ہر قوم وملت، شہر اور خاندان کی قیمتی متاع وہ افراد ہوتے ہیں جو اپنے اخلاق وکردار خلوص و محبت اور انسان دوستی کی بنا پر مثالی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ لوگ نعمت عظمی کے طورپر دنیا میں بھیجے جاتے ہیں۔ کسی بھی قوم اور کسی بھی خاندان اور قبیلے کو اللہ تعالیٰ نے تہی دامن نہیں رکھا ۔ حکمت و دانش کا کوئی نہ کوئی نمونہ ہمیں انسانوں کے ہر گروہ میں مل جاتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ قومیں، شہر،محلے اور خاندان جہاں سیرت و کردار کے روشن مینار موجود ہوتے ہیں۔
میں نے اپنی زندگی میں جن لوگوں کونمونے کا انسان پایا،ان میں تایا جی محمد صادق چودھری المعروف لالہ صحرائی بھی شامل ہیں۔ ہماری زبانوں پر’’تایا جی‘‘ کا لفظ اس وقت سے ادا ہورہا ہے جب سے ہم نے رشتوں کی پہچان کرنا سیکھی۔ ابی جان کے ساتھ ان کی گہری یاری تھی۔ باہم مشورے کی خاطر میں نے اکثر دونوں کو بیٹھک میں دیکھا۔ نجی معاملات ہوں، جہانیاں شہر کا کوئی مسئلہ ہو، مسائل ملکی، بین الاقوامی تحریکی ہوں یا کوئی خاص خبر ہو یابدلتی سیاست غرض ہر موضوع زیر بحث آتا٦۵ء کی جنگ میں حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنے کی خاطر شام کو ابی جان کے ساتھ بیٹھک میں بیٹھے رہنے کا ہلکا سا خاکہ ذہن میں آتا ہے۔’’بلیک آئوٹ‘‘ جنگ کا تصور، بند کمرے سے ہلکی آواز میں ریڈیو سے خبریں سننے اور سرگوشیوں جیسی آواز میں باتیں ہم بچوں کے لئے بہت پراسرار اور خوفناک سی ہوتی تھیں۔ سرشام ہی آدھی رات کا گمان ہوتا۔ دروازے پرہلکی سی دستک ہوتی(شاہدہ کوثر چھوٹی بہن صادق صاحب کو ’’سابق صاد‘‘ کہا کرتی تھی۔ اس کے اس طرح کے بہت سے الفاظ محظوظ کرتے تھے) تایا جی’’سابق صاد‘‘ آئے ہیں۔ وہ باہر جھانک کر آتی اور ابی جان بے اختیار بیٹھک کادروازہ کھول دیتے اور پھر دونوں کی ہلکی ہلکی آوازوں میں گفتگو جاری رہتی۔
اسی زمانے میں تایا جی سے میری دوستی پکی ہوئی۔ چائے پانی کی ترسیل کرتے ہوئے ہم بچوں سے بھی کوئی نہ کوئی بات کرلیتے تھے۔ وہ دن میرے لئے بہت اداسی کا تھا جب مجھے علم ہوا کہ تایا جی ابی جان کے منہ بولے بھائی تحریکی ساتھی ہیں، سگے بھائی نہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادراک گہرا ہوتا گیاکہ دینی تحریکی بھائی کارشتہ خونی رشتے سے کم نہیں ہوتا اور اس کی بنیاد بھی پائیدار ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ خوبصورت روایت کہ احباب کی اولادیں اپنی اولادوں کی طرح ہی عزیز ہوتی ہیں۔ خصوصا بیٹیاں…
کیا بھلا دور تھاکہ گلی محلہ سب ایک ہی خاندان محسوس ہوتا تھا۔ ہماری نانی اماں ذکر کیا کرتی تھیں کہ پورا گائوں ایک ہی گھرانے کی طرح ہوتا تھا اور بہو بیٹیاں ہر ایک کے لئے اپنی بہو بیٹی کی طرح قابل احترام اورباعث عزت سمجھی جاتی تھیں۔
