بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر بشریٰ تسنیم
باپ کے گھر سے رخصت ہونا ہر بیٹی کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے۔ اور پردیس میں رہنے والی بیٹیوں کو اس امتحان سے گزرنا ہر ملاقات کا حصہ ہے۔ ستمبر 2015ء میں تین چار دن سے چچا جان کے پاس آئی ہوئی تھی۔ چچی جان کسی کام سے اپنے بھائی کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ اور مجھے تاکید کر گئی تھیں کہ دوپہر کو کھانا کھا کے ملتان کے لیے روانہ ہونا، اور میرا انتظار کرنا۔ میری ملتان کی ٹکٹ کنفرم تھی۔ اور دوپہر تین بجے میری روانگی تھی۔ میں نے ان چند دنوں میں چچا جان اور چچی جان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا اپنے والدین کی وفات کے بعد یہ ہی گھر ہمارا میکہ اور یہ دونوں ہی ہمارے والدین کا درجہ رکھتے ہیں۔ ویسے بھی چچا جان و چچی جان میرے استاد ہیں تو میرا ان سے دہرا رشتہ ہے۔
اس دن میں نے اور چچا جان نے مل کر دوپہر کا کھانا کھایا۔ اور میں گائون پہن کر ان کے پاس بیٹھ گئی۔ چچی جان کے آنے کا انتظار تھا۔ میں ان کے پائنتی بیٹھ کر ان کے پائوں دبانے لگی۔ غور سے مجھے دیکھتے رہے۔ میرا دل بھر آیا۔ میں نے ان کے پائوں کو بوسہ دیا اور ان پر اپنا سر رکھ کر رونے لگی۔
"پگلی نہ ہو تو… اٹھو‘‘ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر میرا بازو پکڑا اور خود بھی رونے لگے۔
سب نے ہی جانا ہے، صبر کرنا ان شاء اللہ جنت میں مل ہی جائیں گے۔‘‘ ’’
’’پتہ نہیں کس نے پہلے جانا ہے ‘‘میں نے پلوسے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’جو بھی جائے پھر مل تو جانا ہی ہے نا ۔‘‘وہ اپنی مخصوص ہنسی ہنسے۔
’’ان شاء اللہ۔ ‘‘ مسلسل اللہ کے ذکر سے تر رہنے والی زبان اب کچھ اور زیادہ بات نہ کرتی تھی اسی اثناء میں چچی جان واپس آگئیں۔’’ تم نے کھانا کھایا ہے نا! ٹھیک سے کھایا ہے؟‘‘ میں نے ان کی تسلی کے لیے وہ برتن لا کر دکھائے جن میں وہ میرے لیے کھانا نکال کر گئی تھیں۔
بس میں بیٹھ کر آنسوئوں نے اچھا ساتھ نبھایا۔ سارا رستہ چچا جان سے وابستہ یادیں موتی پروتی رہیں۔
خالہ پھپھو چچا اور ماموں کا ان بچوں کے ساتھ خاص تعلق بن جاتا ہے جو اپنے گھروں پر پہلے بچے ہوتے ہیں۔ یہ چاروں رشتے محبتوں کے امین ہوتے ہیں۔ بہن اور بھائی کی اولادیں ان کے اندر ممتا اور باپ کی شفقت کا پرتو ڈال دیتی ہیں۔ اپنی اولادیں آنے سے پہلے یہ بچے ان کی گودوں کو رونق بخش چکے ہوتے ہیں۔ یہ ایک انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ سو ہم بھی اپنے چچا کے ہمیشہ لاڈلے رہے۔ چچا جان کی شفقت میں ایک دوستانہ بے تکلفانہ رنگ بھی تھا۔ وہ ہر محفل کی جان تھے۔ بزرگ ہوں یا جوان یا بچے سب کے ساتھ ان کی یکساں بے تکلفی تھی۔
صورت و سیرت میں خوب علم و عمل میں مثالی، روحانی و جسمانی صحت کے بارے میں متفکر رہنے والے بہت نفیس انسان تھے۔ چچا جان کی انگلی پکڑ کر دوکان پہ جانا، یاد ہے جب راستے میں تھک کر کھڑی ہو جاتی تو گود میں اٹھا لیتے۔ اکثر ہی مجھے چھیڑتے تھے کہ ’’میں ایک بار جہانیاں چھٹیوں میں آیا تو تم اتنی بیمار تھی کہ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ اپنے ہاتھوں پہ ڈال کر تمہیں ہسپتال لے کر گیا، تمہاری ماں دروازے میں کھڑی دیکھتی رہی کہ واپس زندہ آتی بھی ہے کہ نہیں؟‘‘
