بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
صحیح مسلم کے الزهد والرقائق باب میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنها سے نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے
"الدنیا سجن المومن و جنة الکافر ۔۔۔”دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔”
اس حدیث مبارکہ میں کافر اور مومن کے انداز فکر کا فرق بتایا گیا ہے۔۔۔ انداز فکر ہی زندگی کا نصب العین متعین کرتا ہے۔ انسان جس مقام پہ رہتا ہے اس جگہ رہنے کی مدت اسے مجبور کرتی ہے کہ اس کے مطابق انتظامات کرے۔ گھر اور بس اسٹاپ میں فرق ہوتا ہے۔ طویل اور مختصر سفر کے الگ تقاضے ہوتے ییں۔ اسی طرح مختلف حالات، مختلف مقامات سے انسان کا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ عقلمند اور ذی شعور انسان اپنے قیام کی مدت اور حالات کو مد نظر رکھتا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اس عارضی قیام گاہ کے بعد مستقل ٹھکانہ کون سا ہے؟ اس کی طرف سے توجہ نہ ہٹے۔ اور جو کچھ سامان منزل پہ کام آئے گا وہ محفوظ بھی رہے۔ اور وہی سامان لیے لیے پھرنے کی مشقت کرے جو منزل پہ کام آنے والا ہے۔
قید خانہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے انسان جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے۔ اپنے گھر بار، دوست احباب کی طرف دھیان اسے مستقل رہتا ہے۔ وقت کی رفتار سست لگتی ہے دل بے چین ہوکر بار بار دن، گھنٹے اور منٹ گنتا ہے۔ اس عارضی مقام کا قیام اس پہ بہت شاق گزرتا ہے۔۔۔ نت نئے لباس، مزےدار کھانے، کھلی آزاد فضا، گھر کا آرام، بے فکری کے شب و روز تو اس قید خانے سے باہر نکل کر ہی میسر ہوسکتے ہیں۔ ان ساری نعمتوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے وہ قید میں کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا جس سے اس کی آزادی میں تاخیر کا اندیشہ ہو۔۔۔ محتاط طریقے سے احکامات کے مطابق زندگی وہی قیدی گزارے گا جس کو واقعی اپنے پرسکوں گھر، محبت کرنے والوں کی محبت کا پورا یقین ہوگا۔ اگر قید اور آزادی میں فرق ہی نہ ہو تو دونوں مقام برابر ہیں۔ سیدنا محمد صلی الله عليه وسلم نے دنیا میں رہنے کے لیے یہ انداز فکر بھی دیا ہے کہ یہاں مسافر کی طرح رہو جو اپنی منزل پہ جاتے ہوئے کسی درخت کے نیچے تھوڑا آرام کرنے کو ٹھہر جاتا ہے۔۔۔ یقیناً ہوشمند مسافر کسی درخت یا سرائے کو اپنا گھر نہیں سمجھا کرتا اس درخت کی گھنی چھا ؤں، سرائے کی کوئی چیز اس کو منزل کی طرف گامزن ہونے سے نہیں روک سکتی۔
نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے خبردار کر دیا تھا کہ میری امت کے لیے مال ومنال ایک فتنہ ہوگا یہی فتنہ اس قید خانے یا سرائے، میں آزادی اور منزل حقیقی کا تصور بھلا دے گا۔ اپنی جان سے زیادہ پیارے نبی کی طرف سے خبردار کیے جانے کے باوجود اس عارضی ٹھکانے کو ہی منزل بنانے میں امت مسلمہ کی کثرت دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ کافر نے تو وہ مزہ چکھا ہی نہیں جو لا اله الا الله کے مشروب میں ہے۔ کافر نے تو اس ابدی گھراورآزادی کا خواب ہی نہیں دیکھا کہ وہ اس کی تعبیر کے لیے کوشش کرے اس کو تو سرائے، بس اسٹاپ، ریلوےاسٹیشن، ائرپورٹ یا کسی مڈوے شاندار ہوٹل سے زیادہ کسی آرام و آسائش کا علم ہی نہیں اسے تو کسی حسین منزل کے وعدے پہ یقین ہی نہیں۔ تو وہ اسی کوہی جنت سمجھے گا مگر توحید کے علمبردار جن سے ایسی نعمتوں بھری جنتوں کا وعدہ کیا گیا ہے جسکو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور ذہن جس کا تصور کرنے سے قاصر ہیں وہ کیوں اس دنیا کے عارضی ٹھکانے پہ ہی رہنے پہ بضد ہیں؟ کیوں ہم اس عارضی ٹھکانے سے چمٹے جارہے ہیں جب کہ الله اور اس کا رسول ہمیں اس سے بے پناہ بہتر کی طرف بلا رہا ہے۔ وہ مقام جہاں محبتیں ہیں، سکون و آرام دائمی ہے۔۔۔
ایک اور نکتہ قابل غور ہے کہ جہنم کی ہولناکیوں کے سامنے یہ دنیا جنت ہی ہے اور کافر کو جنت نہیں ملے گی اس کی جنت یہ دنیا ہی ہے جتنے مزے کرسکتا ہے کرلے۔۔۔ جنت کی بہا ر وں، خوشیوں، نعمتوں کے سامنے یہ ساری دنیا اپنی ہر کشش کے باوجود ایک قید خانہ ہی ہے مومن کی روح بلاوے کی منتظر رہتی ہے کہ کب اس قید خانے سے نکل کر اپنے گھر جائے جہاں اس کا محبوب حقیقی اس کا بے تابی سے منتظر ہے۔
اے الله ہم تیری پناہ میں آنے کی درخواست کرتے ہیں ایسی ہر آرزو سے جو ہمیں اپنی منزل جنت سے غافل کردے اور ایسی ہر ضرورت سے جو ہمیں منزل کا خیال بھلا دے اور ایسے مال و متاع سے جو ہمیں سرکش بنادے۔
اللھم اھدنا الصراط المستقيم آمین