حقوق و فرائض سے نابلد یہ معاشرہ اب کہاں سے یہ نمونے لائے؟ تایا جی سے ہر ملاقات علم و دانش کے دریا سے موتی چن لینے کا باعث ہوتی تھی۔
تایاجی جب پہلا حج کرنے گئے تو وہاں سے والد محترم ، والدہ محترمہ کوخط لکھا اور میرے نام بھی بہت شفقت بھرا دعائوں سے مزین نامہ موجود تھا۔ ہمارے گھر کے شادی بیاہ کا معاملہ، رشتوں کا انتخاب ،
بچوں کی تعلیم و دیگرنجی کاروباری معاملات سب میں تایا جی کامشورہ شامل ہوتا تھا۔ میرے نکاح نامے پر تایاجی کا نام بطور گواہ ثبت ہے۔ میرے شوہر خواجہ مجاہد الرحمن سے وہ خصوصی انس رکھتے تھے۔ ملاقات کے لئے ہم دونوں جاتے تو بہت آو بھگت کرتے رہتے۔ عجز و انکسار اور تواضع ان کاخاصہ تھا۔ آواز کا دھیما پن اورلب و لہجے کی سلاست کے ساتھ ناصحانہ انداز مجھے بہت بھلا لگتا تھا۔
ہمارے سعودیہ قیام کے دوران جب وہ طائف اپنے بیٹوں کے پاس تشریف لائے تو ان کی کمال شفقت تھی کہ دو دن میرے پاس بھی جدہ میں ٹھہرے۔ بچوں کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا۔ ان سے باتیں کرتے ہوئے بہت حکمت سے نصیحت کرنے کا ملکہ اس وقت ہی دیکھا۔ مطالعہ کرتے رہتے اور کوئی خاص نکتہ، خاص بات مجھے بھی بتاتے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت کا اعجاز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کومدحت رسولؐ کے لئے چن لیا۔ نثر اور ترجمے کا کمال تو ہم نے دیکھ رکھا تھا۔ جب نعت کے چشمے ابل ابل کر قارئین کوحیرت زدہ کررہے تھے تو انہوں نے ہر کتاب مجھے اور میرے شوہر کے نام علیحدہ کررکھی تھی۔ جب پاکستان آنا ہوتا تو ہمارے لئے محفوظ اپنی نعتبہ کتب ہمیں عطا کردیتے۔
جب ہم مستقل پاکستان شفٹ ہوئے تو تایا جی ابی جان کے گھر کے سامنے والے گھرمیں شفٹ ہوچکے تھے۔پہلے تو درمیان میں دو گھرکا فاصلہ تھا مگر اب تو چار قدم درمیان میں تھے۔جب بھی ملتان سے جہانیاں جانا ہوتا تو پہلے تایا جی کا گھر پڑتا تھا۔اکثر ان سے پہلے ملنے چلی جاتی۔ بہت خوش ہوتے تائی جان بھی خوشی کا اظہار کرتیں۔’’حریم ادب پاکستان‘‘ کے زیراہتمام مریم مجلہ کااجرا ہوا تو بطور ایڈیٹر مجھ پر اس کی ذمہ داری تھی۔تایا جی کے مشوروں نے کام بہت آسان کردیا۔ پرچہ جب شائع ہواتو سب سے پہلے ان کی خدمت میں پیش کیا۔ بہت حوصلہ افزائی کی، شاباش دی اور کہنے لگے
’’مجھے نہیں امید تھی کہ تم اتنا اچھا مجلہ تیار کرلو گی‘‘۔
قلم سے تھوڑا بہت جو تعلق ہے، اس میں بہت سے بزرگوں کی شفقت کے علاوہ تایاجی کا گراں قدر حصہ بھی شامل ہے۔ ان شاء اللہ سب اس سعی وجہد(جوکہ اگرچہ حقیر سی ہے) میں برابرکے حق دار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں والدین، بزرگوں، استادوں کے لئے صدقہ جاریہ بنادے۔ آمین۔
