"عدم اعتراف "
تاریخ انسانی میں انسانوں نے جو سب سے بڑاجرم کیا وہ "عدم اعتراف” ہے۔ اور سب سے پہلا جرم الله تعالى کی وحدانیت کا عدم اعتراف ہے۔ الله تعالى کے چنیدہ بندوں کو هادی و راہنما کے طور پہ قبول نہ کرنا بهی انسانی تاریخ کا جرم عظیم رہا۔
مال و دولت، تخت و تاج والوں نے بهلا دیا کہ یہ جاہ و حشم عارضی ہے۔ دنیا کے فانی ہونے اور اعمال کی جواب دہی کا عملا عدم اعتراف ہمیشہ پستی کی دلیل بنا۔۔۔
زندگی سدا ایک جیسی نہیں ہوتی دهوپ چها ؤں گرمی سردی کی طرح رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بهی زندگی کی اٹل حقیقت ہے۔ زندگی اسی سرد و گرم کا نام ہے اورعقل مندی یہ ہے کہ اس کی ناخوش گواریوں کا خوش گواری کے ساتھ سامنا کیا جائے۔
تکلیف، غم، دکھ، پریشانی یا بیماری سے واسطہ پڑے تو جب تک اس حقیقت کا اعتراف نہ کر لیا جائے گا اس سے نپٹنے کا طریقہ کیسے سمجھ آئے گا؟
زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کا سب سے ناقص طریقہ یہ ہے کہ حقارت اور منفی زاویے سے ان کا سامنا کیا جائے۔ زندگی کی ذمہ داریا ں نبهانا ایک مشقت طلب کام ہے جو فرد اپنی ذمہ داری کا اپنے عہدے کا اعتراف سچے دل سے کرتا ہے وہ اس کو احسن طریقے سے نبهانے کا اعتراف بهی کرتا ہے۔ راعی کم رعیت رکهتا ہو یا زیادہ اپنی ڈیوٹی سے انحراف کرتا ہے تو اپنے عہدے سے انصاف کیسے کرے گا اور انصاف نہ کرنے والا ظالم کہلاتا ہے۔ اب ظالم اپنے ظلم کا اعتراف کرے گا تو ہی اس کا ازالہ بهی کرے گا۔۔۔
کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ دوسروں کی قابلیت صلاحیت کا صدق دل سے اعتراف کیا جائے۔ جو لوگ تنگئ نفس سے محفوظ ہیں وہی فلاح پانے والے ہیں۔۔۔ دوسروں کے راستے تنگ کرنے والے، دوسروں کو الله سبحانه وتعالى نے جو کچھ عطا کیا ہے اس کا اعتراف نہ کرنے والے حاسد کہلائے جاتے ہیں۔۔۔ مولانا جلال الدین رومی سے سوال کیا گیا کہ حسد کسے کہتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا
"دوسروں میں خیر و خوبی، نعمت ، کامیابی کو تسلیم نہ کرنے کا نام حسد ہے”، اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے چاہے اس کے لیےنفس پہ جبر ہی کیوں نہ کرنا پڑے تو انسان روحانی ترقی کی معراج پا سکتا ہے۔۔۔
دوسروں کی نعمتوں پہ خوش ہونا، اپنے رب کی تقسیم پہ راضی رہنا ہے اور یہی پختگئ ایمان کی نشانی ہے۔۔۔ اگر انسان خود کو نعمت ملنے پہ تو رب کی تقسیم پہ راضی ہو مگر دوسرے کو ملنے پہ الله کی عطا و بخشش پہ سوال اٹهائے تو اس ذات کے رب العلمین ہونے کا عدم اعتراف ہے۔۔۔
اس فانی دنیا کا ابدی قانون یہ ہے کہ الله تعالی نے انسانوں کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے اور” ایکم احسن عملا” کی مسابقت اس کی بنیاد بنائی ہے۔ سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے نہ ہی سب کے مزاج ایک دوسرے سے مطابقت رکهتے ہیں انسانی معاملات ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہیں جیسے انسان کےجسمانی اعضاء مربوط ہیں۔ مزاجوں اور حالات کے اختلاف کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے لیے باعثِ زحمت بهی ہوجاتے ہیں۔ الله سبحانه وتعالى کی مشیت کے تحت لوگوں کے حالات میں الٹ پهیر بهی ہونا زندگی کی اٹل حقیقت ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کہ اچهے حالات کے ساتھ برے حالات کا سامنا کسی وقت اور کبھی بھی ممکن ہے انسان کو متوازن سوچ کا حامل بناتا ہے۔
