے نام ہوں گے۔آس دور میں جو شخص اپنے حقیقی علم سے دس فی صد کو بهی تهام لے گا تو نجات پا جائے گا۔ "
ہم سب جانتے ہیں کہ قرون اولیٰ میں علم ناقص نہیں تها خالص تها اس زمانہ میں خطباء کی مو شگافیاں ، من مرضی کے نت نئے فلسفے نہ تهے علم کی دوکان داریاں نہ تهیں۔جو تها جتنا تها خالص اور کهرا تها۔ اس میں سے دس فیصد کم ہو جانے پہ بهی گمراہی کا خطرہ منڈلانے لگتا تها۔آجکل علم کے نام پہ معلومات کا ایک جنگل ہے۔ اس جنگل میں سے کار آمد علم کی جڑی بوٹیاں جہالت کی بیماری کو دور کرنے کے لئے دستیاب ہو جائیں تو شفایابی کی امید ہو سکتی ہے۔اور نجات کی راہ مل سکتی ہے۔گویا معلومات میں سے حقیقی علم دس فیصد دستیاب ہوجائے تو اس کو عمل میں لانے سے نجات کی راہ مل سکتی ہے۔علم نافع اور حکمت ہی مومن کی گمشدہ میراث ہے۔اور انبیاء کے وارث معلومات والےمقرر نہیں علم والے ہوتے ہیں ۔ دھواں دھار دلائل کے ساتھ معلومات کے انبار لگاتے مقرر کام کا کوئی ایک جملہ کہ دیں تو غنیمت ہے ۔
آج ہم اپنے ارد گرد ایسے وسائل و ذرائع ابلاغ پاتے ہیں جس کے ذریعے ہر شخص کچھ نہ کچھ خطاب کر رہا ہوتا ہے۔ مخاطب کو وہ کیا سمجھانا چاہ رہا ہے شاید اس کو خود بهی علم نہیں۔ہر کسی کو جو جیسی معلومات جہاں سے ملیں اس کو دوسرے تک پہنچانا فرض سمجھتا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں بهانپ بهانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ہمارے پاس روزانہ جو علم کے نام پہ پہنچتا ہے اس میں سے کتنا کار آمد ہے؟شاید دس فیصد یا اس سے بھی کم۔مثلا کسی مقدس مقام کا جغرافیہ حدود اربعہ دیواروں کی اونچائی ،چوڑائی بلڈنگ کی تعمیرات میں استعمال ہونے والی اشیاء کی معلومات پہ اس قدر زور دینا کہ اس کی اصل وجہ تعمیر کی طرف توجہ نہ جائے جو کہ دو چار جملوں میں بیان ہو سکتی ہے۔ ہمارانصاب تعلیم اسی طرز پہ بچوں پہ بوجھ بنا ہوا ہے۔ کام کی بات دس فیصد ہوتی ہے۔ خطیب حضرات کے لمبے لمبے بیان میں دس فیصد قابل عمل بات ہوتی ہے۔ پس اسی دس فیصد کو ہی خالص جان کر اسی پہ اپنی آخروی نجات کی بنیاد رکهنی ہے۔خالص چیز کم بهی ہو تو بهر پور فائدہ دیتی ہے۔
الله تعالى نے اجر دینے کا وعدہ خالص عمل پہ ہی کیا ہے۔خالص علم ہوگا تو عمل بهی خالص ہوگا۔خالص عمل کے ذریعے اپنے رب سے خاص تعلق کا نتیجہ تقوی کی شکل میں ظاہر ہوگا۔اور وہ خالص عمل، زبان سے صرف ایک بار” سبحان اللہ” کہنا بهی زمین و آسمان کے خلاء کو بهر دے گا۔کہاں ہزار دانے والی تسبیح پہ کہا جانے والا بے زاری سے کیا جانے والا وظیفہ اور کہاں چلتے پھرتے کسی پرندے کی اڑان کو دیکھ کر بے اختیار والہانہ سبحان اللہ کہنا۔ہزار دانے کی تسبیح پہ بهی شاید ایک بار ہی یہ کیفیت نصیب ہوتی ہو۔
مقصود گنتی نہیں کیفیت دل ہے اور کیفیت دل کا تعلق خلوص اور چاہت سے ہے۔
ڈهیر مال اگر ناکارہ ہے تو اس میں سے کوئی کار آمد چیز تلاش کرنے کو الگ محنت درکار ہے۔آخر ہم ناکارہ مال ہی کیوں جمع کر رہے ہیں؟اچها مال ہو اگر چہ کم ہو وہ بہتر زادراہ ہو سکتا ہے۔مسافر کی دانشمندی یہی ہوتی ہے کہ وہ سفر میں بہت کارآمد آشیاء ہی ساتھ رکهے۔جو منزل تک کام آئیں۔راستے میں پهینکنی نہ پڑیں کہ بے کار میں بوجھ آٹهایا اور منزل پہ پہنچ کر پتہ چلے کچھ ہاتھ میں نہیں جو ہے وہ بهی اس گهر سے مناسبت نہیں رکهتا۔علم کا دسواں حصہ،زندگی کا دسواں حصہ، الله تعالى کی عطا کردہ صلاحیتوں کا دسواں حصہ نعمتوں کا دسواں حصہ بهی اگر الله کے لئے خالص ہوجائے،اعمال نامے میں دسواں حصہ ہی قابل اجر نکل آئے تو الله کی رحمت واسعہ اسے سو فیصد مکمل کردے گی۔اپنے علم اور اعمال کی صحت کا ہر صلوة کے بعد جائزہ لینا چاہئے کہ کتنے فیصد کار آمد ہے اور کیا کچھ ناکارہ ہے ؟
اسی طرح دنیا بھر سے مظلوم مسلمانوں کے بارے میں خبریں اور معلومات کا ڈھیر جمع ہوتا رہتا ہے جو آگے سے آگے منتقل کرنا اپنی قابلیت سمجھی جاتی ہے اس کارروائی کا دسواں حصہ بھی عملی طور پہ کار آمد ثابت ہو جائے تو ظلم میں کمی آجائے ۔
قرآنی پکار تو یہ ہے جو خالص پکار ہے، خالص علم ہے اور تصویروں تقریروں اور متحرک تصویروں کو جمع کرنے کے بغیر ہی سمجھ آرہی ہے۔ یہی علم کافی ہے کہ امت مسلمہ کا کوئی حصہ مشکل میں ہے اور انکی حسب استطاعت مدد سب نے کرنی ہے۔
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لدنک نصیرا۔
بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راه میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔ (سورہ النساء 75)
ہم نے اللہ کی اس پکار پہ اپنا مال ،وقت صلاحیتیں کتنے فی صد کار آمد اور خالص لگائی ہیں ؟ یا بس تقریروں، تصویروں پہ لائک کی تعداد بڑھانے اور پھیلانے پہ زور ہے؟
حقوق اللہ ،حقوق العباد کے متعلق اپنے سارے علم اور معلومات کا جائزہ لیں اور خالص علم کو چهانٹ کر اسے عمل میں لائیں یہی نجات کا باعث ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بهی جہنم بهی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اللهم إنا نسئلک علما نافعا و عملا متقبلا آمین