الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
جامع ترمزی حدیث نمبر 1997 میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "اپنے دوست سے محبت ایک حد تک رکهو، شاید کہ کل وہ تمہارا دشمن بن جائے اور اپنے دشمن سے دشمنی ایک حد تک رکهو ممکن ہے کل وہ تمہارا دوست بن جائے۔”
اسلام دین فطرت ہے اور فطرت کا حسن اعتدال میں ہے در حقیقت حسن کے معنی کسی چیز کا اعتدال اور متوازن ہونا ہی ہوتا ہے۔الله سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کی تخلیق احسن تقویم پہ بنائی ہر عضو اپنی جگہ پہ متناسب بنایا ۔ عادات و اعمال میں اعتدال اور توازن کا یہی حسن انسان کی شخصیت کا وقار بڑهاتا ہے۔خوشی میں آپے سے باہر نہیں ہوتا اور غم میں ذہنی توازن نہیں کهوتا، خوشحالی میں فخر کے ڈنکے نہیں بجاتا اور بد حالی میں فقر کا رونا نہیں روتا، اسی طرح دوستی اور دشمنی میں حدود کے اندر رہتا ہے۔انسانوں کے درمیان ہمیشہ ایک جیسے جزبات اور تعلقات نہیں رہتے مزاجوں اور مفادات کا فرق ان میں ٹکراؤ پیدا کرتا ہے۔بہت قریبی دوستوں میں نزاع ہو سکتا ہے کیونکہ اس کرہ ارضی میں انسانوں کے درمیان تعلقات کا ہر امکان موجود رہتا ہے۔اس حدیث مبارکہ میں مومنوں کو یہی سبق دیا جا رہا ہے کہ اپنے دوستوں سے اپنے ایسے راز نہ کہو کہ جب وہ تم سے نا خوش ہوں تو تمہاری عزت سے کهیلنے لگ جائیں۔کسی بهی دوست کی خیر خواہی کا پتہ اسی وقت چلتا ہے جب باہم اختلاف اور نزاع کا موقع سامنے آئے۔
وہ شخص الله کی نظر میں انتہائی نا پسندیدہ ہے جو اپنے دوست کی عزت کے درپے ہوجائے اور اس کے اعتماد کو ٹهیس پہنچائے۔ بھروسہ اور اعتماد نہ رہے تو دوستی دشمنی میں بدل جاتی ہے نفرت کی بنیادی وجہ اعتماد اور بھروسے کا ٹوٹنا ہوتا ہے۔ اس کا مشاہدہ اور تجربہ ہم آئے روز کرتے ہیں۔مدتوں دوستی نبهانے والے اختلافات ہونے پہ ایک دوسرے کے وہ راز اگلنے لگتے ہیں جن سے اختلاف دشمنی میں ڈهل جاتا ہے۔مسند أحمد 168 /2حدیث نمبر 6566میں عبدالله بن عمرو عاص سے مروی ہے
"الله تعالى کے نزدیک بہترین دوست وہ ہیں جو اپنے دوستوں ساتهیوں کے ساتھ (ہر حال میں)بہتر ہیں۔”
"انسان کا دل ہانڈی کے جوش مارنے سے بهی زیادہ تبدیلی کا شکار ہوتا ہے۔”(مسند احمد 4/6)
ہر مومن کو اپنی اور دوسروں کی اسی قلبی کیفیت کو مد نظر رکهتے ہوئے یاد رکهنا چاہئے کہ دوستی اور دشمنی کا جزبہ بهی کسی وقت بدل سکتا ہے۔اس لئے مومن کم گو اور اپنی لو الله سے لگانے والا ہوتا ہے وہ اپنے جزبات اپنے دکھ اپنی خواہشوں اور تمناؤں کا اظہار سب سے زیادہ اپنے الله تعالى سے کرتا ہے کیونکہ وہی ایک وفادار دوست ہے وہی ہمارے دکهوں کا مداوا کر سکتا ہےاور ہماری عزت نفس کا خیال رکهنے والا ہے۔ (والذین آمنوا أشد حب لله) دوستی کے بارے میں جو حدود و قواعد شریعت نے نافذ کئے ہیں دوستی ان کے اندر ہی رکھنا ایمان کی تکمیل ہے۔ دوستی اور محبت بھی حلال اور حرام ہوتی ہے ۔ حلقہ احباب کی بنیاد اللہ کے لئے اور اللہ کی خاطر ہونا ہی دنیا و آخرت میں سرخروئی کا با عث ہے۔
اسی طرح نفرت کے اظہار میں حد سے گزر جانا مومن کا شیوہ نہیں ا س دنیا میں امکانات کا وسیع میدان ہے۔حالات و واقعات نفرت دور کر سکتے ہیں اور مفادات دشمنی کو دوستی میں بدل سکتے ہیں۔ دشمنی کے دوستی میں تبدیل ہونے سے زیادہ امکانات اس بات کے ہوتے ہیں کہ دوستی ، دشمنی میں تبدیل ہوجائے کیونکہ توقعات اور امیدیں ٹوٹنے سے دل دکهتے ہیں ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہےکہ:
کرو نہ کسی سے محبت زیادہ
مبادا کہ ہوجائے نفرت زیادہ
مومن کی دوستی اور دشمنی کا پیمانہ الله کے لئے ہوتا ہے اس لئے وہ ہوش مند رہتا ہے۔ اپنے سارے راز دل کی باتیں اپنے جگری دوست سے بهی نہیں کہتا کہ اس کا اصل محبوب اس کا رب ہے۔اور مؤمن اختلاف نزاع و جھگڑے میں اپنے اخلاق و ایمان سے محروم ہونے والے اعمال نہیں کرتا کہ اس کا دشمن انسان نہیں شیطان ہے اور ساری نفرت اور جنگ اسی سے ہونی چاہئے۔
اللهم إنا نعوذبک من خلیل ماکر عیناه یرانا و قلبه یرعانا
اللهم إنا نسئلک حب الخیر و الهمنا رشدنا و اعذنا من شرور أنفسنا
اے الله ہم ایسے دوست سے تیری پناہ میں آنے کی التجا کرتے ہیں جس کی آنکهیں ہمیں دیکهتی ہوں اور جس کا دل ہمارا مخالف ہو۔ اے الله ہم ہر خیر کا سوال کرتے ہیں ہماری راہنمائی فرما اور ہمیں ہمارے نفس کے شر سے بچا کے رکهیو آمین