حدیث ۔ ۲۵

 الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6116  کے مطابق  سیدنا أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کی کہ "غصہ نہ کیا کرو”

رسول اللہ ﷺ لوگوں کو ان کی زہنی استعداد، علم، عمر،نفسیات اور اخلاقی کمزوریوں کو سامنے رکهتے ہوئے  نصیحت فرماتے تهے۔جیسے کسی کو نصیحت فرمائی جهوٹ بولنا چهوڑ دو۔کسی کو سخاوت کی تلقین کی کسی کو یتیم مسکین سے کسی کو والدین سے حسن سلوک کی تلقین کی۔اسی طرح کسی شخص کو غصہ نہ کرنے کی ہدایت کی۔

ہر انسان  طبعی کمزوریاں رکهتا ہے۔اور کوشش سے ان کمزوریوں پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔ کوئی بهی کمزوری انسان میں پختہ ہو جاتی ہے تو وہ اس کی دوسری خوبیوں کو بهی ہلکا کر دیتی ہے۔اور اسکی نیکیوں کے آثرات ختم ہوتے جاتے ہیں۔لوگ عموما اپنی کمزوری کو یہ کہ کر مطمئن ہونا چاہتے ہیں کہ"یہ میری عادت ہے یا بهئی میرا تو مزاج ہی یہ ہے اور یا یہ میری فطری کمزوری ہے۔”

الله تعالى کو بهی ہر انسان کی کمزوریوں کا علم ہے۔الله نے یہی تو دیکهنا ہے کہ اپنی کمزوریوں پہ قابو پانے کی کیا کوششیں کیں؟جب حسن نیت سے پہلا قدم آٹها یا جائے گا تو الله دس قدم آگے بڑه کر ہاتھ تهام لے گا۔اگر کوئی ہاتھ  آگے ہی نہ بڑها ئے تو پهر دلدل سے نکلنے کی سبیل کیسے بنے گی؟

غصہ کرنا ایسی برائی ہے جس سے باقی ساری خوبیوں پہ  پانی پھر جاتا ہے۔ اسی لئے اسے شیطانی  عمل کہا گیا ہے  اور حرام قرار دیا گیا ہے ۔ ہر وہ چیز جو حرام کی گئی ہے برائیوں کی جڑ ہوتی ہے۔

 غصہ کی وجوہات میں سب سے پہلی وجہ عدم برداشت کا مادہ ہے۔ تحمل اور حلم اخلاق عالیہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔اپنی شخصیت کو نکھار نے کے لئے سب سے پہلا کام اپنی کمزوری کی شناخت کرنا ہے پهر اسے تسلیم کرنا ہے۔اس کے بعد اس کی اصلاح کا پختہ ارادہ کرنا الله سبحانه و تعالى سے استعانت طلب کرنا ہے صلوة کی ہر رکعت میں ” ایاک نعبد و ایاک نستعین”  کہتے ہوئے اپنا وہ مدعا سامنے رکهنا ہے جو آپ کو مطلوب ہے ۔جب غصہ آئے تو تمام مسنون طریقے شعوری طور پہ اختیار کئے جائیں .لا حول ولا قوة الا بالله العلي العظيم پڑهنا،اپنی حالت یا جگہ بدلنا پانی پینا وضو کرنا وغیرہ،دراصل غصہ کی کیفیت میں اپنا دهیان کسی اور طرف کرنے کی کوشش میں زہنی کیفیت بدل جاتی ہے اور غصے کے عالم میں اسی طرح کی کوشش کی جا نے کی پریکٹس کی جاتی ہے۔ غصے کی کیفیت کے پہلے چند سیکنڈ  میں ہی ذہن بٹ جائے تو انسان غصے پہ قابو پالیتا ہے۔

ایک اہم پہلو یہ بهی ہے کہ اکیلا انسان نہ برائی میں ملوث ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی برائیوں کو اچهائیوں میں  بدل سکتا ہے۔غصہ کرنے والا شخص برا ہے تو جو اس کو غصہ دلاتاہے وہ اس  کی وجہ بنتا ہے۔ عمل سے زیادہ سبب کی اہمیت ہے۔اخلاقی رویے  ایک دوسرے سے ہی منسلک ہیں ان کے اچها یا برا ہونے میں سب ساتھ دیتے ہیں۔ ان میں کمی یا بڑهاوے میں  وجہ بنتے ہیں۔الله کی خاص الخاص صفت یہ ہے کہ وہ کسی پہ ظلم نہ کرے گا۔ برائیوں کے اسباب کی کهوج لگائے گا۔ چور نے چوری کن اسباب سے کی؟اس میں والدین کی تربیت،معاشرے کی ناہمواریاں، بے انصافی سب کچھ کهنگالا جائےگا۔ اسی طرح نیکی  کے سارے عوامل اور اسباب اور معاونیں اپنا اپنا حصہ پائیں گے۔

