الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
مسند الفردوس122/1سلسلہ الصحیحۃ 408/3 حدیث 1421 کے مطابق سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” اپنے آپ کو ہر اس معاملے سے بچا کر رکهو جس کی وجہ سے بعد میں معذرت کرنی پڑے۔”
اس ایک جملے میں اپنی عزت نفس کی حفاظت اور پر وقار سنجیدہ شخصیت کی تعمیر کا بہترین اصول بتایا گیا ہے۔ انسانی فطرت طبعاً دوسرے کے سامنے عزت وشرف چاہتی ہے اور جهکنے، معزرت کرنے میں عار محسوس کرتی ہے۔علماء کا کہنا ہے کہ” انسان اپنی زبان اور برے اخلاق کے ہاتهوں دوسروں کے سامنے شرمندہ ہوتا ہے اور اپنی زبان اور اچھے اخلاق کی وجہ سے عزت و شرف حاصل کرتا ہے۔”
وہ سارے اخلاقی عیب جن سے انسان کو دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے وہ دراصل انسان کی اپنی عزت نفس کی حفاظت کے لئے ہیں۔اسی لئے کہتے ہیں کہ ” انسان کی عزت اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔”
ہر وقت غیر سنجیدہ ، استہزائیہ گفتگو، ضد ، ہٹ دهرمی، دوسروں کے معاملات میں ضرورت سے زیادہ عمل دخل، بغیر مطالبہ کے مشورے دینا۔کسی کی رائے پہ اپنی رائے کو بہتر منوانے پہ اصرار کرنا،دوسروں کے اعمال پہ عادتا تبصرے کرنا،دوستوں رشتہ داروں کے درمیاں فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کرنا،دوسروں کی خوبیوں کو پوشیدہ رکهنااور عیب کی تشہیر کرنا،کسی بهی خبر کو بغیر تحقیق کئے بنا سوچے سمجهے دوسروں تک پہنچانا ،فریقین میں سے صرف ایک کی سن کر رائے قائم کر لینا، جهوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اپنی بات سے مکر جانا، الزام تراشی اور بہتان لگانا غیبت چغلی یا حسد کرنا، پیغام رسانی کرتے ہوئے الفاظ کا غلط چناؤ کرنا،یہ غیر محتاط رویے معاشرے میں ابتری کا باعث بنتے ہیں تو سب سے زیادہ اس طرح کا رویہ رکهنے والے کو خود ہی کبهی نہ کبهی دوسروں کے سامنے ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔الله سبحانہ و تعالیٰ کو اپنے بندے سے بہت محبت ہے اور اس کی عزت نفس کے لئے وہ پیارا رب فکرمند رہتا ہے۔وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بهی مرد یا عورت جو اس پہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے ، اس کی شخصیت میں کوئی جهول پیدا ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر انسان میں برائی اور اچهائی کا مادہ ہوتا ہے کوئی انسان نہ مکمل طور پر نیک خصال ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی برائی کا مجسمہ ہو سکتا ہے۔دوسروں کے بارے میں گنہگار ی یا اپنے بارے میں متقی ہونے کا احساس ظاہر کرنا بهی دنیا و آخرت میں باعث ندامت ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ہر وقت اپنی عاجزی کا بار بار اظہار کرنا اور نیک اعمال کرلینے کا تزکرہ کرتے رہنے سے دوسروں کی نظروں میں مقبول و معزز نہیں بنا جا سکتا ۔ یہ بھی ریاء کی ایک قسم ہے۔ الله تعالی نے فرمایا
” لا تزکوا انفسکم هو أعلم بمن اتقی”
اور ہر انسان جانتا ہے کہ وہ کیا عمل الله کے لئے کرتا ہے اور کونسا اپنی خواہش نفس کے ہاتهوں مجبور ہو کر کرتا ہے الله تعالی نے سورہ المدثر میں فرمایا کہ "ہر نفس اپنے اعمال کے عوض گروی ہے۔”
(كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ)
اپنی عزت نفس کا خیال اسی صورت میں رکھا جا سکتا ہے جب یہ یاد رہے کہ ان اعمال کا بهی انسان کو نتیجہ بهگتنا ہوگا جو اس نے لا ابالی پن میں جہالت میں غصے یا انتقام میں یا مزاق میں دوسروں کے ساتھ روا رکھے۔ اس لئے کہ ہر عمل کا رد عمل ہونا ہوتا ہے۔کچھ اعمال کے نتائج جلدی سامنے آجاتے ہیں کچھ کے دیر میں کچھ اعمال کی شرمندگی اس وقت ہوگی جب معزرت کی اجازت نہ ملے گی۔ "لا تعتذرو الیوم " کا نمایاں بورڈ سامنے آجائے گا اور انسان کو کوئی زمین بهی نہ ملے گی کہ مارے شرمندگی کے اس میں سما جائے۔ پشیمانی سے بہتا پسینہ ہو گا جس میں انسان ڈوب ڈوب جاتا ہوگا۔وہاں کی شرمندگی سے بچنے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ اپنے معاملات پہ نظر رکھے ،غلطی ہو جائے تو اس کا اعتراف کرکے دنیا کی تھوڑی سی شرمندگی برداشت کر لی جائے اور اصلاح کرکے کھویا مقام حاصل کر لیا جائے ۔اور بہترین عادت یہ ہے کہ ایسے معاملے میں بلاوجہ دخل دینے سے پہلو بچایا جائے جہاں غیر ذمہ داری کی وجہ سے انسان کو بعد میں معزرتیں کرنی پڑیں۔ اپنی خودی کی حفاظت کی جائے اس کے لئے لازم ہے کہ زبان کو بے لگام ہونے سے اور طور اطوار کو بد تہذیبی سے بچانے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔
اللهم احسن عاقبتنا فی الأمور کلها و اجرنا من خز ی الدنیا وعزاب الاخرة آمین