سیداسعد گیلانی کی دعا اور دوا

اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے اپنے محبوب نبی محمد ﷺ کے پیروکاروں میں شامل کیا اور الحمدللہ، تحدیث نعمت کے طور پر اظہار کرتی ہوں کہ یہ ناچیز ان خوش قسمت بچوں میں شامل ہیں جن کو اپنے والدین، بزرگوں اور اپنے بزرگوں کے حلقہ احباب کی خصوصی شفقت، محبت، خلوص اور توجہ حاصل رہی ہے۔ میری تربیت اور صلاحیتوں کے نکھار میں ہر بزرگ نے اپنا کردار کما حقہ ادا کیا۔ جس کے لئے میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی شکرگزار ہوں اور اپنے بزرگوں کی بلندی درجات کے لئے دعا گو رہتی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ان شفقتوں، عنایتوں، توجہ،

خلوص، محبت اور پیار کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجرعظیم و کثیر سے نوازے۔ آمین۔
مولانا مودودی کی برپا کی ہوئی تحریک جس کے بنیادی ارکان میں ہمارے بزرگ بھی شامل تھے، ہماری روزمرہ زندگی میں معمول کی مصروفیات کا ایک حصہ تھی۔ ہمارے شب و روز کے اوقات کارمیں تحریک کا حصہ ہمیشہ ایک لازمی امر رہا اور یہ یقینی بات ہے کہ والدین کے تحریکی ساتھی ہمارے لئے والدین ہی کی طرح قابل احترام تھے، نہ وہ ہمارے اجنبی تھے اور نہ ہم کسی کے لئے ناآشنا۔ برسوں میں کبھی ایک آدھ ملاقات یا جھلک بھی اجنبیت کی دیوار حائل نہ ہونے دیتی تھی۔ جماعت اسلامی کے ہر بڑے رہنما سے اسی طرح انسیت ہوجاتی تھی جیسے اپنے خاندان کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ بلاشبہ دین کا رشتہ سب سے مضبوط پائیدار اورسدابہار رشتہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی قائم ودائم،اس کا دین زندہ اور اس کے دائرے میں آ جانے والے اور اسی ناطے سے تعلق رکھنے والے بھی،سدا بہار تعلق کے حامل، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور مضبوط و محترم، ام زبیر مرحومہ اور محترمہ نیربانوصاحبہ کی شفقت اور حوصلہ افزائی پیار بھری نمائش نے مجھے سعودی عرب سے واپس آنے پر قلم و کاغذ کے ساتھ منسلک کردیا۔ جس طرح کسی بھی فصل کو مناسب آب وہوا، نگہبانی، موافق ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی طرح لفظوں کی کھیتی کو بار آور ہونے کے لئے موافق حلقۂ ذوق، حوصلہ افزائی اور نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ناموافق ماحول اور بیمار ذہنیت کی تنقید ہرانسان کی مثبت صلاحیت کو ثمر بار ہونے سے روکتی ہے۔ لاہور کے ’’حریم ادب‘‘ میں محترمہ بنت مجتبیٰ مینا کی پیاری حوصلہ افزائی اور باذوق بہنوں کی معیت خصوصا محترمہ نیر بانو اور ام زبیر مرحومہ کی خصوصی شفقت نے میرے لفظوں کی کھیتی کو بہاروں کا راستہ دکھایا۔