نامساعد حالات میں بالغ نظری کا انتخاب معاملات کو درست سمت میں رکهنے میں مددگار ہوتا ہے۔ بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ ناپسندیدہ حالات کے اسباب و علل کا اعتراف کر لیا جائے۔۔۔
سب سے زیادہ اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ تکلیف کیسی بهی ہو ذہنی،جذباتی، معاشرتی یا معاشی اس کا سامنا کرنے میں دوسروں کے قصوروں کے ساتھ ساتھ میری اپنی کیا کوتاہیاں شامل ہیں۔
اپنی کوتاہیوں کو بے ضرر سمجهنا دوسروں کی غلطیوں کا طومار باندهنا دوسروں پہ بے جا غصہ کرنا، سارا ملبہ اوروں پہ ڈالنا نامناسب رویہ ہے۔
معاملہ دو افراد کا ہو دو گروہ کا یا دو قوموں کا منفی ردعمل کبهی مثبت نتائج نہیں لا سکتا۔ ہر دو فریق مخاصمت میں ایک دوسرے کی اچهائیوں پہ پردے ڈال کر برائیوں کا کیچڑ اچها لیں گے تو پهر معاملہ چهوٹا ہو یا بڑا شیطان کے ہاتهوں کهلونا بن جائیں گے۔
” اس دنیا میں غم بهی زندگی کا لازمی حصہ ہے” جو فرد اس کا ادراک کر لیتا ہے وہ غم اور تکلیف کے ساتھ رہنا سیکھ لیتا ہے اس کو کبهی نقصان لاحق ہوتا ہے تو وہ ذہنی توازن برقرار رکهتا ہے اور اس سے اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے سبق حاصل کرتا ہے۔ بڑے سے بڑے نقصان دہ امر کا ادراک کر لینا غم و نقصان کا آدها علاج ہے۔ باقی آدها علاج تدبیر سے ممکن ہوجاتا ہے۔ اس طرح جب اپنی امیدیں پوری نہ ہوں گی توانسان مایوس نہ ہوگا اورفریاد و ماتم نہیں کرےگا اس کا شعوری ایمان اس کا سہارا بن جائے گا۔ اس دنیا میں سب کی امیدیں مختلف ہوتی ہیں اور ایک کی تمنا پورا ہونا بعض اوقات دوسرے کی تمنا کا خون ہوتا ہے۔ اور "تلک الایام نداولها بین الناس ” کا فارمولہ الله تعالى کے ہاتھ میں ہے اور اس کا خالق وہ خود ہی ہے۔ منزل پہ پہنچ جانے سے پہلے سارا سفر جس نہج پہ طے کیا وہ بهی منزل مقصود پہ پہنچ جانے کا ایک حصہ ہے۔۔۔ جنت جیسی منزل تک پہنچنے کا تعین دنیا کے سفر کو طے کرنے کے طریقے پہ منحصر ہے۔۔۔
زندگی کے سفر میں سب کو خوشیوں کا انتظار ہوتا ہے، ان کی تمنا ہوتی ہے ان کے لیے دعائیں ہوتی ہیں، اچهے نصیب کی التجائیں ہوتی ہیں بےشک انسان دائمی خوشی کی طلب کرتا ہےاس لیے کہ دکھ اورغم اس کی لسٹ میں نہیں ہوتے کوئی ان کا انتظار نہیں کرتا، بے شک سکھ من چاہے ہوتے ہیں مگر غم دکھ تکلیف أن چاہے، بن مانگے نصیب ہوتے ہیں اور نصیب سے کوئی لڑ نہیں سکتا۔ اور الله سبحانه وتعالى نے انسان کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ جن کا شمار ممکن نہیں اور انگلیوں پہ گنے جانے والے چند دکهوں کا ذکر ضرور کیا وہ بهی اس لیے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب مزید نعمتیں عطا فرمائے۔ اور کچھ پانے کے لیے کچھ کهونا پڑتا ہے، کچھ خریدنے کے لیے کچھ ادا کرنا پڑتا ہے اور وہ چند دکھ بهی ہر کسی پہ سب ہی ایک وقت میں نہیں نازل ہوجاتے ، کسی وقت ایک غم آیا ہے تو بے شمار نعمتیں موجود بهی ہیں۔ ہر نعمت اور کامیابی کسی مشقت کا ثمر ہوتی ہے۔ اور خالق و مالک کسی پہ اس کی استطاعت سے بڑھ کے امتحان نہیں ڈالتا کہ رحمت اس کا شیوہ ہے۔ دراصل انسان اس کا اعتراف نہیں کرتا کہ یہ امتحان بهی اس رب کی رحمت کا ہی مظهر ہوتے ہیں بهلا بغیر امتحان دیے کون سی ڈگری ملتی ہے؟
عدم اعتراف کا دوسرا پہلو یہ بهی ہے کہ انسان اپنی زندگی میں حاصل خوشیوں، نعمتوں، راحتوں اور محبتوں کا اعتراف نہ کرے، ان گنت نعمتوں کا تذکرہ نہ کرے مگر ایک دکھ پہ واویلا کرے۔ غم بهی جب دائمی خوشیاں حاصل کرنے کا جواز بنائے گئے ہیں تو پهر انسان کس قدر نادان ہے جو کچھ حاصل ہے اس کا نہ اعتراف کرتا ہے نہ قدر، جو ملنے کے بعد چهن گیا اس کا ماتم کنا ں ہے جو کچھ موجود اور باقی ہے اس کی فکر نہیں. (لئن شکرتم لازیدنکم )
زندگی جو گزر گئی اس کا اعتراف کیا جائے کہ زیادہ گزر گئی ہے۔ زیادہ خرچ ہوجانے کا احساس ہوگا تو باقی ماندہ کو سلیقے سے خرچ کرنے کے لیے ہوش حواس بیدار ہوں گے۔ خطاؤں پہ نظر جائے گی تو مغفرت کی طلب بهی ہوگی۔ گناہوں کا عدم اعتراف بهی سزا کی ایک شکل ہے۔۔۔
نقصان، غم، گناہ یا خطاء کا ازالہ کرنا ہو تو اس کے موجود ہونے کا اعتراف کرنا لازمی ہے۔ کسی بهی وحشت کا مقابلہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس حقیقت کو اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے بیماری کا علاج تب ہی ممکن ہے جب اس کا ہونا مان لیا جائے۔ دکھ ہو یا سکھ دونوں کے بارے میں عدم اعتراف زندگی سے توازن ختم کر دیتا ہے۔ نعتموں کا اعتراف شکر کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور دکھ، آزمائش کا اعتراف صبر اور حوصلے کی ردا اوڑھا دیتا ہے۔ انسان کی زندگی میں ان دو پہلوؤں کے علاوہ کوئی تیسرا پہلو نہیں ہے۔
اس میں شکر کا پہلو زیادہ وزن رکهتا ہے کہ نعمتیں اتنی ہیں کہ شمار ممکن نہیں (وإن تعدوا نعمت الله لا تحصوها ) اورغم کی تعداد اتنی کم کہ دو انگلیوں کے خانے بهی زیادہ ہی ہیں۔
ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الأموال والا نفس والثمرات و بشر الصابرين .
الله تعالى ہمیں زندگی میں خوشی وغم کا اعتراف اور سامنا کرنے کے لیے ایمانی شعورعطا فرمائے اور ہمارے گھروں اور دلوں میں سکون نازل فرمائے۔
آمین ۔
اللهم وما زویت عنی مما أحب فاجعله فراغاً لی فی ما تحب یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک
اے الله میری جن پسندیدہ نعمتوں کو تو نے مجھے عطا نہ کرنے میں بہتری سمجهی ہے تو اب ان کے حصول کا خیال بهی میرے دل سے نکال دےاور میرے دل کو اپنے پسندیدہ کاموں میں مشغول کردے۔۔۔ اے دلوں کو پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پہ جمائے
اللھم انی اسالک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی الی حبک آمین
ڈاکٹر بشری تسنیم