’’یہ تو آپ کے ہاتھوں کی تاثیر تھی کہ واپس زندہ آگئی‘‘ میں نے بشاشت سے کہا ’’ہاں، اللہ تعالیٰ نے تمہیں شفا دی‘‘
میں نے بات بڑھائی’’ شفاء دینے کے لیے بھی زندگی دی۔‘‘(میری بیٹی کا نام شفاء ہے)
ان کو مزاح کی خاص حس اللہ نے دی تھی۔سنا کر بھی خوش ہوتے اور سن کر بھی۔ اس جوان رعناکو دیکھ کر مل کر سب خوش ہوتے ملاقات سے علمی استعداد بڑھاتے جب لاہور سے جہانیاں تشریف لاتے تو ہم سب بچوں کی عید ہو جاتی تھی۔ بہت ہی نفیس مزاج، خوش مزاج، محفل کی جان ہوتے تھے۔ اپنی یونیورسٹی، کالج کے، ہوسٹل کے، ہم مکتب لڑکوں اور استادوں کے قصے اتنے شستہ اور بے ساختہ انداز میں سناتے تھے کہ راتوں کو دیر تک بیٹھے ہم ان کی باتین سنتے رہتے تھے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت، صحت، قرآن پاک سے تعلق، نمازوں کی باقاعدگی کا دھیان رکھتے اور ہماری امی جان سے بچوں کی اخلاقی و تعلیمی کیفیت کے بارے میں سوال کرتے اور مشورے دیتے تھے۔ میرے پیارے چچا جان علم کے شیدائی۔ علم سے ہر آن تعلق۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ادارہ معارف اسلامی سے وا بستہ تھے ۔ سیرت سروعالم تفہیم الا حادیث کے علاوہ ان کا علمی کام حیران کن اور قابل رشک ہے۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے قلم سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو اپنی شان عظیم کے مطابق درجات کی بلندی سے نوازے آمین۔
سب بچوں میں علمی مقابلے کراتے، لطیفے بھی سنتے سناتے، پہیلیاں بجھواتے۔ کیا خوب محفلیں ہوتیں تھیں۔ ماموں امان اللہؒ سے دوستی تھی۔ دونوں مل کر سبز چائے بناتے، کبھی پکوان خاص قسم کے بناتے اور سب کو شریک کرتے۔ ساتھ ساتھ چٹکلے چلتے رہتےمجھےعلم حاصل کرنے کے شوق کی وجہ سےاسلامی تاریخ میں دلچسپی سب سے زیادہ تھی۔ وہ خود تاریخ، اسلامیات، عربی کے طالبعلم تھے یکے بعد دیگرے ایم اے کئے میں ان سےتاریخ کی باتیں پوچھتی، بہت سے سوالات جمع کرکے رکھتی تھی جوان کے آنے پہ پوچھنا ہوتے تھے ،تو بہت خوش ہوتے تھے، سر پہ ہلکی سی چیت لگا کر کہتے’’بہت اچھی جا رہی ہو۔‘‘
میرے چچا جان کے ساتھ میرا رشتہ قرآن پاک کے حوالے سے ہے۔ میں جب بھی قرآن پاک ترجمہ وتفسیر سے پڑھتی ہوں اللہ تعالی (ان کوغریق رحمت کرے) میرے چچا جان کی مسکراتی محبت بھری نگاہیں یاد آتی ہیں۔ چچا جان نے مجھے ترجمہ قرآن پڑھایا اس کے شوق کو مہمیز لگائی۔ مطالعہ کرنے کا طریقہ سکھایا۔ اتنے سہل انداز میں اور دلچسپی کے ساتھ قرآن پاک کا ترجمہ پڑھایا کہ آج بھی ان کا لہجہ، انداز یاد آتا ہے تو ذہن بچپن کے سنہرے دنوں کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ میں بارہ سال کی تھی جب انہوں نے مجھے قرآن پاک کا ترجمہ سکھایا۔ صرف کتابوں کی دوستی ہم میں مشترکہ نہیں تھی بلکہ انہوں نے مجھے گھرداری بھی سکھائی… سالن کا ذائقہ کیسے مزے دارہوتا ہے، روٹی کیسے نرم بنتی ہے۔ کون سی چٹنی کس سالن کے ساتھ لطف دیتی ہے۔ گرم مسالے کیوں ڈالتے ہیں۔ کہتے تھے ہر مصالحہ کسی پہلی چیز کا مصلح ہوتا ہے ۔سالن بنانا دراصل حکیموں کا کام ہے ۔ یہ حکماء کی حکمت ہوتی ہے کہ
