باجی مینا

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

وسط فروری2011ء کی بات ہے دوبئی سے عینی کا فون آیا تو حسب معمول ہمارے درمیان محبت بھرے گلے شکوئوں کے تندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوا۔ پھر اطلاع ملی’’امی آئی ہوئی ہیں آپ کو یاد فرمارہی ہیں۔‘‘

میرے استفسار پر معلوم ہوا کہ ویزہ صرف ایک ماہ کا لگا ہے۔ کچھ دنوں بعد چلی جائیں گی۔ میرا قطر جانے کا پروگرام تھا۔ سوچا اس سے پہلے ملاقات کا اہتمام کرلینا چاہیے تو طے پایا کہ عینی جمعہ کی دوپہر کو ہمارے غریب خانے پر امی اور میاں، بچیوں کے لے کر آئیں گی۔

اس جمعہ کی دوپہر کو میری باجی مینا سے آخری بالمشافہ ملاقات تھی۔ میں نے اپنی ایک اور سہیلی تسنیم واحدی کو ان کی امی سمیت بلالیا۔ جن کے ساتھ محبت، شفقت ،  کا رشتہ بے پناہ ہے…تسنیم کی والدہ(ستارہ واحدی)  باجی مینا سے مل کر بے حد خوش ہوئیں اور ان کی قرآن کی خطاطی کو دیکھ کر بہت سراہا۔ تسنیم، باجی مینا سے مل کر بہت متاثر ہوئیں اور بعد میں مجھے کہنے لگیں کہ

’’میں نے اس عمر میں اتنی زندہ دل خاتون کبھی نہیں دیکھی۔‘‘کھانا تو باجی مینا نے برائے نام کھایا۔ مگر خوش دلی سے تعریف بہت کی۔ یہی ان کی خاص خوبی تھی۔ دوسروں کی صلاحیت کو، تھوڑے تعاون کو بہت گردانتی تھیں۔

۳ مئی ۲۰۱۱ء کو  خالہ جان ثریا اسماء(جو وزٹ پہ دوبئی آئی ہوئی تھیں) کے ساتھ ہمارے گھر ایک ادبی نشست کا اہتمام تھا۔ میں بہت خوش تھی کہ میری دلی خواہش پوری ہوئی کہ باذوق بہنوں کے ساتھ لکھے لکھانے کا پروگرام ترتیب پارہا تھا وہ بھی خالہ جان کی موجودگی میں۔ اسی نشست میں خالہ جان نے بتایا کہ باجی مینا بھی آئی ہوئی ہیں۔ ان کو بھی بلوالیتے مجھے حیرت اس بات پہ تھی کہ وہ تو چلی گئی تھیں۔ شاید نہ گئی ہوں۔ مگر معلوم ہوا کہ دوبارہ آئی تھیں۔ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر نہ ہوسکا۔ ویسے بھی اتنے کم وقت میں ان کا آنا ممکن نہ تھا… بعد میں عینی کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ زیادہ مدت کا ویزہ لگ گیا ہے دوبارہ جلدی آگئی تھیں اب کچھ عرصہ رہیں گی۔ عذرا بہن کے ساتھ یہ پروگرام طے کیا کہ ہم باجی کے ساتھ ایک پارٹی کا اہتمام کر لیں گے۔ اچھا ہے ہماری دوسری نشست بھی ایک ادبی شخصیت کے ساتھ ہوجائے گی۔

فون پہ باجی مینا سے میری بات منگل کو ہوئی۔ میں نے ملاقات کرنے کا پروگرام بتایا تو کہنے لگیں۔

’’آپ سب لوگ میرے پاس آجائو! ہاں ان خاتون کو بھی لانا جن کی خطاطی تم نے مجھے دکھائی تھی‘‘میں نے طبیعت کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں’’بس؛ بیٹا! اللہ تعالیٰ ایمان کے ساتھ بلالے۔ انتظار میں بیٹھے ہیں۔ کب بلاوا آتا ہے؟‘‘اور پھر حسب عادت منا سا قہقہہ لگایا۔ جیسے بلاوے کی آواز کہیں قریب ہی ہو۔ جمعرات کی صبح کو عذرا بہن کے ساتھ یہ طے پایا کہ ہم جون کے پہلے ہفتہ میں کسی دن باجی مینا کے ساتھ مل بیٹھیں گے… ابھی اس بات کو چند گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ ہاجرہ بیٹی کا فون آیا۔

