آج کتنے دن اور ہفتے گزر گئے ہیں امی جان کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اپنے ہاتھوں سے آخری غسل دینے اور اپنی آنکھوں سے رخصتی کا منظر دیکھنے کے باوجود نہ ذہن مان رہا ہے نہ دل تسلیم کررہا ہے حالانکہ یہ سب کجھ یقین کے ساتھ گزارا ہے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
دراصل مائیں رخصت ہو جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی اولادوں کا استقبال کر سکیں۔ بس یہی تصور خوش کن ہے کہ ہمارا استقبال کرنے کو والدین روانہ ہوگئے ہیں ۔ عنقریب ملاقات ہو جائے گی ملن کی ایسی سہانی صبح و شام ہوں گی جس میں فرقت و جدائی کا نہ خوف ہوگا نہ غم۔ ان شاء اللہ میری امی مسعودہ بیگم جن سے میرا ساس بہو کا رشتہ تھا مگر در حقیقت ہمارے درمیان اللہ سبحان و تعالی کے لیے محبت کا رشتہ تھا ۔ اسی رشتے کی بدولت ہمارے درمیان دوستی بہت زیادہ تھی۔ شعر و شاعری ‘ اردو‘ فارسی‘ قرآن پاک و سیرت کے حوالے سے علمی و ادبی گفتگو ان کی پہچان تھی۔ ان کی خوبیاں کیا بیان کی جائیں اگر میں ساس کے لیے کچھ کہوں تو وہ یہ ہے کہ میری نظر میں ’’وہ دنیا کی بہترین ساس شمار کی جاسکتی ہیں۔‘‘
وہ میری امی جان تھیں میں نے ’’امی‘‘ کہہ کر مخاطب ان کو ہی کیا اپنی والدہ کو ہم آپا جان کہتے تھے۔
امی جان اس ناچیز کی بہت قدر دان تھیں ان کا ہر اس فرد سے قدردانی کا رشتہ تھا جو قرآن پاک‘ تحریک سے والہانہ وابستگی رکھتا ہو ۔ قرآن پاک سے دلی تعلق اور جماعت اسلامی سے وابستگی ان کی مزاج کا خاصہ تھا۔ آخری عمر میں بھی قرآن پاک کے کسی نہ کسی حصہ کو یاد کرنے کی کوشش میں مصروف رہتیں یہ سعادت صرف خوش نصیبوں کو ملتی ہے۔ ہم نے کئی حج بہت سے عمرے اور طواف ایک ساتھ کیے تفریحی سفر بھی ساتھ کیے تحریکی سفر بھی کیے چھوٹے سفر اور طویل سفر میں ہمارا ساتھ رہا۔
دوران سفر الحمد اللہ ہمارے درمیان کبھی ایک بار بھی کسی معاملے باہم رنجش ناراضگی یا تلخی کا موقع نہیں آیا۔ اس میں سارا کمال ان کی محبت‘ چاہت ‘ خلوص اور قدر دانی کا تھا۔ ہماری طرف سے جیسی بھی اور جو کچھ خدمت ہوتی اس کو بہت سراہتیں۔ واپس جا کر لوگوں سے کہتیں کہ ’’نویرہ کی امی نے میرا اتنا خیال رکھا جیسے مائیں بچوں کا خیال کرتی ہیں۔‘‘ بھلا کبھی ماں جیسا خیال بچے رکھ سکتے ہیں یہ ان کی محبت تھی جو مجھے عزت دیتی تھی۔ اسی طرح ہمارے دونوں والدین کے درمیان اتنی محبت ‘ خلوص اور چاہت کا رشتہ تھا دونوں طرف کے والدین کے درمیان کبھی ایک لفظ کا بھی ناگواری کے ساتھ تبادلہ نہ ہوا یہ سب اللہ تعالیٰ کی مہربانی تحریک سے وابستگی اور دونوں طرف کی وسیع القلبی اور اعلیٰ ظرفی تھی۔
فارسی سے شغف رکھتی تھیں۔ شعر یاد رکھنے اور برمحل اس کو ادا کرنے کا ان کو خوب ملکہ تھا۔ خوش مزاج نرم دل تھیں دوسروں کی تکلیف کو شدت سے محسوس کرتی تھیں۔ کتابوں کے بارے میں بہت حساس تھیں۔ ہر اچھی کتاب خرید کر دوسروں کو تحفہ دیتیں۔ اچھے شعر نظمیں اپنی ڈآئری میں لکھ رکھتیں۔ بڑی بڑی نظمیں یاد تھیں آخری دنوں میں بھی نظمیں یاد کیں اور بچوں کو یاد کروائیں دوسروں کے خطوط محفوظ رکھتیں۔ میرے دو تین خط تو انہوں نے پلاسٹک کور کروا کر محفوظ کیے ہوئے تھے اور سفر و حضر میں کتابوں میں چنیدہ پیراگراف‘ پمفلٹس ساتھ رکھتیں اور جہاں موقع ملتا پڑھ کر سناتیں۔