اس کے ساتھ ہی ایک ایسے بزرگ کا تذکرہ کرنا ضروری اور بے حد ضروری ہے جن کی دعا اور دوا نے مجھے قلم و کاغذ کے رشتے سے دوبارہ جوڑ دیا۔ وہ شخصیت جو ہر نکمے سے نکمے انسان کو بھی بہت کارآمد، باصلاحیت، لائق اور قابل مانتی تھی اور دوسرے کو بھی قائل کرلیتی تھی کہ ’’ وہ ہے کسی قابل، کرسکتا ہے اس دنیا میں بہت اچھے کام‘‘جی ہاں! وہ تھے جناب سیداسعد گیلانی۔ا للہ تعالیٰ ان کو اپنی خصوصی سایۂ رحمت میں رکھے، آمین۔
غالبا ۱۹۹۰ء کی بات ہے، بیگم اسعد گیلانی شعبہ نشرواشاعت حلقہ خواتین صوبہ پنجاب کی ناظمہ مقرر ہوئیں اور مجھے ان کی معاونت کے طورپر کام کرنے کا موقع ملا۔ ہم نے طے کیا کہ ہفتے میں دوبارملاقات کیا کریں گے۔ چنانچہ ہفتے میں دو دن یہ ناچیز ان کے دولت کدے پر صبح نو دس بجے منصورہ چلی جاتی اور دوپہر تک ہم لکھنے لکھانے کا کام، سرکلر اور رپورٹوں وغیرہ کا جائزہ لیتی رہتیں۔ میری کبھی اسعد گیلانی مرحوم سے براہ راست سلام مسنون کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوئی تھی لیکن بیگم صاحبہ کے ذریعے سے ان کی طرف سے حوصلہ افزائی موصول ہوتی رہتی تھی۔ وہ اکثر برآمدے میں تشریف فرما ہوتے۔ بیگم اسعد خود بے حد ملنسار،خوش مزاج مہمان نواز ہیں۔ میں جب بھی ان کے ہاں جاتی، بیگم اسعد کا اکثروبیشتر کھانا کھلا کر بھیجنا یاد ہے۔’’بشریٰ کھانا کھا کر جائیں
۔میں انکار کرتی تو بڑے مان سے کہا جاتا کہ بھئی اسعد صاحب نے کہا ہے اب تو میں کھلاکر ہی بھیجوں گی، ان کی حکم عدولی نہیں ہوسکتی۔۔کبھی کہتیں اب تو چائے پینی پڑے گی،اسعد صاحب کا حکم ہے چائے پی کر ہی جائیں بشریٰ ۔
اسعد گیلانی مرحوم نے مجھے دوبارہ تعلیم کی طرف راغب کیا۔ لکھنے کی طرف عملاً یوں مائل کیا کہ ہفتے میں دو بار ان کے ہاں حاضر ہوتی تو ضرور پوچھتے آج کیا لکھ کر گئی ہیں؟ اور ترغیب دلاتے کہ یہاں بیٹھ کر ضرور لکھ لینا چاہیے۔اپنے گھرمیں تو اور بہت سے کام ہوتے ہیں۔ اسعد گیلانی تعلیم کی طرف بھی توجہ دلاتے رہتے تھے‘‘۔’’بھئی! میں اس عمر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے سکتا ہوں، بشریٰ کیوں نہیں لے سکتی؟‘‘۔
چنانچہ میں نے اپنی ادھوری تعلیم کی طرف توجہ دینی شروع کی اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ، اسعد گیلانی مرحوم کی دعاخواہش اور حوصلہ افزائی مجھے اس مقام تک ضرور پہنچائے گی۔
ایک مرتبہ بیگم اسعد نے بتایا کہ اسعد گیلانی ہومیو ڈاکٹر بھی ہیں، کچھ اس طرف آپ بھی توجہ کریں۔ مجھے بات بہت پسند آئی۔ میرا رجحان بھی اس تعلیم کی طرف ہو گیا اور الحمد للہ اس میں کامیاب بھی ہوئی۔
اسعد گیلانی مرحوم نے خصوصی طورپر مجھ سے میری شائع شدہ کہانیوں کو منگوایا۔ان کی خود فوٹوکاپی کروا کر فائل بنائی۔ ایک مجھے دی اور ایک خود اپنے پاس رکھی کہ میں اپنے ادارے سے اس کو کتابی شکل دوں گا۔ مجھے کبھی اس بات کا خیال تک نہ آیا تھا اور نہ میں نے کبھی اپنی کہانیوں کو اس قابل سمجھاتھا۔ان کی طرف سے اتنی ساری شفقت سے میں بہت متاثر ہوئی۔ میرے بچے نویرہ رحمان، فائزہ رحمان، واصف رحمان منصورہ سکول میں پڑھتے تھے۔ جس دن میں ان کے ہاں ہوتی، وہ تینوں سکول سے ادھر ہی آجاتے۔اسعد مرحوم تینوں سے مل کر بہت خوش ہوتے۔ خاص طورپر واصف سے بہت خوش ہوتے تھے۔بہت اچھے بچے ہیں۔بڑے تپاک سے سلام کرتے ہیں اور واصف تو دور سے دیکھ کر بھاگ کر آتا ہے اور سلام کرتا ہے۔ بیگم اسعد مجھے بتاتیں کہ اسعد گیلانی آپ کے بچوں کو مل کر بہت خوش ہوتے ہیں اور میرا دل بھی ،خوش ہو جاتا ہے۔
