بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمين
مجموعہ احادیث زاد راہ کی حدیث نمبر 109(نسائی)کے مطابق نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” حرص وبخل اور ایمان کسی بندے کے دل میں ہرگز جمع نہیں ہو سکتے۔”
جس طرح کسی مومن کے دل میں الرحمان اور شیطان ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے اسی طرح رحمانی صفات اور شیطانی عادات ایک ساتھ نہیں جمع ہوسکتیں۔ اگر ایمان ہے تو حرص وبخل کی جگہ نہ ہوگی۔ اور اگر کوئی حریص اور بخیل ہے تو وہ ایمان سے محروم ہے۔
حریص کا مطلب ہے اپنی ضرورت اور اپنے حق سے زیادہ حاصل کرنے کی فکر میں مبتلا رہنا اور دوسروں کے حق چھین جھپٹ کر حاصل کرنے کے طریقے سوچتے رہنا۔۔۔اپنے پاس جو کچھ نعمتیں ہیں ان سے راضی نہ رہنا۔۔۔
بخل دل کی تنگی ہے۔ الله کی عطا کردہ نعمتوں میں دوسروں کے حق ادا نہ کرنا۔ وقت پڑنے پر ضرورت مند کی مدد نہ کرنا۔۔۔ گویا حرص اوربخل برائی میں ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔
اگر کوئی مومن ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور یہ دو برائیاں بھی موجود ہیں تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔۔۔ ایمان لانے کا لازمی تقاضا ہے کہ مومن وسیع القلب ہو جائے۔۔۔ جس الله پہ وہ ایمان لایا ہے اس کی شان یہ ہے کہ وہ ساری عظیم الشان کائنات میں کہیں نہیں سماتا مگر مومن کے دل میں سما جاتا ہے۔ جس دل میں الله سبحانه وتعالى کا ڈیرہ ہو اس دل میں حرص بخل کا اندھیرا کیسے ہوسکتا ہے؟اگر دل اس اندھیرے میں ہے تو اس کو الله کے نور سے روشن کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے تنگئ نفس سے پاک کیا جائے۔ دنیا کی حرص ایک ایسی دلدل ہے جس کا انجام سوائے ہلاکت کے کچھ نہیں۔ ہر وہ خواہش جو الله سے دور کردے اور کسی طرح نفس مطمئن نہ ہو حرص ہے۔ حرص کسی نشہ آور شے کی طرح ہے۔ جس کو اس کی لت لگ جائے اس سے نکلنا مشکل امر ہو جاتا ہے۔ مال، اقتدار، عزت شہرت بلا شرکت غیرے ہر شے کا مالک ہونا، ہر انسان کسی نہ کسی شے کی حرص میں مبتلا ہے۔ جو دراصل منافقت کی راہ ہے اور منافق کو کافر سے بھی زیادہ سخت عذاب دیا جائےگا۔۔۔
نفس کی تنگی انسان کو ذہنی ونفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔۔۔ وہ نہ الله سے خوش ہوتا ہے نہ ہی بندوں سے۔۔۔ اس کو جو کچھ حاصل ہے اس سے فیض اٹھا نے لطف اندوز ہونے کی بجائے مزید حاصل کرنے کے عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ زیادہ جمع کرنے کی خواہش اسے بخیل بھی بنا دیتی ہے۔ دوسروں کی ضرورت پوری کرنا تو درکنار وہ اپنی ذات اپنے گھر والوں کے لیے بھی بخیل ہوتا ہے۔
ایمان لانے کا پہلا اثر دل کی کیفیات تبدیل ہونا ہے۔ اورالله تعالى پہ ایمان کا احساس دل میں آسمانوں جیسی وسعت پیدا کر دیتا ہے۔۔۔ اور جس دل کا مالک الله ہو، جس مقام پہ الله موجود ہو وہاں اس کی مخلوق کی گنجائش خودبخود پیدا ہو جاتی ہے جو جہاں رہتا ہے اپنے پیاروں کو بھی ساتھ ہی رکھتا ہے۔ اسی لیے مومن ہونے کی نشانی یہی بتائی گئی کہ اس کے دل میں ایمان ہے تو حرص بخل کی جگہ نہیں ہو سکتی۔ حقوق العباد کی ادائیگی وہی مومن بہتر طریقے سے کر سکتا ہے جس کے دل میں الله کی محبت موجود ہوگی۔ اپنے دل میں الله کی محبت اور ایمان کا پیمانہ جانچنا پرکھنا ہو تو اپنے ان فرائض پہ نگاہ ڈالنی چاہیے جن کا تعلق الله کے بندوں سے ہے۔
اپنی اولاد کے طور اطوار پہ غور کیا جائے اور ان کے دل سے دنیا کی حرص اور بخل جیسی عادت کو دور کرنے کی تربیت کی جائے۔جو باتیں آج معصومیت سمجھ کر نظر انداز کر دی گئیں تو کل یہی تناور درخت کی طرح ہو جائیں گی جن کو جڑ سے اکھاڑنا مشکل ہوگا۔
حرص وبخل منافقت کا راستہ ہے۔ اس نفاق سے بچنے کے لیے انفاق کیا جائے۔ اپنے نفس پہ جبر کرکے دوسروں پہ خرچ کرنے، اپنی نعمتوں میں دوسروں کو شریک کرنے کے لیے، یاد رکھا جائے کہ جو ہمارے پاس رہ گیا وہ فنا ہو جائے گا جو الله کے پاس پہنچایا وہ باقی رہے گا۔ اگر حریص ہونا ہے تو ” باقی رہنے والی چیزوں” کے لیے ہوا جائے (فاستبقو الخیرات)
بخیل ہونا ہے تو برائیوں میں بخیل ہوا جائے۔ برے کام کو کرنے پہ دل تنگ ہو، نیکی کے لیے دل کشادہ ہو۔ دوسروں کی نعمتوں پہ نظر رکھنے کی بجائے دوسروں کو اپنی نعمتوں میں سے دے کر انہیں لازوال کر لینے کی خوشی ہو۔۔۔ دل میں ایک ایسی محفل آباد رہے جہاں الله سبحانه وتعالى اپنے پیاری مخلوق سمیت موجود ہو۔۔۔
اللھم طهر قلوبنا من النفاق وأعمالنا من الریاء و افتح اقفال قلوبنا بذکرک وجنبنا من سیئ الاخلاق۔۔۔آمین