اس دن شارجہ میں موسلا دھار بارش ہو رہی تھی، میں بالکونی میں کھڑی صفیہ پارک اور کھلے سمندر میں کھڑی کشتیوں کو دیکھ کر محظوظ ہورہی تھی، سوچ رہی تھی تجری من تحتھا الانھر۔ جنت کا نقشہ کس قدر دل آویز ہو گا۔ اٹھارویں منزل سے کھلے سمندر، سرسبز پارک اور بارش کا منظر کیا خوب لگ رہا تھا۔ اتنے اچھے موسم میں جو کہ شارجہ میں کم نصیب ہوتا ہے۔ کوئی قلبی تعلق والی ہستی قریب نہ تھی تنہائی اور محفل یاراں کی کمی شدت سے محسوس ہوئی اور میں نے اپنی وہ فائل کھولی جس میں میری پیاری دوستوں، بہنوں بزرگوں کے پیارے خطوط رکھے ہوتے ہیں والدہ کی پیار بھری باتیں، پرانی دوستوں کے خطوط، اب تو خطوط کا رواج ہی عنقا ہو گیا۔ کیاخوبصورت لمحہ ہوتا ہے اپنوں کی طرف سے کوئی خط ہمارے نام آتا ہے جب۔۔۔
خیر، گھر میں جب کوئی اور نہ ہو… تو یہ ِخطوط کس قدر صحبت یاراں عطا کرتے ہیں۔ ہر دور کا کوئی نہ کوئی خط اور تحر یر پرانی یادوں کو نئے سرے سے شادابی عطا کرتی ہے۔
خالہ جان نیر بانو کے خطوط جن کو پڑھ کر مجھے اپنے اندر تازگی ہمت اور حوصلہ جوان ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ پرانے خطوط کی فائل میں اتنا کھو گئی کہ بچوں نے سکول سے آکر متوجہ کیا۔ بہت سی میٹھی یادوں کی سرشاری نے موسم کے حسن کو دوبالا کررکھا تھا۔ جلدی جلدی کھانے ، نماز سے فارغ ہو کر دوبارہ اسی محفل میں پہنچ گئی۔ یاسمین حمید کا ایک خط میں نے محفوظ کررکھا ہے جو انہوں نے میری شادی کے موقع پہ لکھا تھا۔ شام ہوتے ہی دل میں عجیب نامعلوم سی اداسی نے گھر کر لیا ۔ شاید اب ان بچھڑے ہوئوں سے ملاقات ختم ہونے کی اداسی تھی۔ مغرب کی نماز ادا کرنے کے لئے وضو کر کے جاء نماز بچھا کر ابھی نمازکی نیت نہ کی تھی کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ ممانی رشیدہ قطب کا فیصل آباد سے فون تھا۔
’’اللہ خیر کرے‘‘پاکستان سے فون آنے پہ بے اختیار ہی دل سے دعا نکلتی ہے۔ ممانی رشیدہ بہت محبت کرنے والی،بچوں کی صلاحیتوں اور دوسروں کی تھوڑی قابلیت پہ زیادہ شاباش دے کر حوصلہ ہمت بڑھانے والی ہیں۔ خصوصا میرے ساتھ ان کی محبت، شفقت شروع دن سے آج تک قائم ہے۔ انہوں نے خالہ جان نیربانو کے دنیا سے جنت کی طرف منتقل ہوجانے کی خبر سنائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون…ہم کافی دیر تک ان کی باتیں کرتے رہے۔ جانے والے یہ پیغام دے کر جاتے ہیں کہ ’’ہم چلے اب تمہاری باری ہے‘‘تھوڑی دیر پہلے ان کے خطوط پڑھ کر بے اختیار ان کے لئے دعائیں کیں تھیں۔ ان کی راہنمائی میں نہ جانے کتنی خواتین ولڑکیاں با مقصد مصروفیات کی حامل ہوتی ہوں گی۔ کتنی خواتین لڑکیوں نے قلم تھامے ہوں گے۔ ان کی تحریریں ایک پوری نسل کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی رہیں اور ہمیشہ کرتی رہیں گی جو ان کے لئے صدقہ جاریہ ہوں گی ان شاء اللہ
خالہ جان نیر بانو ہمارے گھروں میں ایسا ہی تھیں جیسے کہ اپنے اہل خانہ… جس طرح مولانا مودودیؒ ۔ میاں طفیل محمدؒ، آپا حمیدہ بیگم اور دیگر راہنما… ان کی باتیں ان کے تذکرے گھروں میں ایسے ہی ہوتے جیسے کہ اپنے گھر کے افراد کے۔۔
جماعت سے مراد صرف مولانا مودودیؒ اور میاں صاحب سے مراد صرف میاں طفیل محمدؒ ہی ہوتے تھے۔ نادر روزگار افراد میں خالہ جان نیر بانومرحومہ بھی تھیں۔ ان کے شخصیت ہم بچوں کے لئے ایسی ہستی کے طور پر تھی ، جن کو دیکھ لینا ، بات کرلینا قابل فخرتھا
