بچپن سے یہ نام کانوں نے اپنی والدہ کی زبان سے سنا اور آنکھوں نے لکھا دیکھا تھا۔۔ سرخ و سفید خوبصورت ہنستے مسکراتےچہرے اور شرمائ سی شخصیت والی خاتون سے میری پہلی ملاقات بالکل ذہن میں نہیں ہے۔ شاید خالہ جان حمیدہ بیگم کے ہمراہ ان کو دیکھا ہو۔ البتہ جمیعت کے پروگراموں میں ان کی موجودگی مجھےیاد ہے۔ سعودی عرب سے واپس آکر جب ہم منصورہ شفٹ ہوئے تو بیگم اسعد کے ہاں ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی ۔ مجھے خوشی کے ساتھ تعجب ہوا کہ وہ میرا نام جانتی تھیں ۔محبت سے میرے بچوں کے نام پوچھے اور میرے گھر بھی تشریف لائیں ساتھ تحفہ لانا ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔ الیکشن مہم کے دوران ان کی سعی و جدوجہد دیکھ کر ہم جوا نوں کوہمت اور حوصلہ ملتا تھا۔ مرکز خواتین ارکان اجتماع میں ان کی طرف سے دعوت طعام میں ان کی محبت کی خوشبو زبان حال سے اپنا آپ منوا رہی ہوتی تھی۔
سب کی پریشانی کو سمجھنا اس کا حل بتانا اورپھر اس کی خبر رکھنا ان کا خاصہ تھا۔
میرا بھائی جو دس بارہ سال کی عمر میں کسی نے اغوا کر لیا تھا۔اس پریشانی میں ان کی طرف سے دعا ئیں بہت حوصلہ دیتی رہیں ۔اور ہمیں تلقین کی کہ سورہ الضحی کا ورد جاری رکھیں ان شاء اللہ سورج غروب ہونے سے پہلے اس کے بارے میں خیر کی خبرمل جائے گی ۔الحمد للہ کہ اس رب نے ہمارے بھائ کو اپنی حفظ وامان میں رکھا اور اس کے متعلق خیر کی خبر مل گئ ۔۔ اس دوران وہ فون کر کے مسلسل ہماری ڈھارس بندھاتی رہیں۔
کسی کو ذمہ داری سونپتے ہوئے اس کی خوبیوں کا اعتراف کرنا اس کواحساس دلانا کہ یہ کام تم ہی کر سکتے ہو اعلی ظرفی کی نشانی ہے۔ سیلاب زلزلے یا کوئی اور ناگہانی آفت میں تعاون اور دوسروں کو تعاون پہ آمادہ کرنا ، ان کے لئے بہت آسان تھا لب و لہجے کی نرمی لفظوں چناو دوسرے کا دل نرم کر دیتا تھا۔
ایک مرتبہ ان کی عیادت کے لئے ہسپتال جانا ہوا جب شاید ان کو گرنے کی وجہ سے کافی تکلیف تھی ۔۔میرے آنے پہ بہت خوش ہوئیں ۔۔ بہت ساری دعائیں بھی دیں ۔
اللہ تعالی کے سامنے عاجزی اور شکرگزاری کا اظہار مسلسل کرتی رہیں ۔
قرآن پاک سے تعلق ان میاں بیوی کی زندگی کا سرمائہ تھا۔ اور یہی سرمایہ ان کی نسلوں میں منتقل ہو گیا ہے۔یہ سعادت خوشبختوں کو ملتی ہے۔ اللہ رب العزت ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ جنت کے اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ہم سب کو صالحین میں شامل فرمائے۔آمین