بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہےشارجہ سے پاکستان آنا ہوا تو لاہور میں فرزانہ چیمہ کے ساتھ منصورہ میں ملاقاتوں کے لیے کئی گھروں میں گئے خالہ جان میمونہ (اللہ ان کو سلامت رکھے) کے ہاں گئے تو انہوں نے کہا
’’بشریٰ! جب میں دنیا سے رخصت ہو جائوں تو تم نے میرے بارے میں ضرور اپنی یادداشتیں لکھنی ہیں‘‘ وہ اپنی بہن (میری والدہ) کے بارے میں میری تحریر سے بہت متاثر تھیں۔ میں نے پوچھا
’’اگر میں پہلے رخصت ہوگئی تو مجھے کون یاد کرے گا اور میرے بارے میں کچھ لکھے گا؟‘‘
فرزانہ چیمہ نے ہستے ہوئے پھلجھڑی چھوڑی کہ
’’بشریٰ! تسی مرو تے سہی‘ لکھن آلے بہت نے‘‘
(بشری! آپ مریں تو سہی لکھنے والے بہت ہیں) اللہ تعالیٰ فرزانہ چیمہ کو زندگی و صحت عطا فرمائیں تاکہ وہ اپنا وعدہ وفا کرسکیں) ہم تینوں نے فرزانہ کی بات سے خوب حظ اٹھایا ہنسی مذاق ہوتا رہا مگر میں سوچتی رہی بعد میں کہ فرزانہ چیمہ کے علاوہ اور کون ہوگا؟ یہ خود کو ہی ’’بہت‘‘ شمار کرتی ہوں گی۔ معاً مجھے ایک اور فرزانہ کا خیال آیا کہ محبت و تعلق میں اس فرزانہ کا بھی کوئی جواب نہیں۔ وہ ضرور مجھے یاد کرے گی۔ مگر دل بے حد رنجور ہے کہ فرزانہ کی محبت کی یادیں ہی رہ گئیں ہیں۔ ’’فرزانہ خالد‘‘ مخلص‘ بے لوث ایثار کرنے اور ہر کسی کے کام آنے والی‘ ہر فن مولانا اور مکمل احساس ذمہ داری کے ساتھ ڈیوٹی ادا کرنے والی خوش مزاج‘ ساتھی تھی۔
ہم جب جدہ سے لاہور مقیم ہوئے اور پھر لاہور سے ملتان شفٹ ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہمارے گھر کے قریب ہی خالد مسعود صاحب معروف کالم نگار، مزاحیہ شاعر کا گھر ہے جن سے میرے بہنوئی رضا شاہد کی بہت گہری دوستی ہے۔
اس دن خالد صاحب کے گھر کی گلی کسی وجہ سے بند تھی تو وہ اپنی گاڑی ہمارے گھر کے گیراج میں کھڑی کرنے آئے تو ان تو ان کی بیگم سے ملاقات ہوئی حسب روایت انہوں نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی چند منٹ کی اس پہلی ملاقات میں انہوں نے اپنی بے تلفی ‘ خوش مزاجی کی پہچان کرادی تھی۔ جو ہر ملاقات پر اپنے اثرات کی تاثیر بڑھا دیتی تھی۔ دوچار ملاقاتوں میں ہمارے درمیان گہری دوستی ہوچکی تھی۔
میں نے فرزانہ خالد کو ہمیشہ لگن سے کام کرتے دیکھا۔ معمولی کام ہوتا یا کوئی بڑا کام پوری تندہی سے کرنا اسکا طریقہ کار تھا۔ ہمارے گھر فون نہیں لگا تھا اور نہ ہی لگوانے کا ارادہ تھا کیونکہ کرائے کا گھر تھا اور اپنے گھر میں شفٹ ہونے میں کوئی زیادہ دیر نہ تھی۔ فون کرنے کے لے ہمیشہ فرزانہ کے گھر جانا پڑتا۔ کبھی بے وقت بھی جا کر پریشان کرنا پڑتا۔ ’’حریم ادب‘‘ کی ذمہ داری اور ان دنوں مجلہ ’’حریم‘‘ کی تیاری کے سلسلہ میں اکثر فون کرنے پڑتے۔ فرزانہ کے ماتھے پہ کبھی بل نہ آئے ہمیشہ خوش ہوتی اور خاطر تواضع علیحدہ کرتی۔ اکثر ہمارے درمیان کھانے پینے کی چیزوں کا بھی تبادلہ ہوتا رہتا۔
فرزانہ کی بہت سی اچھی عادتوں میں سے ایک اچھی عادت یہ تھی کہ اگر اس کو مشورہ دیا جاتا۔ کسی کام کی طرف توجہ دلائی جاتی۔ تو بحث برائے بحث نہ کرتی۔اس پر غور ضرور کرتی اور اکثر ہی مان بھی جاتی۔