سب مائیں ’’ان کو سلام کرو‘‘… کہتیں اور ہم بچے ان کی دعائیں حاصل کرلیتے تو مائیں شانت ہوجاتی تھیں کہ ہمارے بچے کو خزانے میں سے کچھ حصہ مل گیاہے۔ آپا حمیدہ بیگم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا تھا۔
خالہ جان نیر بانو سے میری ملاقاتیں اور خط ،کتابت کم رہی لیکن قلم وکاغذ سے ناطہ دوبارہ سے استوار کرنے میں ان کا بہت ہاتھ ہے۔ خالہ جان ام زبیرؒ۔ سید اسعد گیلانیؒ اور خالہ جان نیر بانوؒ تنیوں کی طرف سے مجھے خصوصی شفقت اور حوصلہ ملا تو وہ سلسلہ پھر سے جڑا جو شادی کے بعد منقطع ہوگیا تھا… سعودی عرب میں جب جماعت کی تنظیم کا مرحلہ شروع کیاتو خالہ جان بلقیس صوفی کی راہنمائی کام آئی۔ جدہ کی پہلی نظامت میرے کاندھوں پہ ڈال کہ وہ کراچی چلی گئیں اور خالہ جان نیربانوجوان دنوں قیمہ پاکستان تھیں ان سے تنظیمی نوعیت کی خط کتابت رہی۔
سعودی عرب سے واپس آکر لاہور منتقل ہوئے تو ان کی محبت اور شفقت نے میرے خشک قلم کو روشنائی عطا کی۔ ان کے محبت وشفقت سے بھر پور خطوط میرے لئے حوصلہ اور امید کی شمع ثابت ہوئے۔ منصورہ میں کسی پروگرام میں ان سے بہت تفصیل ملاقات رہی ہر موضوع پہ ہر طرح کی بات۔ مسائل زیر بحث آئے۔ مجھے انہوں نے اپنے لئے بغیر نمک کے کھانا بنا کر لانے کو کہا… جب میں نے اصرار کیا تھا کہ میرے غریب خانے پہ تشریف لائیں تو ان کے پاس قابل قبول بہت سے عذرات موجود تھے۔ میرا اداس اور مایوس چہرہ دیکھ کر انہوں نے کہا” اچھا پھر کھانا بنا کر لے آنا میرے لئے۔‘‘ اس رات کو خالہ جان ام زبیر میرے ہاں ٹھہریں اور ہم نے رات بھر خوب باتیں کیں اور وہ میری ’’قلم چھوڑنےکی گستاخی پہ میری گوشمالی کرتی رہیں۔ دونوں خواتین کی خوش مزاجی، بے تکلفی ایک خاص ہی انداز لئے ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ دونوں پہ رحمتوں کی بارش کرے آمین۔ لاہور سے ایک مرتبہ ہم سیالکوٹ خالہ جان نیر بانو سے ملنے گئے۔ بہت خوش ہوئیں۔ کافی دیر تک ہم باتیں کرتے رہے… بہت ہی زیادہ اہتمام سے آئو بھگت کرائی۔ اور مجھے سفید رنگ کی خوبصورت دوپٹہ نما چادر اپنے کندھوں سے اتار کر میرے اوپر ڈال دی۔ اور ساتھ فرمایا’’بشریٰ! اس سے بہتر چیز کوئی نہیں نظر آرہی۔ بکسوں میں کون کچھ تلاش کرے۔ بس تم میری طرف سے یہی تحفہ لے لو۔ اس سے تمہیں میری خوشبو آئے گی۔ ذراسونگھو! ہے نا ! میری خوشبو!‘‘
میرے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹنے لگے‘ مارے عقیدت کے مجھے سے کچھ بولا بھی نہ گیا۔ آنکھوں کی نمی کے ساتھ میں نے وہ چادر اپنے گرد لپیٹ لی۔ میرے لئے یہ اعزاز ہفت اقلیم سے کم نہ تھا کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا۔ بادشاہ اپنے ہاتھوں سے اپنی خلعت کسی درباری کو عطا کردے تو درباری کی قسمت کے کیا کہنے؟…میرے جذبات بھی بالکل یہی تھے۔
محبتوں کے لئے سوتے تھے جو ان کی آنکھوں، حرفوں، لفظوں تحریروں اور خطوط سے ہمارے دلوں میں خوشی کی پھوار ڈال دیتے تھے۔ ایسی پھوار جس سے مرجھائے مایوس ارادوں کے پھول شاداب وتروتازہ ہوجائیں۔ ایسی ہمت وطاقت کا فیضان جس سے ایمان ، حوصلے بلند ہوجائیں۔
ان کا جملہ میرے لئے ہمیشہ مایوسیوں میں،
مشکل راہوں میں حوصلہ دیتا تھا” تمہارا نام ہی بشریٰ ہے، خوشخبری ہے‘‘مایوسی دور ہو کر روح بھی شاد کام اورمسرور ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی مومنہ بندی کے ہر نیک عمل کر اپنی رحمت کا صلہ اور ظرف عالی کے مطابق اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔ اور ہم ان کی محبت کے حوالے سے امید رکھتے ہیں کہ ہمارا ان کا ساتھ ایک مقام پہ اعلیٰ مقام پہ کردے۔آمین۔
تحریر ڈاکٹر بشری تسنیم