الحمدللہ رب العلمین والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
سنن ابی ماجہ باب الفتن میں سیدنا عبداللہ ابن عمر (رض)سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اے گروہ مہاجرین! پانچ چیزوں سے میں تمہارے حق میں اپنے رب کی پناہ طلب کرتا ہوں۔
پہلی۔۔۔
جس قوم میں بدکاری پھیل جائے اور علانیہ بدکاری ہونے لگے تو الله تعالى اُن میں طاعون اور دوسری ایسی مہلک بیماریاں بھیج دیتا ہے جو ان سے پہلے لوگوں میں نہیں ہوتیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے بد کاری کے برے نتائج سے ہمیں آگاہ فرمایا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ بچوں میں بھی وہ عجیب بیماریاں پائی جاتی ہیں جو کبھی بڑھاپے میں بھی خال خال ہی سننے میں آتی تھیں،اور نت نئی بیماریوں نے ڈیرہ جمایا ہوا ہے۔ قلب و زہن جن افکار میں مبتلا ہوتے ہیں جسم کے اعضاء اسی کے اثرات قبول کرتےہیں ۔اس لئے سماعت و بصارت اور دل کو حدود اللہ سے آزاد نہ رکھا جائے۔
دوسری بات جس سے آگاہ کیا گیاکہ
جو لوگ ناپ تول میں خیانت کرتے ہیں الله تعالى اُن میں قحط اور معاشی تنگی کی مصیبت بھیج دیتا ہے اور ظالم حکمران ان پہ مسلط ہوجاتا ہے۔
ناپ تول میں کمی صرف کاروبار میں نہیں بلکہ حقوق و فرائض کے پیمانے بھی اسی سے تعلق رکھتے ہیں۔
معاشی تنگی صرف روپے پیسے کی کمی سے نہیں ہوتی۔ سٹیٹس کی دوڑ میں عاقبت سے بے فکر ہوجانے والا مال و دولت کے انبار پاکر بھی معاشی تنگی کا رونا روتا رہتا ہے ۔ یہ تنگی اسے قبر کی تنگی تک پہنچا دیتی ہے۔ حکمران ظالم نصیب ہوتے ہیں تو اس قوم کے اعمال کا ہی عکس ہوتے ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ
لوگ مال کی زکوة دینا بند کر دیتے ہیں تو الله بارش روک دیتا ہے اگر چوپائے نہ ہوتے تو پانی کبھی نہ برستا۔
زکوةادا نہ کرنا تو سب جانتے ہیں گناہ کبیرہ ہے ۔ اور مسلمان ہونے کی شرائط میں شامل ہے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ زکوةکی ادائگی کے سب اصول و قواعد کا درست علم ہونا اور اس کے مطابق سچے حقدار کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے پہنچانا قبولیت کے یقین میں اضافہ کرتا ہے۔ اللہ تعالی پاک ہے پاک مال ہی کوقبول کرتا ہے مشکوک ذرائع سے حاصل کردہ مال کی زکوة قبول نہ ہوگی زکوة کی قبولیت کے ساتھ ہی اس کے ثمرات کا حصول ممکن ہوگا۔ بارشوں کی نمایاں کمی ہر خطے میں پائی جانے لگی ہے۔ ہمیں اپنے مال کی زکو ة کے متعلق حسن ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہئیے۔
چوتھی بات
لوگ عہد توڑ نے کے عادی ہوجائیں تو الله تعالى اُن پہ باہر کا دشمن مسلط کر دیتا ہے جو ان چیزوں کو چھین لیتے ہیں جن کے وہ مالک ہوتے ہیں۔
کیا ہم پہ دوسری قوموں کے اثرات غالب نہیں ہیں۔بحیثیت امت کے دیکھا جائے تو ہمارا سرمایہ، افرادی قوت ،کلیدی عہدے ،منصوبے دوسروں کے ہاتھوں میں ہیں تو ہمارا قیمتی سرمایہ حمیت، غیرت اور حیا بھی چھن گئ ہے۔یہ سب معمولی عہد سے لے کر قانون سے بد عہدی کے نتائج ہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ
آئمہ کرام دین اور الله سبحانه وتعالى کی کتاب پہ عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو الله اُن کو آپس کی جنگ (عداوت)میں مبتلا کر دیتا ہے۔
علماء کی فرقہ بندی پہ زبان اور قلم سے جنگ بتاتی ہے کہ وہ خود دینی احکامات پہ عمل سے دور ہیں ۔
الله تعالى کے نافرمانوں کے ساتھ دوستی رکھنا بھی الله کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ ابن ابی الدنیا سے ایک روایت "دوائے شا فی ” میں درج ہے کہ"الله تعالیٰ نے یوشع بن نون کی طرف وحی کی کہ میں تیری قوم میں سے چالیس ہزار صالح اور ساٹھ ہزار بدکار لوگ ہلاک کرنے والا ہوں۔ انہوں نے پوچھا بھلے لوگوں کی خطا کیا ہے؟ الله تعالى نے جواب دیا جب میں بدکاروں سے خفا تھا تو صالح لوگ ان سے خفا کیوں نہ ہوئے؟ اور کیوں ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے رہے؟ "
اس حدیث مبارکہ میں بتایا گیا ہے کہ بد کاری و بے حیائی پھیلانے والے،بےایمان تاجر،زکوة ادا نہ کرنے والے ،بد عہد، ظالم حکمرانوں سے اللہ سبحانہ و تعالی ناراض ہے تو ان سب دنیا دار لوگوں سے تعلق رکھنے پہ خوشی کا اظہار کرنے والے، ان کی تعریفیں کرنے اور ان کی طرف سے ضیافتوں ملاقاتوں کو سوشل میڈیا پہ فخریہ بتانے والے جب معاشرے کے کچھ ائمہ کرام اور مبلغین اسلام بھی ہونے لگیں اور ایسے لوگوں سے میل ملاقات، دوستی کو وقت کا تقاضا سمجھیں تو سوائے ہلاکت کے باقی کیا رہ جاتا ہے۔
فاعتبروا یا اولی الابصار
یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب انفرادی و اجتماعی طور پہ اپنی اپنی شکلیں پہچان سکتے ہیں۔
ربنا ظلمنا أنفسنا و ان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین. اللھم إنا نعوذبک من سخطک و غضبک والنار آمین