’’خالہ! میں ہاجرہ بول رہی ہوں۔ آج صبح نانو کا انتقال ہوگیا ہے‘‘ انا للہ وانا الیہ راجعون…انسان اپنے پروگرام بناتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے اپنے پروگرام ہوتے ہیں اور اسی کے منصوبے نافذ ہوکر رہتے ہیں۔

 علم و ادب، جانفشانی،خلوص وایثار، کا ایک باب ختم ہوگیا۔ ایک شخصیت کی کہانی کا پہلا حصہ ختم ہوا۔ دوسرا حصہ، دوسری زندگی شروع ہوگئی۔ ایک زندگی سے دوسری زندگی میں داخلہ ہوگیا۔ ایک دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہوگئیں۔ پیچھے یادیں اور نیکیاں جو صدقہ جاریہ بنیں گی، رہ گئیں۔ پیچھے رہ جانے والوں کے پاس ان کی محبت، شفقت رہ گئی۔ اب ہمارے پاس ایک ہی چیز رہ گئی جوان کے کام آسکتی ہے۔ دعائے مغفرت…اور ان کی خوبیوں کی ترویج۔ ماں کے دنیا سے چلے جانے کا غم کتنا گہرا ہوتا ہے اس کا مجھے بخوبی اندازہ ہے امت السلام عینی سے ملنے کی تڑپ اس قدر شدید تھی کہ بس نہ چل رہا تھا، کیسے وہاں ، پہنچ جائوں واصف بیٹے کو فون کیا وہ اور دانیہ آئے تو عینی کے گھر پہنچے۔ گھر میں سناٹا ایسا تھا کہ دل کو دہشت ہونے لگی۔ ایک ہستی دنیا سے رخصت ہوگئی اور اس کا جسد خاکی ہسپتال میں ہے۔ ان کے جانے کی رخصت ہونے سے پہلے کی کیفیات بیٹی کے لئے بتانا کس قدر مشکل کام ہے اس کا بھی مجھے اندازہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اُس نے ہمیں شعور دیا۔ زندگی اور موت کا اور صبر کے اجر کا حوصلہ دیا۔ اسی شعور اور حوصلے کی ردا اوڑھے عینی نے ہمیں بتایا کہ’’آخری وقت پورے ہوش وحواس میں کلمہ طیبہ زبان پر جاری تھا۔ ایمبولینس سے اتارتے ہوئے، جب لڑکے نے عادتا لاالٰہ الاّاللہ ‘‘کہا تو اسے کہنے لگیں کہ’’محمد رسول اللہ‘‘بھی کہو…کچھ وقت آئی۔ سی۔ یو میں گزرا اور پھر روح پرواز کرگئی اس رب کی طرف جو اس روح کا مالک وخالق ہے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔

عرب امارات میں میت کو گھر نہیں لاسکتے۔ ہسپتال سے سرکاری اہتمام کے تحت آخری رسومات کے لئے قبرستان سے ملحق جنازہ گاہ میں لے جایا جاتا ہے۔ آخری غسل، کفن دفن کا سارا انتظام حکومت کے تحت ہوتا ہے۔ یہاں میت کو غسل دینے والے پیشہ ور افراد نہیں ہوتے۔ اچھے خاندان بلکہ  کبھی کبھی  تو شاہی خاندان کی خواتین ومرد رضاکا رانہ یہ خدمات انجام دیتے ہیں۔ بھر پور شفقت، خلوص، اور خاص کر مسنون دعائوں اور مسنون طریقہ غسل دیا جاتا ہے۔ قریبی رشتہ دار بھی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔

ہفتہ کی شام چار بجے ہم دوبئی، اپنی پیاری مینا باجی کی رخصتی کے لئے جمع ہوئے۔

” دلہن” کی رخصتی کی تیاری کی جارہی تھی۔ اور میں اپنے بارے میں سوچ رہی تھی۔ کبھی یہی وقت میرے پر بھی آنے والا ہے۔ جانے وہ وقت کتنا قریب ہے۔ دوسروں کے ہاتھوں تیار ہونے نئے کپڑے پہن کر رخصت ہونے کے لئے… مجھے اپنے ہی  کچھ الفاظ یاد آنے لگے۔

’’جب مجھے دلہن بنایا جائے گا۔

کورے لٹھے کا عروسی جوڑا

خوشبوئوں میں بسا کر

پہنایا جائے گا

وقت رخصتی ، روتی آنکھیں، اداس چہرے

لب پہ دعائیں ہوں گی

دلوں میں ’’جدائی۔’’جدائی‘‘کی صدائیں ہوں گی

پاس بیٹھی بہنیں  کچھ باتوں میں مگن تھیں  ،اور میں  اپنی سوچوں میں گم تھی کہ” دلہن” کی رخصتی کا سمے آگیا…نماز جنازہ ادا ہوچکی تھی…سامنے سیدھی سڑک پہ جنازہ کا جلوس جارہا تھا…ہم جنازہ گاہ کی عمارت سے باہر کھڑے حقیقی منزل کی طرف لے جاتے ہوئے جلوس کو دیکھ رہے تھے۔ لب پہ دعائیں اور روتی آنکھیں، اداس چہرے دل جدائی، جدائی کی صدائوں سے لبریز تھے۔

کوئی نہیں جانتا، کس کو کس مقام پہ موت آئے گی۔ یہ کتنی بڑی حقیقت ہے۔ انسان اپنے پائوں چل کر اس مقام تک پہنچا ہے جہاں اس کی موت کا پروانہ مقدر میں لکھ دیا گیا ہوتا ہے۔

دور سے وہ جگہ نظر آرہی تھی۔ قبرستان میں خواتین نہ گئی تھیں۔ مگر وہ دور سے نظر آرہا تھا کہ اپنے گھر کو روانہ ہونے والی ، پہنچ گئی ہے۔ اس دن کا سورج بھی غروب ہونے کے قریب تھا… اور بیٹیوں کے دل کا سورج بھی غروب ہوچکا تھا۔ مجھے اپنی فکر ستانے لگی۔ اس دوگز کے گھر کا تصور میرے سامنے تھا۔

بعد رخصتی دوگز کا میرا’’اپناگھر” ہوگا

اپنے گھر "میں ’’

  سب کچھ میرا اپنا ہوگا

اس گھر میں

ساتھ لایا ہوا قول وعمل کا سب اسباب

کھولا جائے گا۔

اسباب کی وضاحتوں میں نہ کچھ

بولا جائے گا۔

وہاں موجود ہر اک پہ

 گریہ طاری تھا…یقینا سب کو اپنے جانے والے کی رخصتی اور اپنا جانا بھی یاد آرہا ہوگا۔ مرد حضرات قبرستان سے واپس آنا شروع ہوگئے تھے۔ میں نے بھی واپسی کی اجازت مانگی ہاجرہ بیٹی کہنے لگی۔ آپ کا شکریہ ، آپ آئیں جزاک اللہ۔’’میں تو اپنے لیے آئی ہوں، بیٹا‘‘میں نے مری مری سی آواز میں کہا تو عینی نے ہاجرہ کو مخاطب کر کے کہا۔