دراصل اس میں سیکھنے کا جذبہ تھا تواضع تھی ۔ اپنی غلطی مان لینے کا ہنر آتا تھا ۔ اور دوسرے کی بات کا مان رکھ لیتی تھی۔
’’دیکھو‘‘ میرا دھیان ہی نہ گیا اس طرف‘‘ کہہ کر تسلیم کرلیتی تھی۔
چند ہفتوں کے بعد ہمارے درمیان اتنی اچھی دوستی ہوگئی کہ دن میں دو چکر اگر میں نے اس کے گھر کے لگائے تو دو وہ بھی لگا لیتی تھی۔ ایک دن میں ملنے گئی تو سیڑھی پہ کھڑی دیوار پہ وائٹ واش کر رہی تھی۔ کبھی دروازے کھڑکیاں روغن کررہی ہے رات بھر میں کشن پینٹ کر رہی ہے ۔ کبھی دروازے کھڑکیاں روغن کررہی ہے رات بھر میں فرنیچر کو پینٹ کرلیا یا کپڑوں پہ کڑھائی کرلی ۔جو چیز ایک بار تبدیل کرنے کا دماغ میں خیال آیا تو وہ کرکے ہی دم لینا ہے۔ ہاں تو اس دن اس کو سیڑھی پہ کھڑے بازو کپڑے سب سفیدی سے بھرے ہوئے دیکھا تو وہ بات کیے بغیر نہ رہ سکی جو بہت دنوں سے اسے کہنا چاہ رہی تھی۔
فرزانہ مجھے دیکھ کر سیڑھی سے نیچے اتری اور حسب معمول اپنی جان دار سی ہنسی کے ساتھ بولی
’’خالد باہر گئے ہیں کچھ دنوں کے لئے میں نے سوچا گھر میں کوئی ایسی تبدیلی لائی جائے کہ وہ آکر خوش ہو جائیں۔‘‘
میں نے کہا کہ اتنی قابل‘ ذہین‘ محنتی خاتون کن کاموں میں خرچ ہو رہی ہے۔‘‘ دوچار باتوں کے بعد ہی وہ مان گئی کہ یہ کام وہ نہیں جو اس کو ذیب دیتے ہیں۔ یہ سب تو پروفیشنل سے کرائے جاسکتے ہیں وہ اس سے بہتر کام کرنے کے قابل ہے اور اس کو بہتر کام کی طرف راغب کرکے اور اس کے بارے میں سوچنے کا کہہ کر میں گھر آگئی اگلے دن صبح سویرے فرزانہ آگئی۔
’’بشریٰ! میں آج سے اپنے گھر میں ہفتہ وارقرآن کی کلاس رکھ رہی ہوں آپ نے ہی درس دینا ہے شام کو عصر کے بعد آجانا‘‘
میں نے یہی دیکھا کہ وہ کام کا سوچ لیا تو پھر اس پر عمل کرنے میں دیر نہ لگاتی تھی۔
ایسی ہی صلاحیت و قابلیت کی بناء پر گزشتہ سے پیوستہ الیکشن میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے اس کو نامزد کیا گیا جس کی وہ حق دار بھی تھی۔
وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘ سمجھدار‘ جہاں دیدہ خاتون تھی اس کے باوجود دوسروں سے سیکھنے کا جذبہ بہت زیادہ تھا یہی اس کی سمجھداری کا ثبوت تھا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں بہت سی ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے کندھوں پر آتا گیا اور ہر کام کو اس نے خوش اسلوبی سے کیا۔ مجھ سے عمر میں چھوٹی تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ مجھے ’’آپ‘‘ سے تم کہتے میں زیادہ سہولت محسوس کرنے لگی۔
دوستی کو جب دینی وتحریکی رشتے کا تڑکا لگ جاتا ہے تو اس کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے بہت کم دوست ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ دنیا کی ہر بات کر سکتے ہیں اور دل کی ہر بات کہہ دینے میں جھجک مانع نہیں ہوتی۔ فرزانہ مجھ سے جتنی چھوٹی تھی شاہدہ اکرام مجھ سے اتنی ہی بڑی تھیں۔ میں خوش قسمت تھی کہ مجھے دائیں بائیں دو ایسی ساتھی نصیب ہوئیں جنہوں نے دامے ‘ درمے‘ سخنے دوستی کا حق ادا کیا اور جب کبھی پریشانی کا سامنا ہوا میرا ساتھ دیا اس وقت جب مجھے ’’مورال سپورٹ‘‘ کی ضرورت تھی۔ جب فرزانہ کو معلوم ہوا کہ ’’بشریٰ اور سلائی مشین‘‘ دو متضاد چیزیں ہیں تو خود بخود ہی بچیوں کے کپڑے خریدنے ‘ سلوانے کی ذمہ داری اپنے سرلے لی کہیں سیل لگی ہے تو کبھی بچیوں کو ساتھ لے جاتی کبھی رات بھر میں فراک سی کر لے آتی۔
