عندلیبِ باغ حجاز

ان کی آنکھوں میں خواب صاف نظر آتے تھے اور ان کے ارادوں میں خوابوں کی تعبیریں نظر آتی تھیں۔
اس دن صبح سویرے موبائل کی بیپ نے متوجہ کیا۔ممانی جان کا موبائل کی سکرین پر دیکھ کر بے تابانہ اسے کان پر لگاتے ہوئے ذہن میں خیال آرہا تھا کہ ابھی پرسوں ہی تو بات ہوئی ہے ان سے، اللہ کرے خیریت ہو۔سلام دعا کے بعد انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ یکدم سارے حواس ہوشیار ہو گئے۔ اسی طرح جیسے انسان اپنے اوپر گرتی دیوار کو دیکھتا ہے یا ایک گہرے دریا کو عبور کرنے کے لئے ہمت جمع کرتا ہے۔مگر اندر ہی اندر خوف اس پر لرزہ بھی طاری کر دیتا ہے۔
’’بشریٰ!پتہ چلا؟‘‘ان کے لہجے میں غم کی آمیزش تھی۔
’’کیا؟‘‘میری آواز میں لرزش مجھے خود محسوس ہورہی تھی۔
’’رات قاضی صاحب کا انتقال ہوگیا۔‘‘
’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘۔
شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
دل میں اداسی نے ڈیرے ڈال لئے۔ابھی پروفیسر غفوراحمد کا غم تازہ تھا۔موت کا دن معین ہے۔سب کی منزل وہی ہے جہاں سب ایک کے بعد ایک پہنچتے جارہے ہیں۔مگر انسان اپنے پیاروں کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ ابھی چلے جائیں گے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ موت برحق ہے اور اس کا وقت کسی کو معلوم نہیں تو جب اللہ نے چاہا اسے بلالیا۔ پھر بھی انسان کے لئے اپنے پیاروں کی جدائی کو برداشت کرنا ایک مشکل امر ہے۔قاضی صاحب کا چلے جاناایسا ہی لگا۔
بچے اپنے ماں باپ کے بارے میں بہت یقین رکھتے ہیں ک ان کو’’کچھ نہیں ہوسکتا‘‘۔جب ماں بستر پر لیٹی ہو اور گھرمیں چلتی پھرتی نظر نہ آئے تو معصوم بچے بہت پریشان ہوتے ہیں کہ یہ منظران کے لئے اجنبی ہوتا ہے۔اسی طرح باپ کمزور، ناتواں اور بچوں کو چھوڑ کر چلا جائے، تو اولاد کو یقین کرنامشکل لگتاہے۔ماں باپ جتنے بھی ضعیف، بیمار اور بوڑھے ہو جائیں، اولاد ان کی موت کا سامنا کرنے سے آنکھیں چراتی ہے۔بچپن سے لاشعور میں بیٹھے اس یقین کو ٹھیس پہنچانا کسی کو منظور نہیں ہوتا کہ ’’ماں باپ کو کچھ نہیں ہوسکتا‘‘…البتہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ اندازِ فکر میں بس اتنی تبدیلی آتی ہے کہ ۔
’’اللہ کرے ماں باپ کو کچھ نہ ہو‘‘۔
تھوڑا عرصہ پہلے قاضی صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا تو دل کی گہرائیوں سے یہی دعا نکلتی رہی کہ
’’اللہ کرے قاضی صاحب کو کچھ نہ ہو‘‘۔