’’ارے! تم نہیں جانتی۔ ان سے امی کی محبت کو…یہ توامی کے بہت قریب ہیں…بہت عرصہ سے‘‘اور یہ اتنی بڑی سچائی ہے جس کی گواہی ’’نور‘‘کا رشتہ ہے۔ نور رسالہ بھی اور نور کا رشتہ روشنی والا بھی، بچپن میں جب پڑھنا سیکھا تو نور ہی ہمارا ساتھی تھا۔ اور باجی مینا ہماری دوست تھیں, کافی عرصہ تو ہم بچے باجی مینا کو اپنے جیسی بچی ہی سمجھتے رہے۔ بس کچھ تھوڑا بڑی ہوں گی ہم سے…پھر ممانی رشیدہ سے معلوم ہوا کہ وہ تو ہماری امیوں جیسی ہیں لیکن ذہن میں تصور وہی رہا۔ ممانی رشیدہ سے ان کے بارے میں باتیں سن کر بہت مزہ آتاتھا۔ دونوں میں قرابت داری تھی۔ مجھے نہیں معلوم میری ان سے ملاقات پہلی بار کب اور کہاں ہوئی؟ غالبا جمیعت کے پروگراموں میں ہوئی ہوگی۔ نو،دس سال کی عمر سے نور میں لکھنا شروع کیا۔ میرا قلمی تعارف تو ان کے ساتھ اسی عمر سے تھا ہی …جب بھی ملیں کچھ نہ کچھ سکھایا ضرور…جمیعت کے پروگراموں میں ان کی بیٹی امت السلام سے دوستی ہوئی۔ان کی دوسری  بیٹی زہرہ نہالہ  سے میرے ماموں زاد بھائی سے رشتہ ہونے پہ قریبی رشتہ داری بھی ہوگئ …لیکن ان کے ساتھ جودلی تعلق تھا وہ ان سب رشتوں سے جدااور مضبوط تھا ۔ ہمارے گھر جب کھانے پہ تشریف لائی تھیں تو میں نے تسنیم واحدی سے باجی مینا کا تعارف کروایا

’’یہ میری دوست بھی ہیں  استاد بھی اور مرشد بھی‘‘

تو زور سے ہنسیں اور کہنے لگیں۔’’لو اور سنو! مرشد بھی بنالیا۔‘‘

پاکئی داماں کی حکایت سنو، ان سے

’’تو آپ انکار کرتی ہیں کیا؟ ‘‘میں نے ان کو گائون اتارنے میں مدد دیتے ہوئے پوچھا تو کہنے لگیں’’بیٹا! سب اس کا کرم ہے کہ دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے‘‘اور پھر قہقہہ لگاتے کہنے لگیں’’اور محبت کیا کیا گل نہیں کھلاتی ہے۔‘‘

وہ جب بھی دوبئی آتیں ہم عینی کے گھر یا ہمارے گھر کھانے پہ ضرور جمع ہوتے۔ اور خود میرا تعارف کراتے ہوئے جو تعریف وتحسین میں کہا کرتیں تھیں وہ نادم کرنے کو کافی ہوتا تھا… ایک بار عید دعوت پہ عینی کی کولیگ مسز اطہر بھی موجود تھیں … ان کو میرا تعارف کراتے ہوئے پاکئی داماں کی حکایت کو اتنا دراز کیا کہ انہوں نے اپنے سکول کے سالانہ فنکشن میں مجھے مہمان خصوصی کے طور پر بلالیا۔ اور اس میں امت السلام بھی’’قصور وار ‘‘تھی۔