’’میں نے سوچا بچیاں خوش ہو جائی گی‘‘
اللہ تعالیٰ فرزانہ سے خوش ہو جائے اس کو اپنے پیاروں کو خوش دیکھنے کا بہت ارمان رہتا تھا۔
ایک دن سویرے ہی آگئی
’’بشریٰ مجھے اپنا گائون دے دو نا! خانیوال جا رہی ہوں۔
میں نے لا کر پکڑا دیا تو کہنے لگی رات بھر میں سوچتی رہی کہ مجھے چادر کی بجائے گائون لینا چاہئے ایسا ہی سلوائوں گی۔‘‘ پھر اسی کو پہن لیا یہ کہہ کر کہ
’’جب سوچ لیا ہے تو ابھی سے کیوں نہیں۔‘‘
’’چلو پھر یہ میری طرف سے تحفہ سمجھ لو۔‘‘ اور وہ ہنستی ہوئی واپس چلی گئی جب ہم نے گھر شفٹ کرلیا تو تھوڑی دور ہونے کے باوجود کبھی کبھار پیدل ہی آجاتی
’’بس ملنے کودل چا رہا تھا۔‘‘
ایک دن کہنے لگی کہ میں اندازہ نہیں کر سکتی تھی کہ دین کے حوالے سے محبت اتنی تاثیر رکھتی ہے۔ دیکھو‘ دیوانوں کی طرح بھاگی آتی ہوں پھر زور سے ہنسی اور کہنے لگی آپ سے محبت کو میں بیان نہیں کر سکتی اور کسی سے بیان بھی نہیں کرتی۔‘‘
کیوں ! میں نے بھی جواباً ہنستے ہوئے پوچھا ۔‘‘
سو رقیب ‘سو حاسد ہوتے ہیں لوگوں میں‘‘ اس کا شگفتہ لہجہ مجھے اب بھی اپنے پاس ہی محسوس ہو رہا ہے۔
تحریکی ذمہ داریوں کی نوعیت کوئی بھی ہوتی ہو احسن طریقے سے ادا کرتی۔ کمپیئرنگ کرنی ہو ادبی محفل کا انتظام ، یا سٹڈی سرکل کرانا ہو سرکلر لکھنا ہو قرآن کی کلاس ہوکھانے پینے کا کام ہو ورک شاپ ہو نظامت یا معاونت وہ ہر پہلو سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ سوچ بچار کرنا کمی کو کوتاہی کی فکر کرنا بہتر سے بہترین کی تلاش کرنا راستے سوچنا … عمل کی راہیں متعین کرنا اس کے ذہن کی مشین چلتی رہتی تھی۔
پھر وہ وقت ایا کہ اس کو رکنیت کا فارم پر کرنا تھا اسے کافی ہچکچاہٹ تھی مگر میاں بیوی کے درمیان بہت اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی۔ ہرکام ہر بات میں خالد صاحب سے مشورہ کرتی۔ انہوں نے حوصلہ دلایا جب فارم پر کرکے بھیجا تو مجھے آکر بتایا کہ میں نے فارم میں لکھا ہے کہ ’’سارا قصور بشریٰ تسنیم کا ہے۔‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ
’’میں اس ’’قصور‘‘ بلکہ ’’جرم‘‘ کا اعتراف کرتی ہوں۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی یہی ’’قصور‘‘ میرے کھاتے میں ڈال دو تو مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
ایک دم سنجیدہ ہوگئی کہ ’’ہاں میں ضرور گواہی دوں گی کہ اس راستے کی طرف آپ نے ہی عملی طور پر بڑھایا ورنہ یہ سب نہ میرے لیے اجنبی تھا نہ ہی کوئی چیز تھی سب لوگ بھی میرے واقف تھے۔ مگر حقیقی معنوں میں راہ حق کی ساتھی چننے کیلئے یہی وقت تھا۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ ہماری ایک دوسرے کے لئے گواہیوں کو قبول فرمائے اور اس کا مصداق بننے کے لئے ثابت قدمی بھی عطا فرمائے! آمین