عید کی چھٹیوں میں ہم لاہور سے ملتان گئے ہوئے تھے کہ ٹی وی پر ان کے انتقال کی خبر سنی۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ اچانک چلے گئے۔ جانا تو سبھی کو ہے، مگر کچھ لوگوں کی ضرورت تو دنیا کو کچھ زیادہ ہی رہتی ہے۔ ان کے دم سے کتنے کمزور نحیف لوگ میدان عمل میں خود کوقوی، مضبوط اور توانامحسوس کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں اللہ ہی جانے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا پر راضی رکھے اور اپنے نیک بندوں کی راہ پر چلائے۔
عید کی چھٹیاں گزار کر واپس آئے۔ میں اسعد گیلانی مرحوم کے گھر گئی اس گھر میں پہلے بھی کچھ زیادہ افراد نہ تھے، فقط دونوں میاں بیوی ’’دوش بدوش‘‘ ایک دوسرے کی رفاقت کا حق ادا کرتے تھے، مگر اب وہ گھر کچھ زیادہ اکیلے پن کے احساس میں لپٹا ہوا تھا۔
ان کی ’’دوش بدوش‘‘ رفاقت نے کتنے ہی نئے جوڑوں کو حق کی راہ پر چلنے کے لئے روشنی عطا کی۔ واقعی’’دوش بدوش‘‘میں ان کی تحریروں میں نغمگی، خوش ذوقی، پاکیزگی اور مقصدیت پائی جاتی ہے۔ان کی عملی زندگی کو بھی ویسا ہی پایا۔ حسن، توازن کا نام ہے۔ ان میاں بیوی کی زندگی حسن کا نمونہ تھی۔ جب منزل ایک ہو،نظریاتی ہم آہنگی ہو، دلوں کے ساتھ قدم بھی ملے ہوئے ہوں تو زندگی کے ساتھی مثالی زندگی کے حامل ہوجاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اسعد گیلانی کو غریق رحمت کرے۔ ان کی نیکیوں کو اتنا بڑھاکراجردے،جتنا کوئی پیمانہ خود اللہ کے اپنے علم میں ہے۔ آمین۔
ان کی وفات کے کچھ دن بعد بیگم اسعد نے وہ کہانیوں والی فائل مجھے واپس کردی یہ کہہ کر کہ ’’جنہوں نے اس کام کاوعدہ کیا تھا، ان کے ساتھ تواللہ کاوعدہ پورا ہو گیا ہے۔ اب ادارے میں کسی کو کتاب شائع کرنے کے بارے میں وعدہ نہ یاد ہوگا نہ اس کاعلم ہو گا‘‘۔ فائل پر اسعد گیلانی مرحوم کے ہاتھ کا نوٹ لکھا ہوا تھا۔ پھر وہ کتاب منشورات لاہور سے شائع ہوئی۔
ہر انسان کسی نہ کسی عمل میں مصروف ہے۔بہت خوش قسمت ہیں جو اپنے اعمال کو خیر کے پلڑے میں ڈالتے ہیں اور اپنے اعمال کی شمع سے دوسروں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ کبھی وہ عمل تحریر ہوتا ہے کبھی حوصلہ افزائی۔کبھی نیکی کی طرف تعاون، کبھی زبان سے، کبھی دولت خرچ کرکے اور کبھی اپنا وقت صرف کرکے۔اللہ تعالیٰ ان نیک لوگوں کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں دنیا و آخرت میں نیک لوگوں کی رفاقت نصیب فرمائے۔آمین۔

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s