الحمدللہ رب العلمین والصلوة والسلام علی محمد رحمة للعالمین وخاتم النبیین
صحیح الترغیب والترہیب للالبانی جزء الاول نمبر 985 میں الحاکم نے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں تین قدم کے منبر پہ چڑھتے ہوئےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قدم پہ” آمین” کہا ۔آپ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے ان میں سے ایک بات یہ فرمائی کہ "جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا اس آدمی کے لئے ہلاکت ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی نہ کروا سکا ۔”
حدیث مبارکہ کے اس حصے میں جس کام کی طرف توجہ دلائی گئ ہے وہ یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ جس مومن کی زندگی میں آئے اس کی زندگی کا ایک خاص مقصد بن جاتا ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرے کہ اپنے رب کو منالے اور اپنے قصور معاف کروا لے۔ جو مومن اس میں کامیاب نہ ہوسکا اس کی بربادی و ہلاکت کے لئے بددعاہے فرشتوں کے سردار کی طرف سے، اور آمین ہے نبیوں کے سردار کی طرف سے ،اور ان دو برگزیدہ ہستیوں کی بد دعا قبول ہوجائے گی سارے جہانو ں کے رب کی طرف سےاللہ تعالی ہم سب کو اس بربادی سے بچائے۔ آئیے ہم اس بربادی سے بچنے کے لئے سنجیدگی سے غوروفکر کریں اور آج اور ابھی سے کچھ عملی کام کریں۔
سب سے پہلےسیدنا جبرئیل علیہ السلام کی بد دعا سے بچنے کا پختہ ارادہ کر لیا جائے ۔
اللہ تعالی سے ارادے کی تکمیل کے لئے استعانت اور رمضان تک پہنچنے کی مہلت طلب کی جائے۔
ہر وقت با وضو رہنے کی کوشش کریں ، ہر صلوة کی ادائگی پہ گزشتہ صلوات (نمازوں) کی سستی،دکھاوے اور چوری کی معافی مانگ کر آئندہ کےلئے بہتر سے بہترین صلوة کی ادائیگی کی دعاکی جائے اور یہ عمل ہر نیک کام پہ بھی دہرایا جائے۔ نیک کام کے قبول ہونے کا یقین رکھا جائے۔
صبح و شام اور صلوة ( نماز) کے بعد مسنون اذکار پڑھنے کی عادت پختہ کر لی جائے۔
پندرہ شعبان سے پہلے گزشتہ فرض روزوں کی قضا پوری کر لی جائے۔
اپنے طبی معائینے کروا کر دوا کی باقاعدگی اور پرہیز کا خیال رمضان میں بہتر عبادات کی نیت سے رکھا جائے۔
اٹھتے بیٹھتے مختصر استغفار اور ہر صلوة کے بعد سید الا ستغفار شعور کے ساتھ پڑھا جائے ۔
حقوق العباد کی ادائیگی میں سبقت کی کوشش کی جائے اور صدقہ خیرات کی کثرت کی جائے۔
(ان الحسنات یذھبن السیئات)
لین دین قرض وغیرہ کے معاملات صاف کر لئے جائیں ۔
حقوق العباد میں اللہ تعالی کی مقرر کردہ ترجیحات و معاملات کا تعین قائم رکھنے کے لئے نفس کی شرارتوں کو سمجھتے ہوئے اس کی اصلاح کرلینی چاہئیے۔
اللہ کے حضور تہجد کے وقت اپنے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معافی طلب کی جائے ۔
قرآن پاک کو اپنے دل پہ اترنے کی کیفیت کے ساتھ تلاوت کی مشق کی جائے یہ جبھی ممکن ہوگا جب اس کا فہم نصیب ہوجائے گا۔
زبان کو قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق قابو میں رکھنے کی مشق کی جائے کہ ” جو خاموش رہا ،نجات پاگیا”اور "بھلی بات کرو ورنہ خاموش رہو ” اس سے زبان کے گناہوں سے بچ جائیں گے۔
جس طرح امتحان گاہ میں آخری وقت میں طالب علم اپنے پرچے کی کمی بیشی پہ نظر ڈال کر اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے ہم بھی سال بھر کی کارکردگی پہ نظر ڈال کر اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیں۔ تاکہ ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ مقبول روزوں کی سعادت حاصل ہو جائے۔
یہی خیال کیا جائے کہ یہ ہو سکتا ہے صحت تندرستی کے ساتھ زندگی کا آخری رمضان نصیب ہوا ہو جس کی بدولت ہم جنت اور اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا حاصل کر سکتے ہیں ۔
جب ہم جنت میں داخل ہونے کے لئے رب کو راضی کرنے کا ارادہ کر لیں گے تو رحیم و کریم رب ہماری مدد فرمائے گا۔ ایک ماں اپنے بچے کو روٹی مانگنے پہ انگارہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تو وہ رب اپنے بندے کو ہدایت مانگنے پہ مایوس کیوں کرے گا؟ اس کی تو منشاء ہی یہ ہے کہ اس کے بندے اس کی طرف پلٹ آئیں ۔ رمضان المبارک کا یہی مقصد ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو معاف کردے جہنم سے نجات دے کر جنتوں کا وارث بنا دے۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہمیں رمضان المبارک کی ہر ساعت سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کی آسانی صحت و عافیت کے ساتھ عطا فرمادے اور ہمیں بد نصیب لوگوں میں شامل ہونے سے بچا کر کامیاب خوش بخت لوگوں میں شامل فرمادے آمین