اپنے اخلاص‘ اور قابلیت کی بناء پر جلد ہی بیٹھک اسکول کا کام اس کے ذمے لگا ۔اور جنوبی پنجاب (جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے) کے کلیدی دفتر سےاس کا ناطہ جڑا رہا۔ ان دنوں مرکزی افراد دورے پہ آرہے تھے فرزانہ کے گھر میں میٹنگ تھی۔ خوب تیاری کررہی تھی اپنے کام کی گھر کی سیٹنگ میں مصروف تھی اور میٹنگ سے ایک دن پہلے شارٹ سرکٹ سے اس کے ڈرائنگ روم میں فرنیچر‘ کارپٹ کو نقصان پہنچا۔ جو اچھا خاصا نقصان تھا۔
اللہ تعالیٰ کی اسی میں حکمت ہوگی اور شاید میں نے کچھ زیادہ ٹائم اور سوچیں اس کمرے کو سجانے میں لگایا ہوگا۔ یہ شاید ……… ’’اور شکر ہے ایک کمرے سے زیادہ نہیں پھیلی آگ‘‘ وہ شکر کا پہلو نکالنا بھی خوب جانتی تھی اور بہت سے شاید لگا کر وہ اپنا محاسبہ کرتی رہی کہ ایساہونا ضروری مجھے تنبیہ کے لئے ہوگا۔
انسان کی اصل خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کا جائزہ لیتا رہے اور ہر غیر معمولی واقعہ سے کچھ سبق سیکھ لے۔
سب نے فرزانہ کو تسلی دی کہ تمہاری مثبت سوچ اور صبر کا بدلہ ضرور ملے گا دونوں جہان میں ملے گا۔ ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک شاندار گھر سے نوازا جو اس نے اپنے حسن و ذوق کے مطابق سنوار کے رکھا اور بے حد شکر گزار تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اسکو کم میں آزما کر زیادہ عطا فرمایا۔
ایک بیٹی جو پیدائش سے تھوڑی دیر پہلے دنیا سے منہ موڑ گئی تھی اسکو یاد کرتے ہوئے بہت افسردہ ہوتی۔
’’میری بیٹی نے اپنی ماں کو بھی نہ دیکھا۔ وہ اس دنیا سے کتنی بے زار تھی کیا اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہیں؟ یا آزمائش ہے؟‘‘ پھر خود ہی کہنے لگی۔
’’اللہ تعالیٰ کی اس میں حکمت ہوگی بھلا میں کون ہوتی ہوں اللہ کے کاموں میں دخل دینے والی وہ جو چاہے کرے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس بیٹی کے بعد فرزانہ کو بیٹے نوازا تو بہت خوش ہوئی اور اللہ کی شکر گزار تھی۔
ان دنوں میں شارجہ شفٹ ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ فون پر بھی رابطہ کم تھا ایک دن اچانک ہی آگئی
’’ضروری بات کرنا ہے۔‘‘
کہو
میں رکنیت سے استعفیٰ دینا چاہتی ہوں
’’کیوں‘‘؟ میرے تجاہل عارفانہ کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ بولی
’’یہ نہ پوچھو‘‘
’’اچھا‘ تم مناسب سمجھتی ہو تو دے دو مگر سوچ لو۔‘‘
یہی تو مسئلہ ہے سوچ ساتھ نہیں دیتی۔‘‘
’’تو پھر نہ دو‘‘
’’دینا ہے تو پھر ایک شرط یہ دو۔‘‘ میں نے اس کو مشورہ دیا۔
’’کسی نہ کسی اجتماعیت سے جڑی رہنا‘‘ اس کی اہمیت تو تم جانتی ہو اور وہ اجتماعیت اس اجتماعیت سے بہتر ہو جس سے تم جڑی ہوئی ہو کیونکہ ایک اچھی چیز چھوڑ کر … بہتر ہی اپنانی چاہئے۔
’’اس سے اچھی کون سی اجتماعیت ملے گی۔‘‘ …… وہ تذبذب کا شکار تھی