کبھی کبھار کسی کتاب،مضمون کا تذکرہ یا کوئی ایسا موضوع چھڑ جاتا جس کی طوالت بڑھتی جاتی تو میری امی جان بچوں کو بھیجی تھیں کہ ’’اب ہم سے بھی آکرمل لو‘‘۔ تایا جی تعجب کرتے ہوئے مجھے جانے کی اجازت دے دیتے تھے۔ طبیعت کی خرابی یا اپنے آرام کے وقت بھی ہمیں ضرور وقت دیتے،مروت لحاظ اور رواداری کے یہ نمونے آج کل خال خال ہی ملتے ہیں۔
آخری ملاقات میں مجھے اپنی نعتیہ کتابیں دیتے ہوئے کہا:
’’ان کو بس پڑھنا ہی نہیں بلکہ تبصرہ کرکے لانا ہے۔یہ تمہارا ہوم ورک ہے اور یہ کام تم نے کرکے لانا ہے‘‘۔
میں نے اپنی کم مایگی کااظہار کرتے ہوئے کتابیں پکڑ لیں۔،
وہ سخت حبس اور گرمی کے دن تھے۔ تایا جی کی طبیعت خاصی خراب چل رہی تھی۔ محبت کرنے والے جتنی بھی کوششیں اور دعائیں کرلیں۔ جانے والے اپنے وقت مقررہ پہ چلے جاتے ہیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
مجھے اس دست شفقت کی محرومی کااحساس کبھی نہ بھولے گا۔ میرا’’ہوم ورک‘‘ابھی تک نامکمل ہے اور وہ اپنا ’’ہوم ورک‘‘ لے کر رب کے حضور پہنچ گئے۔ ابی جان کی دنیا سے رخصتی کے بعد ان کے دست شفقت سے محرومی کا احساس مزید گہرا ہوگیا ہے۔ ابی جان کا تصور آتاہے تو تایاجی بھی ساتھ چلے آتے ہیں۔ مسجد حقانی سے نماز کی ادائیگی کے بعد دونوں ایک ساتھ چلے آرہے ہیں۔ ململ کا سفید کرتا پہنے اور چارخانہ تہ بند کے ساتھ کبھی شلوار قمیض میں۔ دونوں میں تحریک، اللہ کی راہ میں جدوجہد کا جذبہ، مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ سے عشق،وطن اور امت مسلمہ کے بارے میں فکر مندی مشترکہ جذبے تھے۔مولانا سے محبت کا یہ عالم تھا کہ تایاجی نے وہ کرسی محبت و عقیدت سے سنبھال رکھی تھی جس پر مولانا جہانیاں آکر تشریف فرما ہوئے تھے۔ ہمیں وہ کرسی خاص طورپر دکھائی اور اپنی محبت کا احساس دلایا۔
تایا جی دوسروں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے،خوابیدہ جذبوں کو مہمیز لگاتے، اللہ کی راہ میں کام کرنے کاحوصلہ دلاتے، کمزوریوں کورفع کرنے کے گُر سکھاتے، مخاطب کی رائے لینے پر اصرار کرتے۔
’’ہاں!بیٹا!آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘
’’بھلا ہماری کیا رائے ہوسکتی ہے؟‘‘
ہم میں سے کوئی کہتا تو بات کرنے کا حوصلہ دلاتے۔ہماری بیٹی نویرہ کو کہانی نویسی کے مقابلے میں دعوۃ اکیڈمی کی طرف سے اوّل انعام ملا تو اس کو بہت سراہا اوراپنے ہاتھ سے دعائیں لکھ کر اسے کتاب انعام میں دی۔ بچوں سے گفتگو کرتے تو بچوں کو احساس نہ ہونے دیتے کہ وہ ان سے بڑی عمر کے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے لئے نعتوں کا مجموعہ ہمارے ہر بچے کو دیا۔
اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے،لغزشوں سے درگزرفرمائے اور ہمیں اور ان کی اولاد کو ان کے مشن پر قائم رکھے اور ان کے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین۔