سالن میں کون سی چیز پہلے اور کون سی بعد میں ڈالنی چاہیے؟
محترم چچا جان عرصہ دراز تک مولانا مودودیؒ کے ساتھ ایک ہی میز پہ تصنیف وتالیف کا کام کرتے رہے ہیں۔ اچھرہ میں ہی رہائش تھی اور میں چچا جان کے پاس ہی رہتی تھی۔ روزانہ دفتر کی باتیں مولانا نعیم صدیقیؒ اور مولانا مودودیؒ کے بارے میں بتاتے کہ مولانا مودودیؒ ان سے کتنا تعلق رکھتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں کہ ان سے بے تکلفی بھی بہت ہے۔ چچا جان کے پاس مولانا مودودی کے حوالے سےبہت سی یادیں تھیں کاش وہ ان کو قلم بند کر دیتے۔
محترم چچا جان اور میرے والد کو میں نے کبھی بہت زیادہ گفتگو کرتے نہ دیکھا اپنے بڑے بھائی (ہمارے والد کا) بہت احترام کرتے تھے جیسے کہ والد کا کرتے تھے۔ یہ نگاہیں اٹھا کر یا بہت بے تکلفانہ انداز میں دونوں کبھی نہ باتیں کرتے دونوں کے درمیان ایک روحانی غیر مرئی سا تعلق قائم رہتا۔ ابھی گزشتہ دنوں میں ابی جان کی ڈائری دیکھ رہی تھی تو اس میں انہوں نے چچا جان سے محبت کا ذکر کیا ہوا تھا۔ ایک شخص کے بارے میں خفگی کے ساتھ ذکر تھا کہ وہ عبدالوکیل کو بغیر ’’مولانا‘‘ کہے بات کر رہا تھا اور خود جہاں بھی ان کا تذکرہ کیا ہے مولانا ضرور لکھا ہے۔ ابی جان اپنی محبت کا اظہار زبان سے کم اور روح سے زیادہ کرتے تھے۔ چچا جان جہانیاں آتے تو ابی جان باورچی خانے میں کئی چکر لگاتے کہ آج کچھ کیا خاص بنایا جا رہا ہے؟ اپنے بھائی کی پسند کے مطابق کھانا بنانے کی تلقین کرتے۔ میں حیران ہوتی تھی کہ چچا جان جو محفلوں کی جان ہوتے ہیں ابی جان کے سامنے کیوں خاموش رہتے ہیں۔ کس قدر لحاظ، احترام تھا بڑے بھائی کا… اب تو یہ تہذیب ہی بہت نامانوس لگتی ہے۔ رشتوں کا احترام ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری امی ان سے گھر کے، بچوں کے، خاندان کے بارے میں مشورہ کرتی تھیں اور بہت اچھی رائے دیتے تھے۔ خاندان کے ہر گھر میں اسلامی تہذیب کو رائج کرنے میں فکرمند رہتے تھے۔ سردیوں، گرمیوں میں کسی خاص موقعہ پر یا چھٹیوں میں ان کا جہانیاں آنا ہوتا تو بچوں اور خواتین کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی تلقین کرتے۔ ہماری امی پردہ کرتی تھیں۔ چچا جان اپنے کندھوں پہ رکھے رومال سے خود بھی اوٹ کرکے گزرتے تھے یہ میں نے اس وقت دیکھا جب ایک بار امی کے پاس کچھ خواتین بیٹھی تھیں جو پردہ نہیں کرتی تھیں تو ہمارے چچا جان نے اپنے رومال سے اپنے چہرے کو اوٹ میں کر لیا۔ سبحان اللہ، اب کہاں ایسے کمال کے نمونے ملتے ہیں؟ خاندان کی بچیوں کو پردہ، شرم وحیا کی تلقین کرتے اور ہمیشہ نگرانی اور خاص خیال رکھتے۔
میرے پیارے چچا جان اللہ تعالیٰ ان کو جنت کی بہاریں عطا فرمائے، محنتی ایمان دار شریعت کے پابند مسلمان تھے۔ دورنگی سے دور تھے۔ ہماری چچی جان محترمہ ثریا بتول علوی کی رفاقت نے اس اسلامی رنگ میں اضافہ کیا۔ میں جب ان کے پاس تعلیم کے سلسلے میں لاہورہوتی تھی تو ایک دن چچی جان نے ان کو خواب سنایا کہ جیسے چچا جان کی شہادت کی انگلی قلم کی طرح کٹی ہوئی ہے اور نکلنے والے خون سے انہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھا ہے۔