’’تو پھر خود بنا لو۔‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے‘‘ وہ آزردہ سی ہوگئی۔
میں اس پہ کوئی اپنی رائے مسلط نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جس طرح وہ اجتماعیت سے محبت کرنے لگی تھی اپنے خلوص کے تناظر میں اسے بہت سی باتیں پریشان کرتی تھیں
بشریٰ! تمہیں یہ رویے اور باتیں نہیں تنگ کرتیں؟
تمہیں کیا تنگی ہوتی ہے؟
بشریٰ بس رہنے دیں۔ آپ اس موضوع کو ہمیشہ ٹال دیتی ہیں۔ دیکھو فرزانہ! مقصد زندگی پا لینے کے بعد اس کی قبولیت میں کچھ امتحان تو آتے ہی ہیں۔ اب سوچ لو مقصد بڑا اہم ہے اور قابل قبول ہے یا تنگ کرنے والے رویوں کو اہمیت دینا ہے؟
ہاں! یہ تو ہے کہ یہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے اس نے فوراً ہی اپنا مزاج بدل لیا۔ مگر دوسرے ہی لمحہ وہ سراپا سوال بن گئی کہ
فہم و شعور والے دین دار لوگ نئے آنے والوں کی ٹانگ کیوں کھینچتے ہیں؟ میں نے ہلکی سی دھپ اس کے کندھے پر لگا کر کہا
خوشخطی کے ہمیشہ الگ سے نمبر ہوتے ہیں ۔ بات کی تہہ تک پہنچنے والی فوراً شانت ہوگئی۔
وہ تم استعفیٰ والی بات کرنے آئی تھی؟
لو تمہارے انداز گفتگو سے کوئی جیت سکتا ہے؟
اب اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ اجتماعیت کو نہیں چھوڑے گی یہی اس کی کامیابی ہے۔
شارجہ جانے سے وہ کافی اداس تھی۔ مگر خط کتابت کا وعدہ کرلیا۔ میرے شارجہ پہنچنے کے کچھ دن بعد ہی ایمبیسی میں مشاعرہ تھا جہاں بھائی خالد مسعود بھی آئے تھے ملاقات مشاعرے میں ہی ہوئی۔ اپنی باری آنے کے بعد وہ ہمارے پاس ہی حاضرین کی نشستوں پر بیٹھ گئے۔
’’فرزانہ آپ کو بہت یاد کرتی ہے۔‘‘ خالد بھائی نے مجھے کہا
آپ ائیندہ دوبئی ائیں تو فرزانہ کو ضرور لائیے گا
میں نے درخواست کی جو انہوں نے اس وقت مان لی۔
میرا جب بھی پاکستان آنا ہوتا تو پہلی فرصت میں فرزانہ کو فون کرتی اور اس سے سب حال احوال سنے جاتے۔
ایک بار پاکستان آمد پر اس سے آخری ملاقات ارکان کے اجتماع مں ہوئی جو اسی کے گھر پر تھا۔ پروگرام ختم ہوا تو میرا ہاتھ دبا کر سرگوشی میں بولی
’’تم رک جائو۔‘‘ بعد میں جانا‘ ڈرائیور چھوڑ آئے گا۔‘‘
جب سب چلے توئے تو بہت سی باتیں کیں اپنی تکلیف کا بتایا کہ مجھے یرقان کی تکلیف ہوگئی ہے علاج ہو رہا ہے۔
شارجہ واپس آکر جب حمیرا یاسمین نے مجھے بتایا کہ فرزانہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو مجھے بہت فکر و تشویش ہوئی شاید دوائی جعلی تھی یا دوائی کے سائیڈ ایفکٹ کی وجہ سے تکلیف میں اضافہ ہوگیا یہ۔ ’’آغا خان‘‘ سے علاج ہو رہا ہے۔
وقتاً فوقتاً اسکے بارے میں پوچھتی رہتی تھی اور ایک دن یہ خبر کہ ’’فرزانہ کا انتقال ہوگیا ہے‘‘ سن کر دل بے حد آزردہ ہوا کہ اپنی عزیز ساتھی کی ’’رخصتی‘‘ کے وقت میں موجود نہ تھی ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
’’میں سوچتی ہوں فرزانہ کی شدید بیماری کو میں نے نہیں دیکھا اس کا اچھا پہلو یہ ہے کہ وہ مجھے ہنستی مسکراتی چست کام کاج کرتی ہی نظر آتی ہے۔ یہاں پردیس میں کوئی نہ تھا جس کے پاس بیٹھ کر میں اس کو یاد کرتی اور بسنے والا میرے جذبات کو سمجھ پاتا۔ فرزانہ کی صورت کسی وقت نظروں سے نہ ہٹتی تھی ایک دن حمیرا یاسمین نے ہی خاص طور پر فون کیا کہ
