الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین۔
إنما الأعمال بالنيات
(اعمال کا دارومدار نیتوں پہ ہے)
بخاری شریف کی اس معروف حدیث کی وضاحت ابن ماجہ کی اس حدیث سے مزید اجاگر ہوتی ہے کہ
انمایبعث الناس علی نیاتهم
(لوگ روز قیامت اپنی نیتوں پہ اٹھائے جا ئیں گے)
ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے کی تلقین ہی دراصل خلوص نیت ہے۔اللہ تعالی کو حاضر و ناظر جاننا،اس کی رضا اور استعانت چاہنا اس کا ساتھ محسوس کرنا” بسم اللہ "ہے۔
نیت وہ قلبی ارادہ ہے جو کسی کام کی بنیاد بنتا ہے. ایک مومن و مسلم کی زندگی کا ہر عمل اسی پیمانے پہ جانچا پرکھا ناپا تولا جائے گا. ہر عمل کی کوالٹی، معیار اور وزن کو نیت کی لیبارٹری میں ہی ٹیسٹ کیا جائے گا. جہاں تعداد، مقدار، کی ظاہری کثرت سے سروکار نہیں ہوگا بلکہ عمل کا حقیقی جوہر، اس کا مغز درکار ہوگا. جس طرح کرہ ارضی پہ حیات کے لئے آکسیجن لازمی ہے اسی طرح اعمال کی زندگی کے لیے نیت کا ہونا لازم ہے اور اعمال کی دائمی زندگی اور ان کی نشوونما اور بہتر انجام کے لئے الله کی رضا حاصل کرنے کی نیت ہونا ویسے ہی ضروری ہے جیسے زندہ رہنے کے لئے سانس کی آمدورفت شرط ہے. گویا کہ وہ اعمال جن کو خالص الله کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہ کیا جائے وہ ایک بے جان جسم کی مانند ہوتے ہیں جو نظر تو آتے ہیں مگر بےجان لاشے سے بڑھ کر ان کی اہمیت نہیں ہوتی۔
مسلمان بہت سی باتوں پہ ایمان لاتے ہیں جن میں ایمان بالغیب بھی ہے. کسی دوسرے کی نیت یا قلبی ارادہ بھی وہ پوشیدہ امر ہے جس کے متعلق الله تعالى کے علاوہ کوئ بہتر نہیں جان سکتا. بے شک الله ہی علیم بذات الصدور ہے. انسان صرف اپنی نیت اور دل کےارادے سے واقف تو ہوسکتا ہے مگر اس کے خالص ہونے کا حتمی علم مالک یوم الدین کو ہی ہے.. تو پھرکوئی انسان دوسرے کے دل کا حال یا نیت کے بارے میں کلام کیسے کر سکتا ہے.. ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دوسروں کی نیتوں پہ فتوے جاری کرنے کی بجائے اپنی نیت کو الله کے لئے خالص رکھیں اور اس میں کھوٹ لانے والے عوامل سے دور رہیں۔
نیت میں فتور لانا شیطان کا بنیادی حربہ ہے. وسوسےڈال ڈال کر ریا کے فتنے میں مبتلا کرتا ہے، دنیاوی مفاد اور فخر وغرور کا احساس نیت میں فسا د کا موجب ہوتا ہے۔
نیت کو خالص کیسے رکھا جائے؟
٭ پہلے مرحلے میں الله سبحانه وتعالى سے ایک زندہ دل حاصل کرنے کی التجا کی جائے. اس لئے کہ بقول شاعر
"دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ”
٭ ہر کام کو کرتے ہوئے الله کے قرب کا احساس تازہ کر لیا جائے۔ اس اجر عظیم کا خیال ذہن میں بار بار لایا جائے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کرنا ہے کہ بندوں کی خوشنودی چاہنے سے بندے وہی دیں گے جو بندوں کے اختیار میں ہے اور رب کائنات وہ دے گا جو اس کے اختیار میں ہے۔۔۔
٭ ہر نیک خیال کے آتے ہی یہ دعا بار بار کی جاۓ
(ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ هدیتنا و هب لنا من لدنک رحمہ. انک انت الوهاب )
٭ یہ عادت اختیار کی جائے کہ اپنے ہر چھوٹے بڑے معمولی یا غیر معمولی کام کرنے سے پہلے اور کام کے دوران بھی اپنے آپ سے سوال کیا جائے کہ ہم یہ کام کس لئے کر رہے ہیں؟
٭ دوسروں کی نیت پہ راۓ دینے سے پہلے سوچ لیا جائے کہ دوسروں کی نیتوں پہ شبہ کرنے سے اپنے اعمال کی کوالٹی گر سکتی ہے۔
"اپنی نیت خالص رکھنےکے فائدے "
٭ لوگ کچھ بھی گمان کرتے رہیں اچھی نیت رکھنے والے کو قلب کا سکوں ،مزاج میں ٹھہراؤ، الله کے اور اپنے درمیان ایک ذاتی سے تعلق کا احساس ایمانی حلاوت عطا کرتا ہے کہ "میرے دل کے ارادے کو میں جانتی ہوں اور میرا الله”
ایسے مطمئن دل والے کو ” لا خوف علیهم ولا هم یحزنون” کی بشارت دی جاتی ہے۔ کیونکہ اس کی نیت خالص ہے اب اسے رب جہاں رکھے جس حال میں رکھے۔جو بندے کا کام ہے وہ اس نے کر لیا۔
٭ الله تعالی حسن نیت رکھنے والے کو انجام کار سرخرو کر تا ہے۔ اس کے دفاع کو فرشتے بھیجتا ہے۔ انسانی کمزوریوں کی بناء پہ عمل میں کوئی خطا ہو جائے تو غلطی کو سنوار کر اپنے بندے کا مان بڑهاتا ہے۔
٭ آخرت میں معمولی سے کام کا اجر بھی محفوظ ہوگا اور بے حساب اجر ہوگا۔ جبکہ ریاکار اپنے بڑے بڑے کارناموں کے باوجود عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
٭ یہ خوشخبری ہے ہم سب کے لئے کہ الله رب العزت ہمیں ہمارےچھوٹے چھوٹے اعمال کی نیتوں کی کوالٹی پہ اٹھا ئے گا۔ بے شک دیکھنے والے اعمال کو کسی بھی نظر سے دیکھ رہے ہوں یا دو لوگوں کے اعمال ایک وقت میں ایک دوسرے کی ضد ہوں۔ حتی کہ نیک کام کی نیت بھی کار آمد ہوگی مگر ریا کاری کے ساتھ کیے گئے مشقت بھرے اعمال کے طویل و عریض دفتروں کی تعداد ہونا بھی کچھ فائدہ مند نہ ہوگا۔
اطمینان قلب حاصل کرنے کا ایک ہی اصول کارگر ہے
"اہم اپنی اپنی نیتوں کو کھوٹ سے پاک رکھیں اور دوسروں کی نیتوں پہ شبہات کا اظہار نہ کریں "
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ هدیتنا وهب لنا من لدنک رحمہ.انک انت الوهاب آمین