میں آج سوچتی ہوں واقعی میرے چچا محترم عبدالوکیل علوی صاحب نے مولانا مرحوم کے لٹریچر کو اپنے دل کی گہرائیوں سے، شب و روز کی محنت سے اپنے قلم سے اپنے ہاتھوں سے اور اپنی قابلیت سے نئی جہت عطا کی۔ عرق ریزی سے مطالعہ کرکے نئی شان عطا کی ہے۔ سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ ان کو دنیاو آخرت میں ڈھیروں ڈھیر اجر عطا فرمائے آمین
ان کے قلم کو صدقہ جاریہ بنائے۔ ان کو اپنے قرب سے نوازے اور ان کے اجر کو نشوونما عطا فرمائے، آمین
چچا جان جب مطالعہ کرتے تو مجھے ساتھ بٹھا لیتے اور پوچھتے کوئی سوال اس مضمون کے بارے جو وہ پڑھ رہے ہوتے تھے۔ میں اگر میں درست جواب دیتی تو بہت نہال ہوتے، لفظوں کا تلفظ درست کرتے۔ املا درست کرواتے۔ پروف ریڈنگ کرتے تو مجھے بآواز بلند پڑھنے کو کہتے اس طرح میرا لہجہ اور تلفظ بھی درست ہو گیا۔ قرآن پاک کا ترجمہ اور حاشیہ جن دنوں لکھ رہے تھے تو کچھ صفحات کی پروف ریڈنگ کروائی۔ تاریخ ابن خلدون کے بارے میں مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ کچھ پڑھنے کو کہا۔ میں نے درست پڑھا تو بہت شاباش دی کہ ایم۔ اے کے طالب علم تو اس کو ایسے پڑھتے ہیں یعنی غلط پڑھتے ہیں۔ اس طرح باتوں باتوں میں کام میں ساتھ بٹھا کر سکھایا۔ آگے بڑھنے، خوب پڑھنے کا شوق دلایا۔ ان کی کتابوں، کاپیوں کو میں نے بہت مرتبہ الٹ پلٹ کرکے رکھ دیا۔ عربی ڈکشنری "المنجد” ضخامت میں موٹی ہونے کی وجہ سے میری پسندیدہ کتاب تھی ۔ میں اتنی چھوٹی تھی کہ وہ کتاب مجھ سے اٹھائی نہ جاتی لیکن موٹی کتابوں سے میری دلچسپی ان کے لئے باعث تعجب ہوتی تھی ، کئی بار بھاری کتاب مجھ سے گر گئ اور اس کی جلد کو نقصان پہنچا ،کچھ کاپیوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا تو محبت بھری ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جس کی طرف سے ایسی ڈانٹ مل رہی ہو کہ چہرہ مسکرا رہا ہو تو کتنا لطف آتا ہے نا؟
شادی کے بعد بیرون ملک رہی پھر واپس آئے تو چھ سال لاہور رہے اور چچا جان سے دوبارہ محبت و شفقت حاصل کرنے کا موقع ملا ان کے مشورے، تجاویز، صائب اور قابل عمل ہوتے۔ روحانی طور پر میری بہت کمزوریوں کو دور کیا۔ پھر لاہور چھوڑنا پڑا۔ مگر دیر بعد بھی ملاقات ہوتی تو ان کی طرف سے عطا ہونے والے پیار، محبت ،شفقت سے دل کو توانائی ملتی رہی۔ عیشہ راضیہ (میری بہن ان کی بہو) ذکر کرتی ہے تو یہی کہتی ہے کہ ’’ابی جان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ شکل وصورت بھی دونوں بھائیوں کی بہت ملتی جلتی تھی۔ ابی جان کی وفات کے بعد ان کو بہت زیادہ یاد کرتے تھے۔
۔ لاہور سے ملتان کا بس میں سفر چچاجان سے وابستہ یادوں میں گزرا پھر دو دن بعد ہم شارجہ میں تھے۔ شارجہ آنے کے بعد قاسم بھائی سے رابطہ رہا۔ سعدیہ سے بھی تبادلہ جذبات ہوتا رہا۔ چچا جان کے بارے میں اس دن خبر ملی کہ طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ہسپتال میں ہیں۔ قاسم، ابوبکر کو فون کرکے خیریت دریافت کی۔ دونوں نے کہا۔