تحریک سے تعلق ومحبت کا یہ عظیم اور عجیب اعجاز ہے کہ ہر امیر جماعت بالکل اپنے گھر کا فرد محسوس ہوتا ہے۔…بالکل اپنے باپ کی طرح! مولانا مودودیؒ جن کے لئے صرف ’’مولانا‘‘ کہہ دینا کافی ہے اور گویاکہ یہ لفظ کسی اور جچتا ہی نہ تھا۔ میاں طفیل محمدؒ’’میاں صاحب‘‘ کہ یہ لفظ ہی پہچان کو کافی تھا…اور اب’’قاضی صاحب‘‘لگتا تھا دنیا میں بس ایک ہی قاضی ہے اور وہ ’’قاضی صاحب‘‘ ہیں۔
’’قاضی صاحب‘‘کا نام میں نے پہلی بار ان کے امیر جماعت منتخب ہونے کے بعد ہی سنا…ہم ان دنوں جدہ میں تھے۔ان دنوں وہاں کی تحریکی ذمہ داری اس ناچیز کے سپرد تھی۔قاضی صاحب سعودیہ آئے ہوئے تھے۔ امیر منتخب ہونے کے بعد ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام ہماری پیاری بہن عالیہ بدر(اللہ ان کی مغفرت فرمائے) کے ہاں کیا گیا۔
خواتین نے ان سے بہت سے سوال کئے۔ آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں، پردہ، عورتوں کی ملازمت وغیرہ کے بارے میں ان کے جچے تلے لبرل خیالات سے کچھ خواتین خوش ہوئیں اور دوچارنے عدم اطمینان کااظہار بھی کیا…سوال در سوال کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ پشتو لہجے میں اردو بولتے ہوئے ان کے عزم اور ارادے بہت بھلے معلوم ہورہے تھے۔ان کی آواز سے اک نیا جوش اور ولولہ دلوں میں محسوس ہورہا تھا۔’’قاضی صاحب‘‘ کی شخصیت کے ساتھ، کچھ ایسا احساس ہمیشہ جاری رہا کہ’’پرعزم، پریقین‘‘ اور علامہ اقبال کی شاعری کو پڑھتے ہوئے مرد مومن کا خاکہ بنتاتو قاضی صاحب کی شبیہ ابھرآتی۔
ہو حلقہِ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
۸۸ء کے رمضان المبارک میں قاضی صاحب حرم مکہ میں اعتکاف نشین ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کی خدمت کا موقع نصیب ہوا۔ محترم بھائی نواز خان صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ گل فرین صاحبہ بھی اعتکاف میں تھیں اور ان کا گھر ہمارے تصرف میں تھا۔اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ عمرہ کرنے والوں اور حاجیوں کے لئے ان کا گھر’’سب کا گھر‘‘ ہوتا تھا۔
ان کے ہاں بہن زینت صدیقی رحمھا اللہ اور بہن صبیحہ شاہد رحمان اللہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ میرے لئے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ حرم شریف مکہ میں اعتکاف بیٹھے اپنے امیر جماعت کے لئے افطاری اور خوردونوش کا انتظام میرے اور زینت بہن کے حصے میں آیا۔ہم نے رمضان المبارک کے آخری چند دن گلفرین بہن کے گھر ڈیرے ڈال لئے تھے وہ بھی اعتکاف میں تھیں۔
قاضی صاحب اور سب کے لئے کھانا میری دونوں بیٹیاں نویرہ رحمان اور فائزہ رحمان، گلفرین کی بیٹی ماریہ نواز کے ساتھ لے کر جاتیں اور میرا منا سا بیٹا واصف بھی ساتھ ہی جاتا۔ قاضی صاحب کی محبت، شفقت اور دعائیں ہم سب کے لئے سرمایۂ افتخار ہیں۔ چاروں بچے واپس آکر خوش خوش ان سے ہاتھ ملانے،بات کرنے اور گود میں بیٹھنے کا تذکرہ کرتے۔