دوسروں کو تعلیم دینے کا جنون تھا۔ بے شمار لوگ ان سے تعلیم حاصل کرکے گئے گھر کی ماسیوں کو ان کے بچوں کے ساتھ بھی محنت کرتی رہتیں کہ کسی طرح پڑھ لکھ جائیں۔
اللہ اور اس کے رسول ؐ سے محبت بے پناہ تھی اس معاملے میں رقیق القلب اتنی زیادہ تھیں کہ بس نام لیتے ہیں آواز بھرا جاتی … حرمین شریفین کے ساتھ ان کی روحانی وابستگی مثالی تھی۔ ہم دونوں کے مزاج ‘ علم و ادب‘ قرآن پاک ‘ بیت اللہ و مسجد نبوی ‘ جماعت اسلامی کے حوالے سے ایک جیسے تھے۔ گھنٹوں ہم مختلف موضوعات پر باتیں کرتے کتابوں‘ شعروں‘ کہانیوں پر تبصرے کرتے اور اس شوق کی بدولت ہمارے درمیان قلبی تعلق بڑھتا ہی رہا اور دوسرے‘ تیسرے کی برائیاں یا کسی کے خلاف کوئی چارج شیٹ کرنے کی نوبت نہ آتی۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی ہم کوئی ایسا فرد زیر بحث لائے ہوں جو متنازعہ ہو یا جس کی برائی کرنا مقصود ہو یا میں نے کسی کو ان کی نظروں سے گرانے کے لیے کچھ کیا ہو الحمد اللہ علی ذالک ۔
وہ اپنی تحریکی جدوجہد اور اپنا رشتہ ہونے کا قصہ ضرور دہراتی رہتی تھیں۔ اس میں بھی ان کا کردار بہت قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے سوتیلے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ خیر خواہی کا جذبہ رکھا اور اس بات کی گواہی وہ سب خود دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ہر عمل کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین۔ ان کی شادی خالصتاً تحریکی بنیاد پر انجام پائی تھی اور انہوں نے اپنی ساری اولاد کی شادیاں اسی بنیاد پر کیں تحریک کا وہ ایک بنیادی ستون تھیں۔ ’’سابقون الاولون‘‘ میں ان کا شمار ہوتا ہے ملتان اور نواحی شہروں قصبات میں ان کی جانفشانی کی کوئی مثال نہیں ملتی ان علاقوں میں تحریکی بیج ان کے ہاتھوں سے لگائے گئے ہیں او ہر گزرتا وقت ان کی کوششوں کو بار آور کررہا ہے صدقہ جاریہ ہے جس کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور فزوں تر ہوتا جا رہا ہے ۔ ’’عائشہ پبلک سکول‘‘کے لیے فنڈ مہیا کرنے کے لیے ان کی کوششوں کو سراہنے کے لیے میرے پاس کوئی الفاظ نہیں ہیں۔ اس عظیم کام کا اجر عظیم وہ رب عظیم ہی دے سکتا ہے۔
اپنی اولادوں کے ساتھ بھی رشتہ دین سے تعلق کی بناء پر کم یا زیادہ تھا۔ بحیثیت ماں کے تو ساری اولادیں برابر ہوتی ہیں مگر وہ دین داری کا پیمانہ سامنے رکھنا کبھی نہ بھولتیں۔