’’باجی دعا کریں‘‘
دور بیٹھے بیٹیاں اس کے علاوہ اور کیا کر سکتی ہیں؟ دل کی بے قرار حالت کا اندازہ ہر وہ دل لگا سکتا ہے جس پہ یہ کیفیت گزری ہو۔ سکائپ پہ عیشہ سے رابطہ کیا جب ہم دونوں بات کر ہی رہی تھیں تو قاسم بھائی کی بار بار کال آ رہی تھی مگر ڈراپ ہو جاتی تھی۔ پھر میں نے سنا کہ عیشہ بھی قاسم بھائی کی کال نہ ملنے پہ مضطرب ہو رہی ہے۔ ایک اضطراب کی لہریں ہر طرف پھیل گئی۔ عجمان سے سعدیہ مجھے فون کر رہی ہے میں عیشہ سے جدہ میں بات کر رہی ہوں۔ مریم ریاض میں بے قرار ہے اور قاسم بھائی سے رابطہ نہیں ہورہا اور اسی اضطرابی کیفیت کا نقطہ انجام یہ تھا کہ
’’چچا جان! اپنے رب کی پکار پہ لبیک کہتے ہوئے دنیا چھوڑ گئے ہیں۔‘‘
شجرحیات سے ایک پتہ ٹوٹا تو میرے شجر غم پہ جا اٹکا۔ بوجھل دل سے بے اختیار پکار کر رہے تھے۔ جس کو آٹو سسٹم پہ لگا کر رکھ دیں تو وہ حرکت میں رہتی ہے۔ کان سن رہے تھے، آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔ دل دھڑک رہے تھے، مگر سب ایک میکانکی انداز میں ہو رہا تھا۔ انسانی جذبات کے اللہ تعالیٰ نے کتنی قسم کے رنگ بنائے ہیں اور سب سے اچھا رنگ اس کی تقدیر پہ راضی رہنا اور اس کے فیصلوں پہ مطمئن ہونا ہے۔ ہم سب اللہ کے ہیں اللہ کے لیے ہیں اور ہم سب نے اسی رب کے پاس واپس چلے جانا ہے اور وہاں جا کر سب کی ملاقات ہو جاتی ہے۔ جب اپنی روح کو یہ تسلی ہو جاتی ہے تو وہ جانے والی روحوں سے ملاقات کاانتظار بڑی آسانی سے کر لیتی ہے
میرے چچا جان جو اکثر مجھے کہا کرتے تھے ’’تم سعدیہ سے بڑی میری بیٹی ہو‘‘ اور سعدیہ بھی مجھے یہی کہتی ہے جب بھی ملتی ہے۔ ’’باجی آپ ہم بہنوں میں سب سے پہلی بہن ہیں۔‘‘ یہ رشتے بھی کتنی عظیم نعمت ہیں۔ جب میں ایران سعدیہ سے ملنے گئی تو دو پردیسی بیٹیوں کی ملاقات ایک عجب اور انوکھا احساس رکھتی تھی اور آج وہ سعدیہ عجمان میں ہے۔ میرے قریب اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہت سی باتیں جو مشترک وقت میں گزاری یاد کرتے رہتے ہیں۔
اور آج یہ کیسی مشترک بات ہے اور یہ کیساغم ہے جو ہم دونوں نے مل کر برداشت کرنا ہے۔ شارجہ سے عجمان جانے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ مگر آج یہ فاصلہ بہت طویل ہوگیا تھا۔
میرے دکھی دل اور اس کے غم زدہ دل کو لفظوں کی ضرورت نہ تھی ہماری زبان پہ دعا تھی۔ آنسو اس کے گواہ تھے اور جسم مشین کی طرح حرکت کر رہا تھا۔
۔میں نے سعدیہ کے پاکستان جانے کی تیاری کی۔ اس کی ایرانی ملنے جلنے والی خواتین جمع ہوگئی تھیں۔ میرا خواہش و کوشش کے باوجود بروقت جانا ممکن نہ ہوا۔ یہ بھی سب مقدروں کی کہانی ہے۔ الحمدللہ کہ چند دن پہلے ان کے ساتھ بیتے دن میری یادوں میں روشنی کررہے ہیں… شارجہ کی بہنوں کو اور واٹس اپ یہ سب گروپ ممبرز کو اللہ تعالیٰ نے جزائے خیر عطا فرمائے کہ دنیا کے ہر کونے سے انہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور میرے چچا جان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین ان کو جنت کے سب سے اعلیٰ مقام پہ رکھے، آمین