افطاری کے وقت کی گئی دعائیں ضرورقبول ہوتی ہیں اور ہم ان دعائوں پہ ’’آمین‘‘ کہہ کر مہر قبولیت لگواتے رہتے۔
’’کاروان دعوت و محبت‘‘ نے پوری تحریک میں ایک جان ڈال دی تھی۔ جوش، ولولہ جس میں رقت بھی ہو… ایک ہیجان بھری کیفیت، جیسے سویا ہوا جاگ جائے، جاگا ہوا اٹھ کر بیٹھ جائے اور بیٹھنے والا اپنے بیٹھ رہنے پہ شرمندہ ہو اور برق رفتار ہوجائے۔ ان دنوں ہم اگرگاڑی میں ہیں تو کاروان دعوت و محبت کرترانے لازمی سنتے ۔گھروں میں ویڈیو کیسٹ لگا کر ’’کاروان دعوت ومحبت‘‘ کے مناظر سے لہو گرمارہے ہیں۔ لگتا تھا اب ’’دعوت و محبت‘‘ کاکلچر عام ہونے لگا ہے۔ جوش، ولولے اور جذبات کی حدت سے دل پگھلنے لگتا اور آنکھیں، موتی ٹپکانے لگتیں۔ جیسے شمع جلتی ہے تو قطرہ قطرہ آنسو کی شکل میں اپنی حدت کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ نوجوانوں کاجوش نعروں کے ذریعے آتش فشاں نظر آتا تھا۔
ہم بیٹے کس کے … قاضی کے !
پروانے کس کے … قاضی کے !
جوان اور جوشیلے خون کو ایک رہنما چاہیے تھا۔ ایک سمت کا تعین چاہیے تھا۔ سپاہیانہ جلال اور درویشانہ رعب ودبدبہ درکار تھا۔ قاضی صاحب کی ظاہری شخصیت ان کے باطن کی آئینہ دار تھی۔ دونوں میں تضاد نہ تھا۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں
ہر امیر جماعت اپنی خوبیوں کے ساتھ اس موجودہ وقت کے لئے موزوں ہوتا ہے اور یہ وقت تھا دھیمی، خاموش قیادت کے بعد جوش اور رعب والی قیادت کا … کیونکہ جماعت پہ اللہ کا ہاتھ ہوتاہے، اللہ ہی کی مرضی سے منصب ملتا ہے اپنی خواہش سے نہیں۔
جب ہم پاکستان آکر اتفاق ٹائون میں رہائش پذیر ہوئے تو تقریبا روزانہ منصورہ جانا ہوتا تھا…کسی پروگرام سے واپسی پر، اکثر قاضی صاحب کے دولت کدہ پہ حاضری دینے چلے جاتے۔ ارکان کے اجلاس کے بعد بیگم قاضی، کبھی خود ہی اصرار کرکے لے جاتیں۔ ساتھ والی بلڈنگ میں چچا جان عبدالوکیل علوی رحمہ اللہ کا فلیٹ تھا ان سے ملنے آنا ہوتا تو بھی قاضی صاحب کے گھر ضرور حاضری لگ جاتی۔

بیگم قاضی کی محبت اور شفقت بھی میرے لیے باعث اعزاز ہے اور ہر ملاقات پہ اس کا احساس فزوں تر ہوجاتا ہے۔ سمیحہ بہن کا ہر ملاقات پہ اظہار کرنا کہ آغا جان آپ کی رمضان المبارک میں خدمت کو بہت یاد کرتے تھے تو میں شرمندگی کے ساتھ فخر بھی محسوس کرتی ہوں اور سوچتی ہوں کھلے دل سے معمولی بات کو اہم بنا دینا بڑے ظرف والوں کا ہی کام ہے۔
ایک دوبار قاضی صاحب کو گھر میں دیکھا جو احساس عقیدت انسان کے دل میں اپنے امیرکے لئے ہوتا ہے وہ پوری طرح دل پہ حاوی رہتا…کوئی ایسی مشفقانہ مگر جلالی سی کیفیت ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔جس کے سامنے ہر کوئی مرعوب ہو جاتا تھا۔سلام کرنے کامدعا ومقصد محض دعائیہ کلمات کا حصول ہوتا۔سرجھکائے جواب دے دیتے۔
اپنے کارکنان سے تعلق، محبت اور ان کی قدردانی ہر لیڈر کا شیوہ ہونا چاہیے۔قاضی صاحب اس کا بھرپوراحساس وادراک رکھتے تھے۔ ہر ملنے والا سمجھتا تھا کہ شاید سب سے زیادہ میں ہی ان کی بھرپور شفقت اور توجہ کا مرکز ہوں۔
ہم ان دنوں بلدیاتی الیکشن مہم کے سلسلہ میں لاہورکے قرب و جوار میں جارہے تھے۔ واپسی پہ قاضی صاحب کے ہاں ٹھہرے۔شام ہو چلی تھی میں گھر جانے لگی تو قاضی صاحب نے پوچھا سمیحہ راحیل سے کہ
’’انہوں نے کہاں جانا ہے‘‘۔
’’اتفاق ٹائون‘‘۔سمیحہ نے جواب دیا۔
’’ڈرائیور سے کہو ان کو گھر چھوڑ آئے‘‘۔
ہر چند کہ میں نے عرض کیا کہ میں روزانہ ہی پیدل آتی جاتی ہوں کوئی مسئلہ نہیں۔
سمیجہ ہنسنے لگیں۔’’باجی!اب ابو نے کہہ دیا ہے تو اب یہی کرناہوگا‘‘۔
اور پھر قاضی صاحب کی ذاتی گاڑی میں ڈرائیورمجھے گھر چھوڑ آیا۔
اتحاد امت کے زبردست داعی تھے…’’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کا شغر‘‘ امت کو ایک دیکھنا چاہتے تھے۔امت مسلمہ کو دنیا کے نقشے پہ پہلی صف میں دیکھنے کے متمنی تھے۔ ان کی آنکھوں میں خواب صاف نظر آتے تھے اور ان کے ارادوں میں خوابوں کی تعبیریں نظرآتی تھیں۔وہ مرعوب امت مسلمہ کو جری، بہادر اور بارعب دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ نوجوانوں کو اقبال کا شاہین بنانا چاہتے تھے۔انہوں نے اتحاد امت کے لئے عملی تجربے کیے۔اپنی انا کو پست پشت ڈال کر لوگوں کو قریب کیا۔مختلف مسلک کے لوگوں کو ایک صف میں کھڑا کیا۔اس سلسلے میں انہوں نے تھنک ٹینک بنایا، سیاسی محاذ پر اسلامک فرنٹ بنایا۔ پاسبان اور شباب ملی کے تجربے کیے۔ ان کے خلوص پہ شبہ کرنا اور بدگمانی رکھنا گناہ ہوگا۔ کچھ فیصلوں سے کچھ اختلافات سے بڑھ کر کچھ اور کبھی نہ تھا۔مگر اتحاد امت، اتحاد قوم اور ملک کی بقا کے لئے ان کی کوششوں پہ کوئی حرف رکھنا ان کے ساتھ ناانصافی ہی نہیں ظلم بھی ہوگا…امت کی بہتری کے لئے نیت کا خلوص اورجدوجہد کی لگن ناقابل شک وشبہ ہے۔اس کاعملی مظاہرہ میں نے خود اس وقت محسوس کیا جب ہم ملتان شفٹ ہوئے اور میری پڑوسن عزیز دوست فرزانہ خالد مسعود(اللہ ان کی مغفرت فرمائے) کے بھانجے کی افغانستان میں شہادت کے موقع پر وہ ان کے ہاں تشریف لائے تھے۔ ۔ دعا کا ہر لفظ احساس دلا رہا تھا کہ ان کے دل میں شہادت پانے والوں کے لئے کتنی محبت اور عظمت ہے اور ملت اسلامیہ کے لئے وہ کس قدر بے کل و بے چین ہیں۔
قرآن و حدیث کے بعد اقبالؒ کے کلام کے شیدائی قاضی حسین احمدؒ کی زندگی واقعی ’’ہر لحظہ مومن کی نئی شان نئی آن‘‘ کا مصداق تھی۔ گفتار اور کردار میں اللہ کی برہان… بہی برہانی دبدبہ تھا کہ ان کے دلائل کے سامنے کسی کو یارانہ تھا۔ جلسہ ہو یا جلوس، دھرنا ہویا احتجاج…سینہ تان کر پورے جاہ وجلال سے بات کرتے۔ کوئی احتجاج ریکارڈ کروانا ہوتو بس کاغذ کا ٹکڑا بھیج دینا کافی نہ ہوتا… اس ملک کے نمائندے کو سامنے بٹھا کر خود سنا کر آنا کسی جری، بے باک شخص کا ہی کام ہوسکتا ہے اور ساتھ یہ بھی باور کرانا کہ’’سنتا جا شرماتا جا‘‘۔
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
پارٹی کے مصروف لیڈران کو فرصت کہاں ملتی ہے؟ یہ جماعت اسلامی کے راہبروں کی خاص خوبی ہے کہ وہ اپنے کارکنان کی غمی و خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔اپنے نمائندے بھیج کر مطمئن نہیں ہو جاتے۔ ہماری بیٹی نویرہ کی شادی میں ان کی طرف سے محبت اور دعائوں سے بھرپور خط ایک بہت کارآمد و قیمتی تحفے کے ساتھ موصول ہوا…ہمارے بچوں کے دادا جان کی وفات ہوئی تو تعزیت کے لئے گھر تشریف لائے۔ پھرواصف بیٹے کی شادی کی مبارکباد دینے تشریف لائے۔
ٹی وی پہ قاضی صاحب کا آخری دیدار ہوا… ایک دل کی دھڑکن بند ہو گئی تھی مگر لاکھوں دلوں کی دھڑکنیں ان کے لئے دعا گو تھیں۔ یہ وہی دل کی شمعیں ہیں جن کو قاضی حسین احمد نام کی ایک شمع دل نے فروزاں کیا تھا۔
شرافت، سادگی، خلوص… درخشاں وتاباں زندگی کا ایک ایسا نقش تھے جو دنیا کی لوح حیات پہ تادیرثبت رہے گا۔انسان ہونے کے ناطے، ہر کسی سے خطائیں ہوتی ہیں۔ خطائیں معاف ہو جاتی ہیں جب خلق خدا نے اس بندے سے فیض پایا ہو۔ ان کی یہ خوبی روز روشن کی طرح سب پہ عیاں ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کی فلاح چاہتے تھے۔ وہ اس کا بندہ بننا چاہتے تھے۔ جس کو اللہ کے بندوں سے پیار ہو…وہ ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں کا فرق واضح کرنا چاہتے تھے۔ وہ فصل گل لالہ کا پابند نہیں ہونا چاہتے تھے۔…اسی لئے بہار تھی یا خزاں انہوں نے لاالہ الا اللہ کا نغمہ ہر موسم میں گایا۔ان کی ہر ممکن کوشش رہی کہ وہ ایسے بندۂ مومن بن جائیں جس کی اذاں سے وہ سحر پیدا ہو کہ شبستان کا وجود لرز جائے۔ وہ جوانوں کو خودی کا کارازداں ہونے اور خدا کا ترجمان ہوجانے کا سبق دیتے رہتے۔
اقبالؒ کا ’’مرد مسلماں‘‘ پڑھتے ہوئے قاضی صاحب کی شخصیت اور چہرہ آنکھوں سے نہیں ہٹتا۔آج وہ ’’عندلیب باغ حجاز‘‘ باغِ عدن میں جا پہنچا۔جس کی گرمیٔ نوا کی بدولت وطن کی کلی کلی متاثر تھی۔ ان پہ اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص ہو اوران کو اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا قرب نصیب ہو آمین۔

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s