"باجی میں نے خاص طو رپر فرزانہ کی باتیں کرنے کے لئے فون کیا ہے۔‘‘ فرزانہ سے حمیرا کی ملاقات اس کے انتقال سے چند دن پہلے ہی ہوئی تھی۔ فرزانہ نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ ’’مجھے حمیرا میں تمہاری شکل ہی نظر آتی ہے۔ تم چلی گئی ہو تو اس کو دیکھ کر تسلی ہو جاتی ہے۔‘‘
حمیرا نے بتایا کہ حج پر جاتے ہوئے جو دعائوں کی کتاب ہم دونوں نے فرزانہ کو دی تھی وہ اس کو بہت پسند آئی تھی اور عرفات میں خاص طور پر ہم دونوں بہنوں کو دعاوں میں خاص طور پر یاد رکھا ۔ اور حمیرا نے بتایا فرزانہ آپ کو یاد کررہی تھی بہت زیادہ، اور بتا رہی تھی کہ
’’حج کے بعد طواف زیارت کرکے میں حجر اسود کے سامنے سیڑھیوں یہ بیٹھ کر بشریٰ تسنیم کو یاد کرتی رہی۔اس وقت ایک خاتون میرے پہلو میں آکر بیٹھ گئی۔ …… اور
’’مجھے لگا کہ یہ بشریٰ ہے‘‘ تصور کو ٹوٹنے سے بچانے کی خاطر میں نے اس خاتون کی طرف نہ دیکھا کہ میرا گمان مضبوط رہے اور وہیں بیٹھ کر بشریٰ اس کی بیٹیوں کیلئے دعا کرتی رہی اور مجھے لگا کہ میں اور بشریٰ ایک ساتھ اتنی پیاری جگہ پر بیٹھے ہیں۔‘‘ یہ سن کرمیں نے بے اختیار کہا۔
… سبحان اللہ…! دلوں کے مضبوط رشتوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا نام ہے تو ایسی پیاری جگہوں پر اس قسم کے خوبصورت مشاہدے اور تجربے ایک دوسرے کے لیے ہوتے رہتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ فرزانہ کی نیکیوں کو وہ شرف قبولیت عطافرمائے جس کا نتیجہ انبیاء‘ صدیقین اور شہیدوں کا ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرزانہ خالد کی خطائوں کو معاف فرمائے۔ بیماری کا وقت جس طرح صبر‘ حوصے سے گزارا وہ اس کے حسنات میں اضافہ کا باعث بن جائے اور خطائوں کے کنارے کا سبب بن جائے اس کی اولادوں کو صدقہ جاریہ بنائے گھر والوں کو صبر جمیل سے نوازے آمین۔
حمیرا نے مجھے بتایا کہ ’’باجی! فرزانہ کی ’’رخصتی‘‘ کی تیاری میں نے بھی کرائی تھی۔ اس کے لہجے میں وہ خاص بات تھی جو کہ مجھے قرار دے رہی تھی کہ میری بہن نے وہ کام کیا جو مجھے کرنا تھا۔ میرے حصے کا کام اس نے کر دیا اور فرزانہ بھی حمیرا سے بہت خوش اور مطمئن تھی۔
وہ جس نے میری گواہی دینے کا وعدہ کیا تھا وہ مجھ سے پہلے چلی گئی اور اس نے آخری دم تک اپنے اس عہد کو بھی نبھایا جو س نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا۔ بیماری کے باوجود وفات سے کچھ عرصہ پہلے حج فورم کا پروگرام کیا اور جب جو ڈیوٹی دی گئی اسکو اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ نبھایا۔
’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔‘‘ (الاحزاب)
ہم جو اپنے وقت کے منتظر ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر استقامت عطا فرمائے اور اپنے عہد کو اور نذر کو پوری کرنے کی سعادت سے نوازے۔ آمین