حدیث ۔ ۲۸

 الحمدلله رب العالمين  والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین

صحیح مسلم حدیث نمبر2553 مسند احمد 228/4 کے مطابق سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنه نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "نیکی حسن خلق کا نام ہے،اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کهٹکے اور تو پسند نہ کرے کہ لوگوں کو اس کا علم ہو۔”

اس حدیث مبارکہ میں اپنے اعمال  کی جانچ پرکھ کا آسان طریقہ بتایا گیا ہے۔ حسن خلق  اچهے برتاؤ کا نام ہےاور یہی اچها برتاؤ جب مومن کرتا ہے تو یہ عبادت ہے۔سارے حقوق العباد ادا کرنا بهی عبادت ہے۔ ہر وہ عمل جس کی بنیاد الله کی رضا حاصل کرنا ہو وہ نیکی ہے اگر چہ وہ راستے  سے تکلیف دہ چیز ہی ہٹا دینا ہو۔اس عمل کے بعد اگر دل میں سکون اور راحت محسوس ہوتی ہے تو یہی مقبول، حسن عمل ہے. اور یہی ایسی  نیکی  ہے جس کی قبولیت کا امکان  دل کا ،وہ   سکون بڑها دیتا ہے جو اچهے کام کرکے محسوس ہوا تها۔

اور گناہ وہ ہے جس سے دل میں  گهبراہٹ پیدا ہو۔تشویش اور پریشانی ہو کہ کسی کو اس کا علم نہ ہوجائے۔  جب انسان کے دل میں خدشات پیدا ہوں گے تو یہ خطرے کی گهنٹی ہے کہ” رک جاؤ باز آجاو "دل کی تیز دهڑکن  دراصل  دستک ہے الله سبحانه وتعالى کی طرف سے کہ” میں دیکھ رہا ہوں” ۔ انسان کے لئے یہ کیفیت الله تعالى کی طرف  سے نعمت ہے۔ایسی نعمت جس کی قدر کرنا اس کی پہچان رکهنا اس کا  شکر ادا کرنا اس کی حفاظت کرنا ہی نجات کا باعث ہے اور دنیا میں مطمئن زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے۔

جب کوئی کسی کے مال کو چراتا ہے تو ڈرتا ہے کہ اسے علم نہ ہوجائے جب کسی کی غیبت چغلی کرتا ہے تو تشویش میں مبتلا رہتا ہے کہ اس تک بات نہ پہنچ جائے،  اسی طرح جو کسی کا حق مارتا ہے   خیانت کرتا ہے اپنی طرف سے سارے اقدامات کرتا ہے کہ اس کا یہ عمل چهپا رہے۔جهوٹا شخص ایک جهوٹ کو چهپانے کے لئے سو جهوٹ اور بولتا ہے اور ہر جهوٹ کو چهپانے میں سرگر داں رہتا ہے۔خیانت مال کی ہو یا جزبات کی خطاکار اس کے فاش ہونے سے ڈرتا اور اسے چھپانے کے حیلے بہانے کرتا ہے ۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ رب جو سینوں میں چھپے راز جانتا ہے اس کے سامنے خطا کار کے لگائے ہوئے  کنڈے ،تالے کوڈ ورڈز  کوئی معنی نہیں رکھتے وہ جب راز فاش کرنے کا ارادہ کرلے تو دنیا میں ہی  خطاکار کے اپنے ہاتھوں اس کے انتظامات کروا دیتا ہے ۔ قیامت کے دن بھی اسی طرح  انسان کے اپنے جسم کے اعضاء اس کے خلاف ہو جائیں گے ۔اور رب  نے اس دن سے  بھی خبردار کیا ہے جب  لازما  اعمال کا ہر پہلو سامنے لایا جائے گا۔

 (وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ * إِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَخَبِيرٌ)

مومن اپنے اعمال کی جانچ پرکھ میں بہت حساس  رہتا ہے اس کا دل اس کی راہنمائ کرتا ہے.نیکی کرکے خوش ہوتا ہے اور یہ خوشی اس کے چہرے سے محسوس ہوتی ہے کیونکہ چہرے کو رونق،     روح کی بشاشت عطا کرتی ہے. اور زندگی کے شب وروز سکون سے بسر ہوتے ہیں  گویا کہ۔

(و وجوہ یومئذ ناضرہ الی ربھا ناظرہ)

کبھی گناہ ہوجائے  تو مومن ایسی بے چینی محسوس کرتا ہے جیسے اس کے دل میں کانٹا چبھ گیا ہو یا اس کی آنکھ میں کوئی کنکر تکلیف دے رہا ہو وہ جب تک اپنے  الله کے سامنے توبہ وانابت کا اظہار  نہیں کر لیتا اسے چین نہیں آتا۔ (یہ احساس ندامت وہی محسوس کرے گا جو گناہ کو گناہ سمجھے گا)اور جب تک ندامت کے آنسوؤں سے آنکھ کی صفائی نہیں ہوجاتی  اس کی  روح بےقرار رہتی ہے۔کہتے ہیں آنکھیں روح کی کھڑکیاں ہیں ۔کھڑکیوں سے وہی نظر آئے گا جو اندر موجود ہوگا۔۔ مؤمن گناہ کرکے کبهی شاد نہیں رہ سکتا۔  اس  کے چہرے پہ  ہر وقت پریشانی طاری رہتی ہے گویا کہ   (وجوہ یومئذ  باصرہ تظن ان یفعل بھا فاقرہ )وہ ایسے چور کی مانند ہوتا ہے جس کی جیب میں چوری کا مال ہو اور اسے کسی وقت بهی رنگے ہاتهوں پکڑے جانے کا خوف ہو اور یہ خوف اسے کئی ذہنی روحانی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے جب کہ مومن نیکی کرکے  خوش اور گناہ کے کانٹے سے جلد از جلد نجات پاکر شاداں فرحان ہوجاتا ہے۔مومن کی زندگی کے بارے میں الله تعالى نے فرمایا ” لا خوف علیهم ولا هم یحزنون "  وہ نیکی کرکے خوش اور مطمئن رہتے ہیں اور وہی نیکی  خوش اور مطمئن کرتی ہے جو الله کی رضا کے لئے ہو اور وہ گناہ  ارادے سے کرتے نہیں  ان سے کسی وقت نسیان یا کسی اور بشری کمزوری کی بناء پہ   ہوجاتا ہے تو وہ  فورا  اپنی غلطی پہ متنبہ ہوجاتے ہیں یا جب بھی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اپنی اصلاح کر لیتے ہیں۔ توبہ و انابت اور اصلاح عمل  پہ استقامت سے ان کی روح  تروتازہ  اور دل خوش روح   مطمئن ہوجاتی ہے۔دل کو زندہ رکهنے کا یہی طریقہ ہے اور دل مردہ، دل نہیں  کہلاتا  بس گوشت کا ایک ٹکڑا رہ جاتا ہے۔ اگر احساس ندامت ختم ہو جائے یا توبہ جھوٹی   ہو تو پھر دل  پہ  مہر  لگ جاتی ہے ۔دل کو تالے لگ جاتے ہیں ۔اور تالوں کو بھی دل سمیت زنگ لگ جاتا ہے ۔  جب دل اندھے ہوجاتے ہیں تو ہر برائی خوش نما لگنے لگتی ہے اور نصیحت بری لگنے لگتی ہے ۔ فرمایا رب العزت نے کہ”  آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینے میں ہیں۔”  

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے سینوں میں واقعی   دل ہے  یاصرف خون پمپ کرنے کا ایک عضو ہے۔؟

دل مردہ دل نہیں ہیں اسے زندہ کر دوبارہ

کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

اللهم إنا نسئلک قلبا سلیما و اواها منیبا اللهم إنا نسئلک الهدی واتقی والعفاف والغنی آمین

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s