(من یعمل مثقال ذرةخيرا یرہ ومن یعمل  مثقال زرة شرا یرہ)

شیطانی عمل غصہ کرنا حرام قرار دیا گیا۔مگر  اس شیطانی عمل یعنی غصہ دلانے والے  لوگوں کو بهی  ضرور  پیش ہونا پڑے گا۔ایک عورت نے کسی عالم سے اپنے شوہر کے غصہ ور ہونے کی شکایت کی تو اسے جواب ملا کہ” شوہر کے غصے کا علاج یہ ہےکہ اسے غصہ کرنےکا موقع نہ دیا جائے” شیطان اس حرام عمل کو کروانے کے لئے موقعے کی تلاش میں ہوتا ہے ۔  جس شخص میں غصہ کی عادت ہو اس کی اس بری عادت کی اصلاح کے لئے لواحقین کو بھی تعاون کرنا ہوگا ۔وہ یہ کہ اسے غصہ دلانے والے امور سے اجتناب کریں۔

 انسانوں کی برائیاں اور نیکیاں ایک دوسرے سے اس طرح جڑی ہوئی ہیں جسے انسانی جسم میں اس کے اعضاء۔

جس شخص کو زیادہ غصہ آتا ہے اس کی تربیت کا پہلا مرحلہ اس کے لئے دعا کرنا ہے اس کو غصہ دلانے سے گریز کرنا ہےاور غصہ کے جواب میں خاموشی اختیار کرنا ہے۔جب کسی کی بات سے رنج و غم طاری ہو تو جب تک  فریقین کے مزاج میں ٹهہراو نہ آجائے متنازعہ موضوع کو نہ  چهیڑا جائے۔    اس دوران فریقین ملبہ ایک دوسرے پہ ڈالنے کی بجائے اپنی غلطیوں کی نشاندہی کریں اور تسلیم کرکے اصلاح کی طرف قدم اٹھائیں۔

  دنیا کے دانشور یا عدالتیں وہی دیکهیں گی جو ان کو دکهایا جائے گا یا جس کے پاس زبان مال  یا عہدے کی طاقت ہوگی۔مگر الله لطیف بعباده ہے،اس کی نظر سے کچھ نہیں اوجهل اور سارے معاملات اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ جہاں رائی کے دانے کے برابر بهی کسی کا عمل نیتوں سمیت چهپا نہ رہے گا۔ہوسکتاہے آج جس کو دنیا فسادی یا چور کہتی ہے وہ اپنے اعمال سے بری الزمہ ہوجائے جس کو دنیا ظالم کہتی ہے وہ مظلوم ہو۔جس کو غدار کہتی ہے وہ محب وطن ہو۔

الله تعالی کی عدالت میں ہر چهوٹی بڑی چیز کی گواہی لائی جائے گی۔اور سب اسباب و علل چهانٹنے کے بعد جس کا جو حصہ ہوگا اس کو دیا جائے گا۔ہر شخص یہ دیکهے کہ وہ دوسرے کی نیکیوں میں  شریک ہو رہا ہے یا اس کی برائیوں میں حصہ  دار ہے۔ اور ہر شخص ہی جائزہ لیتا رہے کہ وہ اپنی کل کے لئے کیا کما رہا ہے۔

(ولتنظر نفس ما قدمت لغد )

ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خاص خوبی اللہ تعالی نے ودیعت کی ہوتی ہے اور یہی خوبی  اس کے دوسرے اعمال پہ حاوی ہوکر وزن بڑھانے کا سبب بنتی ہے ہر فرد اپنی اس خوبی کی پہچان کر لے اور اس پہ استقامت اختیار کرے ۔ اور ہر انسان میں کوئی نہ کوئی بشری کمزوری ہوتی ہے اس کی پہچان کرکے اس سے پیچھا چھڑانے کی مشق کرنا ہی تز کیہ نفس ہے۔جس نے اپنی اچھائیوں اور برائیوں کو پہچان لیا اس نے نفس کے گھوڑے کی لگام پہ قابو پا لیا۔

اللهم إنا نعوذ بک من سوء الأخلاق والأعمال  و نسئلک ایمانا کاملا فی صحة  کاملا  آمین

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s