الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
سنن ابن ماجہ کے باب زهد میں شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنه سے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے:
"عقلمند وہ ہےجو اپنے مزاج میں انکساری پیدا کرے ۔ اور موت کے بعد کی تیاری کرے۔احمق اور بے وقوف وہ ہے جو اپنی خواہشاتِ نفس کی تکمیل کے لیے مارا مارا پھرے اور الله سبحانه وتعالى سے بڑی بڑی تمنائیں رکھے۔”
اس حدیث مبارکہ میں عقلمند اور بے وقوف کی نشانی بتائی گئی ہے۔ عیار، مکار، متکبر لوگ اپنے آپ کو بہت ہوشیار عقلمند سمجھتے ہیں ۔ اپنی شاطرانہ چالوں سے دوسروں کا حق مارنا اور اپنا مقصد حاصل کرنا دوراندیشی سمجھتے ہیں۔ غریب، کمزور، اپنے ماتحت لوگوں کو حقیر جانتے ہیں۔ مقام ومرتبے کا رعب ان کی چال ڈھال انداز واطوار سے ہر وقت نظر آتا ہے۔ الله سبحانہ وتعالیٰ کی نظر میں عیار اور متکبر لوگ کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ الله کا پیارا بندہ وہ ہے جو مال، اولاد، اقتدار، عزت صحت وعافیت کی نعمتیں پاۓاور اس کےعجز وانکسار میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔
” ان تعدوا نعمت الله لا تحصوھا”
کا چیلنج ہی بندے کا سر جھکا دیتا ہے۔ اور یہی جھکا ہوا سر الله کی نظر میں عقلمند کا سر ہے۔ اور اس کے معمولات زندگی کا محور یا مقصد متعین ہوتا ہے۔ ہر گزرتا لمحہ اسے یاد دلاتا ہےکہ موت اور اس کے درمیان فاصلہ کم ہورہا ہے۔ اپنے رب کے سامنے حاضری کا احساس بھی بڑھتا جاتا ہے۔ رب سے ملاقات کا اشتیاق اس کے دل میں سرشاری کا احساس جگاتاہے تو اپنے حقیر اعمال کی پونجی اور رب کی عظمت کا اعتراف وخیال دل میں ارتعاش پیدا کرتا ہے جس سے اس کا وجود سراپا ندامت ہو جاتا ہے اور الله کو نادم لوگ بہت محبوب ہیں۔ ہر لمحہ ان کیفیات سے گزرنے والے الله کے بندے کا دل دنیا کو مسافر خانہ ہی سمجھے گا اور موت کے بعد کی زندگی کےلئے تیاری میں مستعد ہوتا چلا جائےگا۔ بے وقوف وہ ہے جو اپنی خواہشات نفس کے پیچھے مارا مارا پھرے۔بے شک کچھ خواہشات نفس ہر انسان میں فطرتا ہوتی ہیں ،جو ضروریاتِ زندگی کہلاتی ہیں۔ ضروریات زندگی یا معیار زندگی کا پیمانہ ہر انسان خود متعین کرتا ہے۔ ناگزیر ضروریات کے پورا ہوجانے کے بعد نفس کا غبارہ کتنا پھولنا چاہئے یہی انسان کی عقلمندی یا بے وقوفی کی پہچان ہے۔ نفس کے گھوڑے کی لگام ہر انسان کے اپنے ہاتھ میں دی گئ ہے۔ یہ کوئی ایسا ریموٹ کنٹرول نہیں ہے کہ جس کے ہاتھ آجائے وہ اس مشین کو کنٹرول کرنے پہ قادر ہو جائے۔ہر انسان کے وجود کی مشین میں اپنا نفس امارہ ہے اور اپنا ہی ریموٹ کنٹرول نفس لوامہ کی شکل میں رکھ دیا گیا ہے۔حدیث کے اگلے حصے میں بہت غور طلب بات ہے کہ یہ بے وقوف مہلت عمل کو خواہشاتِ نفس کی تکمیل کے لئے شتربے مہار کی طرح پھرتا ہے اور الله سبحانه وتعالى سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کی نفس کی بے لگامی کو بھول کر اسے عقلمند لوگوں کے ساتھ رکھے گا۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے رب کی رحمت سے حسن ظن ہے اور وہ بندے کے حسن ظن کے مطابق اس سے معاملہ کرے گا۔ حسن ظن اپنے رب سے رکھنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔وہ اپنے بندوں پہ مہربان ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پہ غالب ہے۔اس کے ہر فیصلے میں خیر ہونا لازم ہے ۔الله تعالى سے حسن ظن رکھنا اس کیفیت میں کہ اپنی موت کے بعد کی زندگی کے لئے تیاری ہورہی ہے، اعمال صالحہ کی جستجو میں ہے، عجز و انکسار طبیعت و مزاج کا حصہ بنتا جا رہا ہے، الله سبحانہ و تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا ان ہی لوگوں کا پہلا حق بنتا ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت 218 میں الله کی رحمت کے امیدواروں کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گےجنہوں نے الله کی راہ میں ہجرت کی اور جہاد کیا۔
(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ)
سورہ النحل کی آیت110
(ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ
میں بھی ہجرت اور جہاد ثابت قدمی جانچنے کے بعد مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا۔علامہ ابن قیم رحمت اللہ علیہ نے کتاب الشافي صفحہ73 میں بے وقوف لوگوں کی الله تعالى سے بڑی بڑی تمنائیں رکھنے کی یہ وضاحت کی ہے۔”حسن ظن بالله” دراصل "حسن عمل” کا ہی دوسرا نام ہے۔حقیقتاً جس قدر حسن عمل بڑھتا جاتا ہے الله سبحانه وتعالى سے حسن ظن بھی بڑھتا جاتا ہے۔اور حسن ظن کے بڑھنے سے حسن عمل کے راستے بھی کشادہ ہوتے جاتے ہیں۔ گویا” اعمال صالحہ” اور” الله سے حسن ظن” ایک دوسرے کے ممد و معاون ہیں۔خواہشاتِ نفس کے پیچھے مارا مارا پھرنے والا بد عمل دنیا میں مگن رہنے والا بھی اگر ایک عقل مند صالح شخص کی طرح ” الله سے حسن ظن "رکھے تو یہ سراسر اس کی حماقت اور ایمان کی کمزوری ہے۔کون سا استاد ہے جو پرچے میں غلط جوابات دیکھ کر بھی شاگرد کے "حسن ظن” پہ خوش ہو؟
حقیقت یہ ہے کہ عالم و عقل مند امید اور تمنا کو درست مقام پہ دیکھتا ہےاور جاہل اور احمق اسےغلط، بے موقع و بے محل استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے رب سے حسن ظن یہ ہے کہ نیکیوں کی قبولیت کا گمان غالب رہے اور نیکی میں جو کمی کوتاہی رہ گئ اس کی معافی کی امید غالب رکھے۔ اور جو بھی رب کی طرف سے بندے کے ساتھ معاملہ پیش آئے اس پہ یہ حسن ظن رکھے کہ اس میں ہی خیر رکھی گئ ہے کہ وہ رب ہم سب کا ستر ماوں سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ سوچنے ،غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم اپنے رب کی وسیع رحمت اور بے انتہا محبت کا جواب نافرمانی سے د ے کریقینی معافی کی ضمانت چاہتے ہیں ؟یا فرماں برداری کی بھر پور کوشش کرکے اس کی رضا کے طالب ہیں اور قبولیت کا حسن ظن رکھتے ہیں؟
اللھم إنا نسئلک نفسا بک مطمئنہ تؤمن بلقاءک وترضی بقضاءک وتقنع بعطائک آمین
اے الله ہم آپ سے وہ نفس مطمئنہ مانگتے ہیں جو آپ سے ملاقات کا یقین رکھے، آپ کے حکم پہ راضی رہے اور آپ کی عطا پہ قناعت کرے آمین