تنقید، اعتراضات، غلطیوں کی ٹوہ میں رہنے کی بجائے۔ شاباش ، حوصلے اور تحسین کے انداز سے بزرگ ،اپنے بچوں کو زیادہ موثر انداز میں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کرسکتے ہیں… اچھائی کم بھی ہو اس کو اجاگر کر کے برائی کا پہلو کم کیا جاسکتا ہے۔ جہاں بھی موقع ہوسکتا تھا بچوں سے گفتگو کرتیں۔ ان کے مافی الضمیر کو ابھارنے کے لئے سوال کرتیں۔ اس طرح گویا وہ خود کچھ نہیں جانتیں۔ بچوں کوآفاقی نظر سے دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے کی ہمت دلاتیں۔ میں نے لاہور رہائش کے زمانہ میں ان سے کافی ملاقاتیں کیں۔ بچوں کو ان سے ملوایا جب بھی اپنے گھر ان کو آنے کی دعوت دی تو انکار نہ کیا۔ اصرار کر کے اپنے گھر بھی بلواتیں اور ہم نسبت روڈ پر ان سے ملنے جاتے۔ یہ ان کی مجھ ناچیز سے محبت کا عملی مظاہرہ تھا کہ جب تک میں لاہور رہی اپنے ہر بچے کی شادی پہ ضرور بلایا اورشرکت کی تاکید بھی کہ حالانکہ وہ مختصر سے اکٹھ  کی قائل تھیں اور اس پہ عمل بھی کرتی تھیں ۔ ایک بار مجھے بلوایا کہ آئو دیکھو، اندرون شہر میں چھتوں سے بسنت کا سماں کیسا ہوتا ہے؟ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ مجھے اس لئے بلوارہی ہیں؟‘‘تو کہنے لگیں۔ ’’زندگی میں کبھی اس نظر سےدکھانا پڑے تو حقیقت کی نظر سے لکھو گی نا!‘‘ جب ہم اتفاق ٹائون سے ان کے گھر روانہ ہوئے تو سخت آندھی آگئی۔ موٹر سائیکل پہ تھے۔ ان کے گھر پہنچے تو ہم دونوں میاں بیوی دھول سے اٹےہوئے تھے…تو بہت محظوظ ہوئیں۔

’’دیکھو، ایک یہ تجربہ بھی ہوگیا، تمہیں‘‘

ان کو ہر چیز پر نظر، ہر بات کسی اور تناظر میں سمجھانے کا فن آتا تھا۔

منصورہ میں تحریکی پروگراموں، حریم ادب کے اجلاسوں میں ان کاساتھ ہمیشہ ایک مثبت تاثر نمایاں محسوس ہوتا تھا۔ اپنی بیماری کا تذکرہ نہ کرتیں بلکہ پوچھنے پر بھی ہنس کر ٹال دیتیں۔ اپنے حصے کی ذمہ داریوں کو ادبی ہوں ‘تحریکی یا معاشرتی احسن طریقے سے نبھایا ان کے گھر کی سیڑھیاں بہت مشکل تھیں۔ میں ہمیشہ حیران ہوتی اور ان کی ہمت کی داد رہتی کہ وہ کیسے ان سے اتر، چڑھ کر آتی جاتی ہیں۔  ان سے پوچھتی تو ہنسنے لگتیں۔

جب ہم ملتان شفٹ ہوئے تو اپنی چھوٹی بیٹی عارفہ ہمایوں کے پاس آئی ہوئی تھیں۔ حریم ادب کی نشست ہمارے گھر پہ منعقد ہوئی۔ ان کی گفتگو کا انداز بہت الگ سا ہوتا اور شریک مجلس خواتین مدتوں یاد رکھتیں تھیں۔ اس دن کمال مہربانی سے میرے پاس رات تک ٹھہریں۔ کھانے کی میز پر بچوں سے سیر حاصل گفتگو کی۔ تاریخ اسلام، دنیائے تاریخ، پاکستان غرض پر ہر موضوع پر بچوں سے سوالات کئے۔ نویرہ بیٹی کہنے لگیں’’ان کے سوالوں سے مجھے بہت سی باتوں کے بارے میں جستجو کی طلب پیدا ہوئی۔‘‘واصف بیٹے سے بہت پیار تھا۔ لاہور بنت احسن مرحومہ کے گھر ایک ادبی نشست میں واصف نے ایک لطیفہ سنایا تو بے حد لطف لیا اور جب بھی ملتیں اس لطیفے کو یاد کرکے خوب محظوظ ہوتیں اور پیار کرتیں دعائیں دیتیں واصف کو کہتیں میرا  نواسہ  ابراہیم مجھے واصف کے مشابہ لگتا ہے ۔

جب میں رات کو انہیں واپس عارفہ کے گھر چھوڑنے جارہی تھی تو آپا بنت الاسلام کو یاد کرنے لگیں۔ ان کی بہت سی باتیں بتائیں اور کہنے لگیں’’جانے والوں کی خوبیوں کو یاد کرنے سے ان کے ساتھ محبت کا تعلق ٹوٹتا نہیں ہے۔‘‘

