بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
صحیح مسلم و بخاری کتاب الأدب میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنه سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے کہ "جو الله اور اس کے رسول پہ ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔” امام ترمذی نےصحیح اسناد سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ” کسی آدمی کے اچھا مسلمان ہونے کی نشانی صورت یا شرط یہ ہے کہ وہ لا یعنی باتیں ترک کردے۔” امام ترمزی نے ایک اور حدیث بیان کی ہے کہ” بندہ جب صبح کرتا ہے تو اس کے تمام أعضاء اس کی زبان سے پناہ مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الله سے ڈر ہمارا انجام تیرے ہاتھ میں ہے تُو سیدھی ہے تو ہم سیدھے ہیں تو ٹیڑھی تو ہم ٹیڑھے ہیں۔
پہلی حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے پاس دو ہی انتخاب ہیں کہ وہ زبان سے بھلی بات (أمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ذکر الله نصیحت یاحق کی گواہی) کہے یا پھر خاموش رہے۔ لایعنی باتیں کرنے کی مومن کو اجازت ہی نہیں ہے۔ اور نہ ہی اسے زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی زبان کو غلط استعمال کرے۔ لا یعنی باتیں کیا ہیں؟ ہمیں اس واقعہ سے اندازہ ہوگا کہ زبان کا استعمال کس قدر احتیاط کا متقاضی ہے۔۔۔
"دوائے شا فی” صفحہ 385 میں درج ہے کہ غزوہ احد میں ایک نوجوان شہید ہوگیا اس کی لاش اس حال میں ملی کی بھوک کے مارے پیٹ پہ پتھر بندھا ہوا تھا۔ اس کی ماں نے اسے دیکھا اور اس کے منہ سے مٹی صاف کی اور بولی "بیٹا جنت مبارک ہو۔” تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہیں اس کا حال کیا معلوم؟ شاید اس نے کبھی کوئی غیرضروری بات کی ہو غزوہ احد میں شہید ہونے والا بھی غیرضروری بات کی وجہ سے جنت کی مبارک باد کامستحق نہیں تو ہم اپنے معاملات پہ غور کریں بے مقصد لایعنی غیرضروری باتوں کا تناسب کیا ہے؟ ما یلفظ من قول إلا لدیه رقیب عتید (ق 18)۔
زبان کی حفاظت پہ اس قدر زور دیا گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے ساری برائیوں کی جڑ زبان کا بےجا اورغلط استعمال ہے۔ زبان ہی انسان کا کردار بتاتی ہے۔ اس کی عزت و آبرو کا سارا سامان اسی زبان میں چھپا ہے۔۔۔ ترمزی کی ایک حدیث کے مطابق منہ اور شرم گاہ اکثر لوگوں کو جہنم میں لے جائے گی اسی طرح مزید فرمایا کہ تم زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
گویا دونوں کے ساتھ انسان کی عزت آبرو اور حرمت وابستہ ہے۔ اور حرام کا ہر رستہ زبان سے وابستہ ہے۔ زبان کے غلط استعمال سے انسان کو دونوں جہان کی رسوائی ملتی ہے۔ فساد فی الأرض کی بنیادی وجہ یہی زبان ہے۔ ساری اخلاقی برائیاں اسی سے ظہور پزیر ہوتی ہیں۔۔۔ انسان کے لیے سب سے آسان کام زبان کا استعمال ہے۔ زبان سے جو بات نکل گئی وہ اپنی نہیں رہتی اوراس کے اثرات ضرور ہوتے ہیں۔ اورانسان کو آخرت سے پہلے دنیا میں بھی ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کے دل اور ضمیر کا حال معلوم کرنا ہو تو غصے میں اس کی زبان سے نکلے لفظ اس کا حال بتا دیں گے یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں کہ "قلب دیگچے کی طرح ہے اور زبان اس کا کفگیر ہے” مسند احمد بن حنبل 3:198 کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تک بندے کا قلب درست نہ ہو اس کا ایمان درست نہیں ہوسکتا اور جب تک اس کی زبان درست نہ ہو اس کا قلب درست نہیں ہوسکتا۔ اورتقویٰ کی آماجگاہ دل ہے اوردل کی درستگی زبان کے صحیح استعمال سے مشروط ہے۔ اصلاح قلب مطلوب ہو یا اصلاح معاشرہ دنیا میں امن درکار ہو یا جنت کی تمنا اسی زبان کی مرہون منت ہے۔۔۔
اے الله ہم پہ مہربانی فرما جب تک ہمیں زندہ رکھےاور ہم پہ یہ رحمت فرما کہ ہم ان باتوں اور کاموں میں نہ پڑیں جو بے مقصد اور لا یعنی ہوں اور ہمیں زبان کے فتنوں سے محفوظ رکھیے آمین۔