واقعی ان کی خوشی اور ناراضی کا پیمانہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ وابستہ تھا۔ میں کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرتی ہوں کہ وہ بعض معاملات میں اور اکثر اوقات اپنے بیٹے کی نسبت اپنی بہو سے زیادہ تعلق اور محبت کااظہار کرتی تھیں۔ دنیا میں بہت کم ساس ایسی ہوں گی جو اپنی بہو کا ساتھ دیتی ہوں بیٹے کے مقابلے میں۔ وہ اپنے بیٹوں کو سرزنش کرنے میں کبھی نہ جھجکتی تھیں۔ حق بات اور فرائض کی ادائیگی میں ان کا ساتھ واضح ہوتا تھا۔ مجھے نصیحت کرتیں کہ وہ ’’شوہر کے ساتھ زیادہ نرمی کریں تو وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘ میرے سامنے میرے شوہر اپنے بیٹے کو ایسے شعر سناتی رہتیں جس میں بیوی کی خوبیوں کا اور قدر کرنے کااظہار ہوتا ان سے اکثر کہتیں ’’افسوس کہ تم نے قدر نہ جانی‘‘ مجھے جب میاں کی شکایت کرنا ہوتی تو امی جان سے کہتی ان کو وہ شعر سنائیں تاکہ ان کو ہماری قدر کا احساس ہو۔ اصرار کرکے مجھے ’’حال دل‘‘ سنانے کو کہتیں۔ اور پھر میرے شوہر ماں سے گلہ کرتے اور بہت حیران ہوتے
’’یہ دنیا کی عجیب ترین ساس بہو ہیں جو دونو مل کر میرے خلاف ہو جاتی ہیں۔”
مگر اب پشت پناہی کو کسے تلاش کریں؟
اب دعائیں کون کرے؟ کہاں سے لائیں وہ قیمتیں دعائیں۔ کوئی محرومی سی محرومی ہے اب کس سے مان رکھیں؟ برملا کہتیں بیٹے سے کہ ’’اگر تم نے بیوی کو تکلیف دی تو میں تم سے سخت ناراض ہوں‘اب ان کی محبت یاد آتی ہے تو اشکوں کی برسات رکتی نہیں اللہ ان کو اپنی محبت سے نوازے۔ آمین۔ ان کا توکل علی اللہ ۔ سادگی ‘ بے نیازی دنیا سے ایسی تھی کہ حیرانی ہوتی ہے ہر وقت تحریکی سفر کے لیے تیار رہتیں۔ دو جوڑے کپڑے ‘ چند کتبایں چند ضروری چیزیں کتنی آسان زندگی تھی ‘ رخصت ہوگئیں تو کوئی قابل ذکر شے نہ تھی ان کے سامان میں ۔ سواے کتابوں کے‘ دوسروں کی ہر طرح سے مدد کرتیں دوسروں کے دکھ تکلیف کو اپنا جان کر اس کا مداوا کرنے کی کوشش کرتیں۔
خواجہ عبدالاحد صدیقی ابا جان میرے سسر ان سے کچھ عرصہ پہلے داغ مفارقت دے گئے تھے وہ بھی اپنے خاندان کے واحد فرد تھے جن کی سادگی‘ خلوص‘ ایمانداری‘ دیانتداری اور اپنے مقصد سے لگن کی مثال دینا مشکل ہے وہ اپنے خاندان کے ولی اللہ تھے سیدھی صاف ستھری زندگی گزارنے والے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں۔ تعیشات سے کوسوں دور رہنے والے‘ حق بات پہ ڈٹ جانے والے دوسروں سے خدمت نہ لینے والے ‘ اپنے ذاتی کام خود ہی انجام دیتے کسی کو تکلیف نہ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت ان کے ہر عمل سے محسوس ہوتی تھی
دونوں کے بارے میں یقین نہیں آتا کہ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ابا جان کو تو میں آخری لمحات میں دیکھا ہی نہیں اس لیے کوئی تصور بھی نہیں بن جاتا کہ وہ اب یہاں نہیں ہیں
کل من علیھا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذی الجلال و الاکرام
اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت کے اس اعلیٰ درجے میں رکھے جہاں انبیاء ‘ صدیقین اور شھداء اور صالحین رہتے ہیں آمین اور ہمیں ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین