حدیث ۔ ۲۷

 والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین

صحیح ابن حبان54/2 حدیث نمبر 3 42 مسند احمد 224/5 و السلسلة الصحیحه حدیث نمبر1114  کے مطابق سیدنا عمرو بن حمق خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنه نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد روایت کیا۔

"جب الله تعالی کسی کی بهلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی نیک نامی کر دیتا ہے۔آپ سے  پوچها گیا کہ اس سے کیا مراد ہے؟ فرمایا "الله تعالى اسے  وفات سے قبل نیک عمل کی توفیق دیتا ہے حتیٰ کہ اس سے متعلقہ افراد اس سے راضی ہو جاتے ہیں”

ساری انسانیت موت پہ یقین رکھتی ہے ۔کسی کی موت کب آئے گی یہ کسی کو  علم نہیں۔ البتہ جوانی کا دور گزار کر انسان  زندگی کی سرحد سے دور اور موت کی وادی کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔

جوانی کے دور میں کی گئی خطائیں اور غفلتیں شرمندہ کریں  اور ان کے مداوا کی کوششیں بهی ہونے لگیں تو ایسے انسان کو الله کی رحمت ، آخرت کی باز پرس سے بچا لے گی اور یہ اسی رب العالمين کا احسان عظیم ہوگا کہ وہ لوگ جو اس انسان سے تنگ تهے اس کی موت سے قبل اس سے راضی ہو جائیں گے۔ یہ بهلائی وہ ہے جو اس کے لئے الله تعالى خود  چاہتے ہیں۔ اب عقلمند انسان تو وہی ہے جو الله کی طرف سے عطا ہونے والی بهلائی کو قبول کرتا ہے ۔ اس بهلائی کو پہچان لینا ہی مومن کی امتیازی شان ہے۔اگر کبهی کسی کو صالح لوگوں کے حلقہ احباب میں شامل ہونے کا موقع میسر ہو تو اسے اس کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئیے،اس لئے کہ یہ الله تعالى کی طرف سے اس کی بهلائی کا اشارہ ہے۔نیکی کے  مواقع خود بخود سامنے آنے لگیں،انفاق فی سبیل اللہ کی راہ ہموار ہو نے لگے،غرض جب بهی انسان محسوس کرے کہ اس کو  معمول سے ہٹ کر نیکیوں کی طرف راغب ہونے کے لئے راستے کهل رہے ہیں تو وہ جان لے کہ رب اسے اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ میری طرف آؤ مجھ سے مغفرت طلب کرو اور اس کشادہ راہ پہ چلو جو میں نے تمہارے لئے کهول دی ہےاور وہ انسان یہ سوچے کہ شاید یہ موت سے پہلے   اسے  آخرت سنوارنے کا موقع دیا جارہا ہو۔ اگر یہ ضائع ہوگیا تو دنیا میں نیک نامی نہ ملے گی اور یہی نیک نامی دراصل آخرت میں گواہیاں ہوں گی۔جب انسان الله تعالى کی طرف سے بهلائی کے اشارے نہ سمجهے اور غفلت کی چادر نہ اتارے تو ان مواقع کا رستہ بند ہوجاتا ہے۔چالیس سال کی عمر کے بعد انسان کی ذہنی پختگی اس کی شخصیت و کردار کو مستحکم کر چکی ہوتی ہے۔اب عمر کا اگلا دور اس شخصیت کو منوانا ہوتا ہے۔اگر الله تعالى زندگی کی مہلت دے تو چالیس سال تک انسان نے اپنی علم و دانش کا  جو مال جمع  کیا اور اب  اس مال سے تجارت کرنے کا وقت ہے.جس نے جیسا مال  جمع کیا وہ ویسی ہی کمائی  کرے گا.اسی چیز میں اضافہ ہوگا جس سے تجارت شروع کی. اگر اچها مال ہے تو اچها ہی ملے گا۔اگر برا ہے تو  بھی الله تعالى کی طرف سے بهلائی کے اشارے اس کی فہم ودانش کا امتحان لے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ بڑهاپے کی عمر کو پہنچ جائے پهر بهی اس رب العزت کی رحمت واسعہ نے اسے فراموش نہیں کیا  ، لوٹ آنے کے راستے بند نہیں ہوئے۔ الله سبحانه وتعالى تو چاہتا ہے کہ اس کا بندہ دنیا  چهوڑنے کے بعد اس سے ملاقات کرے تو صاف ستهرا ہو۔کوئی میل کچیل  نہ ہو۔ اگر کوئی بندہ الله سبحانه وتعالى کی طرف سے نیکی کا راستہ  کشادہ کر دینے والی بهلائی  اور نیک نامی کے مواقع کو نہ سمجهے تو پهر الله اس کو تکلیفوں آزمائشوں بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ تاکہ  گناہوں کی میل کچیل اس  سے دور ہو جائے۔الله تعالیٰ کے ہر فیصلے میں انسان کی بهلائی پوشیدہ ہے۔اس کے ہاتھ میں خیر ہی خیر ہے۔اس خیر  اور بهلائی کی طرف راہنمائی ہوتی رہتی ہے اس کی پہچان کرنا تسلیم کرنا اور اس کو عملی زندگی کا حصہ بنانا انسان کا اپنا کام ہے۔الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کی بهلائی میں کوئی کمی نہیں رکهی یہ بندے ہی ہیں جو اس بهلائی کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں اور جو جان جاتا ہے کہ الله سبحانه وتعالى  اس کا خير خواہ ہے تو الله تعالى بهی اس کے اس فہم اور شعور کو مزید بڑهاتا ہے نیکی کے راستے اور کشادہ کرتا ہے اس کے قصور معاف کرتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتا ہے۔معاشرے کے صالح لوگوں میں اس کا تزکرہ ہوتا ہے اور اسے صالح لوگوں میں نیک نامی نصیب ہوتی ہے۔اصل خوش نصیبی یہی ہے کہ کسی کا نیک لوگوں میں نام شامل ہو جائے ۔

ر ب ھب لی حکما و الحقنی بالصالحین واجعل لی لسان صدق فی الاخرین

اللهم إنا نسئلک حبک و حب من یحبک والعمل الذی یبلغنا الی حبک آمین

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s