مجھے کہنے لگیں’’تم نے نور‘میں اتنی کہانیاں لکھی تھیں۔ ان کو کتابی شکل میں چھپوا لو‘‘ اس کا تعارف آپ لکھ دیں گی؟ میں نے شرارتا پوچھا… تو کہنے لگیں’’کیوں نہیں؟ آخروہ میرے ہاتھ سے ہو کر چھپنے کو دی گئی تھیں‘تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ جب لکھ دیں گی تو میں چھپوالوں گی۔‘‘ بات آئی گئی ہو گئی…ایک دن عارفہ کا فون آیا۔

’’باجی! امی نے آپ کی کتاب کے لئے کچھ لکھنے کو کہا تھانا! وہ تو بھول گئیں تھیں۔ کراچی سہیل بھائی کے پاس جاکر یاد آیا تو مجھے انہوں نے املا کرادیا ہے۔ اب آپ اس امانت کو وصول کرلیں۔‘‘ ’’کیسے ؟‘‘ میں نے حیرت سے ڈوبی میں آواز میں پوچھا۔

’’میں آپ کو املا کرادیتی ہوں نا!‘‘

’’چلو، لکھوا دو… ‘‘میں نے املا کرنا شروع کی۔ عارفہ بولتی جارہی تھی۔

’’عارفہ‘یہ کچھ زیادہ تعریفیں نہیں ہوگئیں ۔‘‘تو عارفہ ہنسنے لگی۔

’’باجی! امی تو کہہ رہی تھیں۔ جو کچھ تم اپنی مرضی سے ڈالنا چاہو وہ بھی اجازت ہے‘‘ حد ہوگئی’’بھئی آپ امی کی چہیتے لکھاریوں میں شامل ہیں۔‘‘ میری بات کے جواب میں عارفہ کی آواز آئی۔

میں نے ان کے الفاظ اپنے پاس محفوظ کرلئے، کہ میرے لئے یہ سرمائیہ افتخار ہیں۔ مگر ان کی محبت کی فروانی کے سامنے میری کم مائیگی نادم ہی رہی۔

جانے والوں کی محبتوں کو سلام، ان کی نیکیوں کو اللہ کرے ملے دام، مغفرت کی دعائیں ان کے لئے صبح وشام۔

ہفتہ 21مئی شام کے وقت جب سورج ڈھل رہا تھا ہم دور سے ان کی آخری آرام گاہ کو دیکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ شہر خموشاں میں ایک باسی اور جا بسنے کو تیار تھا۔

میں اندر ہی اندر لرز رہی تھی۔ سب کے ساتھ اس  نقل مکانی کا مرحلہ آنا ہے۔ نہ جانے سفر آخرت کسی نے کیسے اور کہاں اختیار کرنا ہے۔

اے میرے رب کریم ورحیم

تیری ساری رحمتوں کا واسطہ

تیرے نبی کی ساری شفقتوں کا واسطہ

زندگی کا نیا باب

قول وعمل کا سب اسباب

کھلنے سے پہلے

ان وحشتوں کا سامنا کرنے سے پہلے

دلہن کی’’ رخصتی‘‘سے پہلے

کوئی ہنر، کوئی موقع دے دے

اپنے گھر میں ’’اسباب‘‘سجانے کا

سلیقہ دے دے۔

میں وہیں  گاڑی میں بیٹھی دل ہی دل میں دعاکرتی رہی کہ

’’اللہ رب العزت جانے والوں کی زندگیوں کو ہمارے لئے، ہماری اولادوں کے لئے، روشنی اور خوشبو فراہم کرنے کا ذریعہ بنائے رکھے۔ ان کی نیکیوں کو جاری وساری رکھنے کے لئے ہمارے لئے آسانیاں فراہم کرے۔ ان کے لئے دعائے مغفرت کا تحفہ ارسال کرنے میں ہمیں کوتاہی میں مبتلا نہ کرے۔ نیکی کے چراغ سے چراغ جلتے رہیں۔ آمین۔‘‘

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s